سماجیسیاسیمضامین

این آر سی اور کیب: خبردار! ارتداد کے لیے مجبور کرنے والے قوانین

ذوالقرنین احمد

غیر آئینی این آر سی اور قوم مخالف کیب سٹیزن ترمیمی بل صرف مسلم دشمنی کیلے لایا جارہا ہے جسے کل مودی حکومت کی کابینہ میں منظوری دے دی گئی ہے۔ اور حکومت اسے جلد رجیہ سبھا میں پیش کرنے والی ہے۔ اس بل کا مقصد صرف مسلمانوں کو نشانہ بنانا ہے۔ آسام میں اس‌ بل کے زریعے این آر سی میں حکومت نے 50 ہزار اہلکاروں کے زریعے اس عمل کو مکمل کیا جس میں کروڑوں روپے برباد کیے ہے۔ اور 19 لاکھ افراد کو غیر ملکی قرار دے دیا گیا ہے۔ جس میں 11 سے 13 لاکھ افراد غیر مسلم ہے۔ اسکے بعد حکومت کو منہ کی کھانی پڑی اور انہی کے بے بی جے کے لیڈروں نے انکی جم کی مخالفت کی ہے۔

اسی‌ طرح بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی نے بھی اس بل کی سخت اور کھلے لفظوں میں مخالفت کی ہے۔ جبکہ امیت شاہ مہاراشٹر اسمبلی انتحابات کے دوران انتخابی مہم سے خطاب کرتے ہوئے یہ بات کہے چکے ہیں کہ پورے ملک میں این آر سی کا عمل شروع کیا جائے گا اور گھس پیٹو کو ملک بدر کیا جائے گا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کئی مرتبہ اس بات کو دہرایا ہے، جو ملک وزیر داخلہ ہونے کے ناطے انکا غیر ذمے دارانہ بیان ہے۔ انہوں کہا ہے کہ ہندو، سکھ، عیسائی، جین پارسی ،بدھ کے پاس شہریت ثابت کرنے کیلے ضروری کاغذات نا بھی ہو تو سیٹیزن ترمیمی بل کے زریعے انھیں ملک کی شہریت دی جائے گی جبکہ اگر مسلمان اگر بنگلہ دیش پاکستان کا غیر ملکی آکر یہاں آباد ہوا ہے تو اسے ملک بدر کیا جائے گا۔

این آر سی کو 1951 کی مردم شماری کے بعد تیار کیا گیا تھا۔
اسی طرح این آر سی بل میں یہ بھی ہے 1951 میں جن شہریوں کا نام رجسٹر ہے حکومت کے کسی بھی ادارے یا ووٹنگ لسٹ میں،
24 مارچ 1974ء تک انتخابی رول میں شامل تمام شہری۔ 
وہ شہری جو کوئی ایک بھی ایسا قابل قبول دستاویز دکھادے جس میں یہ واضح ہو کہ 24 مارچ 1971ء کی نصف رات تک ان کا نام اس میں موجود  ہو۔
اپنا یا والدین میں کے سے کسی ایک کا یا پرکھوں میں سے کسی کا نام بتانا ضروری ہے جو دستاویز میں موجود ہو۔
درخواست دہندگان کو اپنا/والدین یا پرکھوں میں سے کسی کا نام این ایس کے اور پولنگ بوتھ میں بتانا ضروری ہے۔ ا

اس قانون کے زریعے لاکھوں کروڑں افراد کی شہریت کو مشکوک قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بی جے پی کی دوسری مرتبہ مرکزی اقتدار حاصل کر‌نے کے بعد سے یہ اپنے سنگھی نظریات کو لے کر آگے بڑھ رہی ہے۔ جنہوں اب حکومت اور قانون کو اپنی لونڈی بنا کر رکھ دیا ہے۔ یہاں تک عدالت عظمیٰ بھی انکے ظلم و تشدد اور نا انصافی سے‌ محفوظ نہیں رہی سکی ہے۔

حال ہی میں ۹ نومبر کو متنازع اراضی بابری مسجد کے فیصلے سے یہ بات سب کے سامنے عیاں ہوچکی ہے کہ ہندو کی اکثریت کو دیکھتے ہوئے آستھا کی بنیاد پر فیصلہ سنایا گیا جبکہ بابری مسجد کا معاملہ ملکیت کا معاملہ ہے۔ اور مسلمانوں کے ساتھ نا انصافی کی گئی ہے۔

