ہندوستان میں خواتین کی صورتحال اور عالمی یومِ خواتین
یاسمین اسلام، کولکاتہ*
عالمی یوم خواتین ہر سال 8 مارچ کو منایا جاتا ہے۔عالمی یوم خواتین 2024 کی مہم کا موضوع شمولیت کی ترغیب#InspireInclusion ہے اور سب سے اہم تھیم “خواتین میں سرمایہ کاری اور پیش رفت کو تیز کریں “رکھی گئی ہے۔ یہ ایک جامع معاشرے کی تشکیل اور خواتین کو بااختیار بنانے میں سرمایہ کاری کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ یہ موضوع اقوام متحدہ کے 68 ویں کمیشن آن دی سٹیٹس آف ویمن (CSW 68) کے ترجیحی موضسوع کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔موضوع اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ ترقی کے باوجود، خواتین کو معیشت میں مساوی شرکت کے حصول کے لیے اہم رکاوٹوں کا سامنا ہے اور خواتین اور لڑکیوں کو اپنی صلاحیتوں کو بڑھانے اور ان کی سیکھنے، کمانے اور قیادت کرنے کی صلاحیت کو مضبوط کرنے کے لیے مساوی مواقع کو یقینی بنانے پر زور دیا گیا ہے۔صنفی برابری اور کام کی جگہ میں شمولیت بھی اس میں شامل ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں پوری تاریخ میں، بہت سی ایسی خواتین رہی ہیں جنہوں نے دنیا کو کافی حد تک متاثر کیا ہے۔ خواتین کیووٹ کے حق کیلئے جدوجہد کرنے والی ‘سفراگیٹ’سے لیکر ریڈیو ایکٹیویٹی کی سائنس کی بنیاد رکھنے والے میری کیوری تک اور روزالینڈ فرینکلن جس نے ڈی این اے کی ساخت دریافت کی،اس سب خواتین نے سماجی، ثقافتی، اقتصادی اور سیاسی پیش رفتوں کو مسلسل متاثر کیا ہے۔ایک ایسی دنیا میں جو بد قسمتی سے اب بھی صنفی تعصب اور امتیازی سلوک سے دوچار ہے، ایسی کامیابیوں کو سراہنا پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال 8 مارچ کو عالمی یوم خواتین منایا جاتا ہے۔ مختلف خطوں میں یوم خواتین منانے کا مقصد خواتین کے تئیں تعریف، محبت اور احترام کے جشن سے لے کر خواتین کی سیاسی، سماجی اور معاشی کامیابیوں کو یاد کرنا ہے۔
یوم خواتین کے لیے اقوام متحدہ کے موضوعات امید بھرے انداز میں عالمی سطح پر خواتین کی جدوجہد کے بارے میں سماجی اور سیاسی بیداری کو وسیع کرنے پر زور دیتے ہیں۔ایک صدی سے زیادہ کی تاریخ اور تبدیلی کے ساتھ، خواتین کا پہلا عالمی یوم خواتین (Internationl Womens Day) مارچ 1911 میں منعقد ہوا۔ عالمی یوم خواتین کو ئی ملک، گروپ یامخصوص تنظیم نہیں ہے۔ یہ اجتماعی عالمی سرگرمی اور جشن کا دن ہے جس کا تعلق ان تمام لوگوں سے ہے جو خواتین کی مساوات کے لیے پرعزم ہیں۔
تنظیمی یا گروہی بنیادوں پر، خواتین اور لڑکیوں کی ضروریات، دلچسپیوں اور خواہشات کو قابل قدر اور شمولیت کو یقینی بنانے کے بہت سے طریقے ہیں۔ تنظیمیں اور گروپ ان شعبوں میں کارروائی کے ذریعے #InspireInclusion کرسکتے ہیں جیسے: خواتین کو معاشی طور پر بااختیار بنانا، خواتین کی بھرتی،ترقی اور ان کی صلاحیتوں کو فروغ دینا، قیادت، فیصلہ سازی، کاروبار اور STEM میں خواتین اور لڑکیوں کی مدد کرنا،ڈیزائننگ اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں خواتین اور لڑکیوں کی ضروریات کو پورا کرنا،خواتین اور لڑکیوں کو ان کی صحت کے بارے میں باخبر فیصلے کرنے میں مدد کرنا،خواتین اور لڑکیوں کو پائیدار زراعت اور خوراک کی حفاظت میں شامل کرنا،خواتین اور لڑکیوں کو معیاری تعلیم اور تربیت تک رسائی فراہم کرنا،کھیلوں میں خواتین اور لڑکیوں کی شرکت اور کامیابی کو بڑھانا،خواتین اور لڑکیوں کی تخلیقی صلاحیت اور فنکارانہ صلاحیتوں کو فروغ دینا، خواتین اور لڑکیوں کی ترقی کی حمایت کرنے والے مزید شعبوں پر کام کرناوغیرہ۔
ہمارے ملک ہندوستان میں انسانی وسائل کی فراوانی ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جو عورت اس وسائل کا نصف ہے وہ کسی بھی جہت سے کمزور نہیں ہے۔چاند اور مریخ پر پہنچنے والے راکٹ لانچوں پر خواتین سائنسدانوں کے ساتھ ساتھ دیہاڑی پر کام کرنے والی مزدور خواتین تک بھی ملک کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ خواتین کے ساتھ خاندان، سماج، کام کی جگہ، عوامی مقامات پر امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے۔ خواتین کو اپنی جنس کی وجہ سے امتیازی سلوک، تشدد، جنسی ہراسانی، مذہبی ظلم وستم، گھریلو تشدد کا سامنا ہے۔
سال2020 کی، بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق، تین میں سے ایک خاتون کو صنفی بنیاد پر تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔.اس کے علاوہ خواتین کو بالواسطہ طور پر معاشی بدحالی، مہنگائی اور بے روزگاری کا شکار ہونا پڑتا ہے۔سیاسی طور پر بھی خواتین کو امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ٹکٹوں کی تقسیم سے لے کر پارلیمنٹ میں نشستیں حاصل کرنے تک اور اعلیٰ وزارت یا وزیر اعظم کے عہدے حاصل کرنے میں بھی خواتین ناکام رہتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج صرف پندرہ فیصد خواتین ہی پارلیمنٹ میں جا سکتی ہیں۔ خواتین کیلئے ریزرویشن پارلیمنٹ میں منظور ہونے کے باوجود اس پر عمل درآمد کب ہوگا اس کی کوئی فکر یا گیارنٹی نہیں ہے۔اس کے علاوہ اس میں کوئی شک نہیں کہ انٹر نل ریزرویشن کے بغیر خواتین ریزرویشن ایکٹ غریبوں کے لیے ایک سراب ہی ثابت ہوگا۔
ہمارے ملک میں خواتین کی موجودہ صورتحال یہ ہے کہ جن پہلوانوں نے بین الاقوامی سطح پر ملک کا وقار بلند کیا وہ انصاف کے مطالبے کو لیکر مہینوں تک احتجاج کرتے رہے اور روتے رہے اور انہیں سڑکوں پر گھسیٹا گیا اور گرفتار کر لیا گیا۔ ایوارڈ واپس کرنے کے احتجاج کے باوجود ملزم برج بھوشن کو رکن پارلیمنٹ کے عہدے سے برخاست نہیں کیا گیا۔بلقیس بانو کیس میں سپریم کورٹ نے مجرم کو عمر قید کی سزا سنائی۔عالمی سطح پر مخالفت ہونے کے باوجود ملک کی سرکاری کرسی پر بیٹھنے والوں کو کوئی شرمندگی محسوس نہیں ہوئی۔ وسیع مخالفت، متاثرہ کی مسلسل محنت، سماجی کارکنوں کی جانب سے جسٹس بنچ میں درج شکایات کے بعد آخر کارمجرموں کادوبارہ جیل جانا حیران کن تھا۔ لیکن مجرم ایک دو ہفتوں میں طویل پیرول ملنے کے بعد جیل سے باہر ہیں۔