صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی مسلمانوں کے لئے رول ماڈل
محمد خالد داروگر، سانتاکروز، ممبئی
سپریم کورٹ کے ذریعے ایودھیا پر متوقع فیصلے کے پیش نظر راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (ار ایس ایس) اور بی جے پی کی ایماء پر ان ہی کے مسلم شو بوئیز (SHOW BOYS) رہنماؤں کی جانب مسلمانوں پر دباؤ ڈالنے اور ان کو سمجھانے بجھانے کے لئے ان کے ہم خیال مسلم رہنماؤں، دانشوروں اور علمائے کرام کے ساتھ میٹنگ کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ ایسی ایک اہم میٹنگ اقلیتی امور کے مرکزی وزیر اور ہندوتوا وادیوں کے چہیتے داماد مختار عباس نقوی کی سرکاری رہائش گاہ پر ان کے دوسرے داماد شاہنواز حسین کی موجودگی میں منعقد ہوئی۔
آر ایس ایس کی طرف سے ڈاکٹر گوپال کرشن اور ارون آنند اور مسلم رہنماؤں میں جمیعتہ علماء کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی، پروفیسر اخترالواسع، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر طارق منصور، پارلیمنٹ مسجد کے امام محب اللہ ندوی، درگا اجمیر شریف سے امین پھٹان، مفتی اعجاز ارشد قاسمی، شیعہ عالم دین محسن نقوی، جلال حیدر اور جے این یو میں عربی شعبہ کے پروفیسر محمد قطب الدین میٹنگ میں شریک ہوئے۔
اس میٹنگ میں مسلمانوں کو بہت سی نصیحتیں کی گئی۔ آر ایس ایس سے منسلک اندر پرست عالمی ڈائیلاگ سینٹر کے چیف ایگزیکٹو ارون آنند نے کہا ہے کہ”ملک کا مفاد اسی میں ہے کہ مسلمان دارا شکوہ اور اے پی جے عبدالکلام کو رول ماڈل کے طور پر دیکھیں اور حملہ آوروں جیسے بابر اور اورنگزیب کی وراثت سے اپنے آپ کو دور رکھیں۔ یہ اتنی بڑی بات ارون آنند نے کہی جس پر میٹنگ میں شریک بحیثیت مسلمان ہونے کے ان کو بےچین ہوجانا چاہیے تھا لیکن ہوا اس کے الٹا مسلم رہنماؤں اور علمائے کرام نے گردن جھکا کر آر ایس ایس کے فرمان کو آمنا و صدقنا کی طرح سن لیا۔
ان کی طرف سے کسی طرح کا ردعمل اس میٹنگ میں سامنے نہیں آیا۔ مولانا محمود مدنی پوری میٹنگ کے دوران سر جھکائے خاموش تماشائی بنے رہے اور میٹنگ کے اختتام پر انہوں نے پریس کے سوالوں کا جواب بھی نہیں دیا ایسا لگ رہا تھا جیسے انہیں کوئی زبردستی میٹنگ میں گھسیٹ کر لایا ہے۔ یہ اتنا بہترین موقع تھا مولانا محمود مدنی اور دوسرے علماء کے لئے کہ وہ اس موقع پر آر ایس ایس کو منہ توڑ جواب دیتے۔ میٹنگ میں وہ مسلمانوں کی نمائندگی کر رہے تھے اور اس میٹنگ میں سب پر واضح کردیتے کہ بابر اور اورنگزیب حملہ آور نہیں تھے اور دارا شکوہ اور اے پی جے عبدالکلام مسلمانوں کے رول ماڈل ہرگز نہیں ہیں۔
مسلمانوں کے رول ماڈل اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے بعد اور قیامت واقع ہونے تک”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم”ہی رہینگے اور کوئی دوسرا رول ماڈل ہمارے لئے ہوہی نہیں سکتا ہے اور نہ ہوگا۔ رول ماڈل کی حیثیت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تعارف و پیغام اور ان کی تعلیمات کی تفصیلات وہ اس میٹنگ میں رکھ دیتے۔
ربیع الاول کا مہینہ بھی تھا اتنا شاندار موقع و محل تھا جو انہوں نے اپنے ہاتھوں گنوا دیا۔ ایسا محسوس ہورہاہے کہ ایودھیا کے متوقع فیصلے سے عام مسلمانوں سے زیادہ مسلم قیادت ڈری سہمی ہوئی ہے اور اس میٹنگ میں صاف نظر آرہا تھا کہ ان میں سننے کی صلاحیت تو دکھائی رہی تھی لیکن کچھ کہنے کی ہمت بلکل دکھائی نہیں دے رہی تھی۔