لیکن مسلمانوں نے ملک کے امن و امان کو بحال رکھتے ہوئے صبر و ضبط کا مظاہرہ کیا۔ لیکن آج انہیں ریویو پٹیشن دائر کرنےکی وجہ تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ حالانکہ سپریم کورٹ کے فیصلے آنے سے قبل بی جے پی کے لیڈران ایسے بیانات دے رہے تھے جو غیر قانونی اور جذبات کو مجروح کرنے والے تھے سپریم کورٹ کے فیصلہ سے قبل انکے بیان سامنے آئے کہ فیصلہ مندر کے حق میں ہوچکا ہے اور اب صرف اعلان کرنا باقی ہے۔ جبکہ یہ کنڈیم آف کورٹ ہے اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ضرور فیصلہ پہلے ہی ہوچکا ہوگا تبھی یہ لوگ ہم سے امن کی اپیل کر رہے تھے۔ اور انکے افراد کورٹ کا وائلینس کر رہے تھے۔ اور امن کی اپیل ہم سے کی جارہی تھی۔

آج بھی ملی قیادت آپس میں انتشار پیدا کر رہی ہے۔ منافقوں کی وجہ سے انکی نام کہ جماعتوں کو آپس میں رنجشوں کو حوا دینے کیلے کوئی گہری چال چلائے جارہی ہیں۔ یہ بات بھی ضروری ہے کہ ریویو پٹیشن دائر کی جانی ضروری ہے اور متحد ہوکر یہ کام بورڈ کو جمیعت کو کرنا چاہیے تھا لیکن آپس میں ہی منشتر ہورہے ہیں۔ آج مسلمانوں کو دفاع سے زیادہ عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

سیکولرزم چولہ پہن کر مسلمان اپنی مذہبی شعائر کو فراموش کر رہے ہیں ہر معاملے میں اس قدر سیکولر ہونے کا اور اسے ثابت کرنے کی حد سے زیادہ کوشش کی جاتی ہے کہ انکی دستار ہی گر جاتی ہیں۔ یا پھر یوں کہے کہ نادان اس قدر جھک جاتے ہیں کہ سجدہ معلوم ہوتا ہے۔ حالات کی نزاکت کا ادراک رکھتے ہوئے ملی قیادت کو ضرورت ہے کہ وہ مسلمانوں کو غفلت کی نیند سے بیدار کرے، اور مزید بے حسی زندگی گزارنے سے باز آنے کیلے کہے۔ آپسی اختلافات رنجشوں کو بلائے طاق رکھتے ہوئے، کلمہ حق کے بنیاد پر ایک ہوجائے اور اب مزید ان فرقہ پرستوں کو موقع فراہم نا کرے آزادی کے بعد سے مسلمانوں کو نظر انداز کیا گیا ہے اور انہیں ہر لحاظ سے کمزور کیا گیا ہے۔

این آر سی اور سیٹیزن ترمیمی بل کے پر زور مخالفت کرنے کی بے حد ضرورت ہے ورنہ جس طرح طلاق ثلاثہ اور بابری مسجد کے فیصلے آئے ہیں وہ ہمارے سامنے ہیں۔ یہ شہری ترمیمی بل کو معمولی بل نہیں ہے بل کے اسکے پیچھے گہری سازش رچنے جارہی ہیں جس کا مقصد ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانا ہے۔ مرکزی حکومت میں موجود بی جے پی کے لیڈران کھول کر زہر افشانی کر رہے ہیں۔

اس بل میں جو ترمیم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اس میں شائد یہ بھی ہو کے ہندوستان میں رہنے کیلے ہندو ہونا لازمی ہو یا بھر ایسی ہی کوئی قانون سازی ہوگی جو ہم ہماری لیے مصیبت کا سبب ہوگی۔ مسلمانوں کے پاس مال و اسباب نہیں ہے۔ نا ہی وہ سیاست میں اپنی ضروری تعداد رکھتے ہیں۔ اس میں سے سیکولرزم کا ڈنکا بجانے والے سیاسی جماعتوں کا بھی امتحان ہوگا کہ اس بل کے خلاف کیا اقدامات کرتے ہیں اس لیے ضرورت ہیں کہ سڑکوں پر اتر کر اب اس غیر آئینی بل کی پر زور مخالفت کرے۔ مسلمانوں کی اسلام سے دوری اور اسلام بیزاری سے یہ بات بھی سامنے آرہی ہیں کہ نئی نسل ارتداد کے دہانے پر کھڑی ہوئیں ہے۔

کئی مسلم لڑکیا لڑکے صرف عشق و محبت کے جال میں پھنس کر مذہب اسلام سے خارج ہورہے ہیں اور مذہب چھوڑ کر غیر مسلم افراد سے شادیاں کر رہے ہیں۔ آج اگر یہ بل پاس ہوتا ہے تو نئی نسل میں سے بہت بڑا طبقہ ارتداد کی زد میں آسکتا ہیں۔ کیونکہ جو قوم فجر کی نماز کو نہیں اٹھ سکتی ہیں اور چند پیسوں میں بک جاتی ہیں یا پھر عشق و محبت میں مذہب تبدیل کرنے کو ترجیح دیتی ہو وہ کیا ایسا حالت میں اپنے قدم جمائے رکھنے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔ اس لیے قائدین اور ملی رہنماؤں کو اس بل کے خلاف کھل محاذ آرائی کرنا ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!