آج تک وزیر اعظم نے منی پور کا دورہ نہیں کیا جہاں خواتین کی برہنہ جلوس عالمی سرخیاں بنیں۔ میرا دل یہ سوچ کر جھنجھلاتا ہے کہ جب عالمی سطح پر خبریں پہنچنے کے باجود انہیں انصاف نہیں ملا ہے تو ان کے نزدیک خواتین کی کیا حیثیت ہو سکتی ہے۔ اناؤ، ہاتھرس کے واقعات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اگر ملزم اعلیٰ ذات کا ہے اور متاثرہ نچلی ذات کا ہے تو متاثرہ کو زیادہ سخت حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ فرقہ وارانہ فاشسٹ سوچ رکھنے والے سیاست دان عصمت دری اور قتل کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں ملزمان کی حمایت کرتے ہیں اور خواتین کو مارتے پیٹتے ہیں۔ یہ ہم نے کٹھوعہ میں بھی دیکھا ہے۔ ایسے سیاستدانوں کی وجہ سے اوسطاً ہر 15 منٹ میں ایک عصمت دری رپورٹ ہوتی ہے۔
داخلی امور کے وزیرمملکت اجے کمار مشرا نے راجیہ سبھا میں بتایا کہ 2021۔2019 میں 13.13 لاکھ خواتین لاپتہ ہوئی ہیں۔ خواتین مخالف مقدمات میں فی گھنٹہ 51 ایف آئی آر درج کی جاتی ہیں۔ خواتین کے خلاف جرائم میں عصمت دری، عصمت دری اورقتل، جہیز ہراسانی، تیزاب پھینکنا، خودکشی پر اکسانا، اغوا، جبری شادی، انسانی اسمگلنگ، آن لائن ہراساں کرنا وغیرہ شامل ہیں۔نیشنل کرائم ریکارڈ بیوروکے مطابق سال 2022میں ہندوستان میں ہر روز اوسطا تقریبا 90عصمت دری ہوتی ہیں۔اس سال عصمت دری کے 31,156واقعات درج کئے گئے۔راجستھان، اترپردیش اور مدھیہ پردیش جیسے ریاستوں میں سب سے زیادہ عصمت دری کے واقعات در ج کئے گئے۔ آپ جانتے ہیں کہ خواتین جب شکایت لے کر پولیس اسٹیشن جاتی ہیں تو ان کے ساتھ کیساسلوک کیاجاتا ہے۔ اس سے ڈر کر کئی خواتین رپورٹ ہی نہیں لکھواتی ہیں۔
تعلیم میں سب سے ترقی یافتہ ریاست کیرالہ میں میڈیکل کی طالبہ کی جہیز کے لیے خودکشی کرنے کے اس واقعے کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے کیونکہ یہ تمام ریاستوں میں بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے۔ جعلی مذہبی رہنماؤں پر کوئی سخت قوانین لاگو نہیں ہوتے جو خواتین کے ذہنوں میں جہالت کے بیج بوتے ہیں اور ان کا جنسی اور مالی استحصال کرتے ہیں۔ جب وہ جیلوں سے باہر آتے ہیں تو ان کا استقبال پھولوں کے ہار پہنا کر کیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں فرقہ پرستی، نسلی نفرت، تعصب، اقربا پروری، اجتماعی قتل، نفرت انگیز تقاریر وغیرہ سنگھ پریوار کی خواتین مخالف پیشکش ہیں۔کرپشن، نجکاری، انصاف کی راہ میں رکاوٹ، فرضی انکاؤنٹرس، کالے قوانین، عوام دشمن پالیسیاں وغیرہ خواتین کے خلاف حکومتی سرپرستی میں ہونے والے مظالم ہیں۔سنگھ پریوار کی گرفت میں مین اسٹریم میڈیا خواتین کی خبریں ان کے نظریے کے مطابق نشر کرتا ہے۔ میڈیا ووٹ حاصل کرنے کے لیے – اقتدار بچانے کے لیے – مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر خبریں تقسیم کر کے کسی بھی حد تک گرنے کو تیار ہے۔
