خواتینمذہبیمضامین

خاتونِ جنت حضرت فاطمہ زہرؓہ کی سیرت پاک دخترانِ اسلام کے لیےعملی نمونہ

مفتی افسر علی ندوی

عورت جسے صنف ِ نازک اور وجہِ تسکین قلب کہا جاتا ہے، در حقیقت نوعِ انسان کا ایسا لازمی اور ضروری جزہے جس کے بغیر انسانی معاشرہ کی تشکیل غیر ممکن ہے۔ یہ بات مسلّم ہے کہ عورت معاشرہ کا ایک ایسا عنصر ہے جسے نظر انداز نہیں کیاجا سکتا، بلکہ سماجی اور تمدنی کی بقاء کا انحصار تقریباً اسی پر ہے۔عورت کی حیثیت، اس کا کردار و عمل اور اس کی حیات بخش صلاحیتیں، معاشرے کے عروج و زوال کا ضامن ہے۔
شہر کا تبدیل ہونا شاد رہنا اور اداس
رونقیں جتنی یہاں ہیں عورتوں کے دم سے ہیں

رسول اللہ ﷺ کی زندگی رہتی دنیا تک کی انسانیت کے لیے عملی نمونہ ہے، مگر بعض مسائل کا تعلق صرف خواتین سے ہوتا ہے جس کی وجہ آپ ﷺ ان مسائل میں نمونہ قرارنہیں دئے جا سکتے، اس لیے ایک خاتون کی زندگی اس کے لیے بہترین نمونہ ہو سکتی ہے، اس کردار کے لیے حضرت فاطمۃ الزہراء ؓ کی زندگی دخترانِ اسلام کے لیے بہترین عملی نمونہ ہے۔حضرت ابو موسیٰ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ مریم بنت عمران، آسیہ فرعون کی بیوی، ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ اور فاطمہ بنت محمد ﷺ کے سوا کوئی خاتون کامل نہیں ہوئی۔(البخاری: 3411)

حضرت فاطمہ زہرؓہ کی زندگی دخترانِ اسلام کے لیے بہترین عملی نمونہ ہے، حضرت فاطمہ ؓ بچپن ہی سے نہایت سنجیدہ، ذہین و فطین تھیں،رفتار و گفتار اور عادات وخصائل میں رسول کریم ؐکا بہترین نمونہ تھیں، وہ نہایت پرہیز گار، صابرہ اور شاکرہ تھیں، وہ گھر کے تمام کام خود انجام دیتی تھی، عباد ت کثرت سے کرتی تھیں۔شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
افلاس سے تھا سیدہ پاک کا یہ حال
گھر میں کوئی کنیز نہ کوئی غلام تھا
گھس گھس گئی تھیں ہاتھ کی دونوں ہتھیلیاں
چکی کے پیسنے کا جو دن رات کام تھا

خواتینِ جنت کی سردار حضرت فاطمۃ الزہرا ءؓ کی زندگی میں ہماری تمام ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے لیے بہترین نمونہ ہے، شرم و حیا لڑکیوں کا سب سے قیمتی زیور ہے، حضرت فاطمہؓ گھر کے کام خود کرتی اور پانی بھر بھر کر لاتیں مگر کیا مجال کہ جسم کا کوئی حصہ کھل جائے، زندگی بھر کوئی ایسا باریک کپڑا نہیں پہنا جس سے جسم کی نمائش ہو، حضور ﷺ نے فرمایا کہ اہل جہنم میں میری امت کی کچھ ایسی عورتیں ہوں گی جو لباس پہن کر بھی برہنہ ہوں گی، دوسروں کو اپنے طرف مائل کرنے والی اور خود دوسروں کی طرف مائل ہونے والی ہوں گی، ان کے سر بختی اونٹ کی طرح ہوں گے، وہ جنت میں داخل نہیں ہوں گی، جنت کی خوشبو اسے میسر نہ ہوگی اور جنت کی خوشبو اتنی اتنی مسافت سے ہی محسوس ہوتی ہے۔ (مسلم، کتاب اللباس و الزینۃ) ایسا لباس جس سے جسم جھلکتا ہویا لباس اتنا مختصر ہو کہ پورے جسم کی ستر پوشی نہ ہوتی ہو یا لباس اتنا چست ہو کہ جسم کی ساخت نظر آتی ہو، ایسے لباس زیب تن کرنے والی خواتین اور لڑکیاں اس حدیث کے مصداق ہوں گی۔
جب تلک چہرہ پر نقاب تھا کشش بھی تھی
تونے یہ کیا غضب کیا لباس تک اتار دیا