خواتین قدیم زمانے سے ہندوستان کی ثقافت اور معاشرے کا ایک لازمی حصہ رہی ہیں۔ تاہم، ہندوستان میں خواتین کی حیثیت کئی سالوں سے بحث اور تشویش کا موضوع رہی ہے۔ حالیہ برسوں میں ہونے والی پیش رفت کے باوجود، ہندوستان میں خواتین کو آج بھی بہت سے چیلنجز درپیش ہیں۔حالیہ برسوں میں، خواتین کو بااختیار بنانے کی ہندوستان کی کوششوں میں بہت سی مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔ حکومت نے کئی پروگراموں اور پالیسیوں کو نافذ کیا ہے جن کا مقصد خواتین کی صحت، تعلیم اور معاشی مواقع کو بہتر بنانا ہے۔ افرادی قوت میں حصہ لینے والی خواتین کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور خواتین نے سیاست، کاروبار اور تفریح سمیت مختلف شعبوں میں اعلیٰ مقام حاصل کیا ہے۔ان کامیابیوں کے باوجود، ہندوستان میں خواتین کو اب بھی اہم چیلنجز کا سامنا ہے۔ صنفی امتیاز، خواتین کے خلاف تشدد اور غیر مساوی تنخواہیں بڑے مسائل ہیں۔ مادہ جنین اور نوزائیدہ قتل، خاص طور پر ایسا دیہی علاقوں میں ہوتا ہے جو کہ ایک اہم تشویش ہے۔ خواتین کی حفاظت اور سلامتی بھی ایک اہم مسئلہ ہے، ہر سال جنسی طور پر ہراساں کرنے اور حملہ کرنے کے بہت سے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔
ہندوستان میں خواتین کو صنفی مساوات کو فروغ دینے اور ان کے مفادات کے تحفظ کے لیے کئی سالوں سے مختلف قانونی حقوق عطا کیے گئے ہیں۔برابری کا حق، تعلیم، جائیداد، شادی اور طلاق، صحت، کام، مساوی تنخواہ، گھریلو تشدد کے خلاف اور جنسی ہراسانی کے خلاف اہم قانونی حقوق ہیں جو ہندوستان میں خواتین کو حاصل ہیں۔ان چیلنجوں سے نمٹنے اور ہندوستان میں خواتین کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے، سماج کے تمام شعبوں سے مل کر کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو خواتین کی صحت، تعلیم اور معاشی بااختیار بنانے کی پالیسیوں پر عمل درآمد جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ سماج کے تمام سطحوں پر صنفی حساسیت اور تعلیم پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ خواتین کے بارے میں مثبت پیغامات کو فروغ دینے اور صنفی دقیانوسی تصورات کے خلاف لڑنے میں میڈیا بھی اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ ہندوستان میں خواتین کی حالت میں نمایاں بہتری لانے کیلئے بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔ خواتین کے لیے ایک منصفانہ معاشرے کے لیے کام جاری رکھا جائے۔ ہندوستان میں خواتین کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے اور صنفی مساوات کو فروغ دیکر، ہم اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ خواتین زندگی کے تمام پہلوؤں میں پوری طرح سے حصہ لے سکیں اور ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔خواتین کو بااختیار بنانے کا مطلب ہے کہ انہیں زندگی کے تمام پہلوؤں میں مکمل اور یکساں طور پر حصہ لینے کے لیے وسائل اور مواقع فراہم کیے جائیں۔
- مضمون نگار ویمن انڈیا موؤمنٹ کی قومی صدرہیں۔