ایک دفعہ آپ ؓ بیمار تھی، لیکن رات بھر عبادت میں مصروف رہیں، جب حضرت علی ؓ نما ز کے لیے مسجد گئے توآپ نماز کے لیے کھڑی ہو گئیں، نماز سے فارغ ہوکر چکی پیسنے لگی، حضرت علی نے واپس آکر چکی پیستے دیکھا تو فرمایا:اے رسولِ خدا کی بیٹی اتنی مشقت نہ اٹھایاکرو۔ آپ ؓ کہنے لگیں:”خدا کی عبادت اورآپ کی طاعت مرض کا بہترین علاج ہے، اگر ان میں سے کوئی موت کا باعث بن جائے تو اس سے بڑھ کر میری خوش نصیبی کیا ہوگی۔“

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ فاطمہؓ تمام جنتی عورتوں کی سردار ہے، آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ عورت کا بہترین زیور یہ ہے کہ نہ وہ کسی غیرمحرم کو دیکھے اور نہ ہی کوئی غیر محرم اسے دیکھے۔آج کی خواتین کو چاہیے کہ سیرت خاتون جنت سے درس لیتے ہوئے اپنی زندگی کو ان ہی کی طرز زندگی پر گزاریں۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:اور مومن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی کریں، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیاکریں،اپنے زیور کے مقامات کو ظاہر نہ ہونے دیں، مگر ان میں سے جو کھلا رہتا ہو، اپنے سینوں پر اوڑھنیا ں اوڑھے رہا کریں، اور اپنے شوہر، باپ، خُسَر، بیٹیوں، شوہر کے بیٹوں، بھائیوں، بھتیجوں، بھانجوں اور اپنے ہی قسم کے عورتوں اور غلاموں کے سوا، نیز ان خدام کے جو عورتوں کی خواہش نہ رکھیں، یا ایسے لڑکوں کے جو عورتوں کے پردہ کی چیزوں سے واقف نہ ہو ں ان لوگوں کے سوا کسی پر اپنی زینت کو ظاہر نہ ہونے دیں۔اپنے پاؤں زمین پر اس طرح نہ رکھیں کی ان کا پوشیدہ زیور معلوم ہو جائے۔(النور:31)

آج کیا ہمارے معاشرہ میں کزن اور دیور سے پردہ کیا جاتا ہے؟ کیا ان سے ہنسی مزاح کرنے کو گناہ سمجھا جاتا ہے؟ کیا کزن، دیور بھابھی اور سالی بہنوئی اپنے آپ کو ان حرکات و سکنات کے بعد گنہگار سمجھتے ہیں؟ اگر وہ اس کو گناہ نہیں سمجھتے ہیں تو کیا ان کو توبہ کی توفیق مل سکتی ہے؟یہ ہمارے معاشرہ کے لیے لمحہئ فکریہ ہے۔حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نہ کوئی مرد کسی مرد کے ستر کو دیکھے اور نہ کوئی عورت کسی عورت کا ستر ِ عورت دیکھے۔(صحیح مسلم، کتاب الحیض)

کیا ایسی صورت میں کسی عورت کے لیے اپنے عضو ستر کو کھولنا جائز ہو سکتا ہے؟ کیاآج کل کی خواتین ایسے لباس زیب تن نہیں کرتی ہیں جس سے بازو وغیرہ جھلکتا یا نظر آتاہو؟آج کل کے تقاریب میں خواتین کا یہ طرز عمل کہاں تک درست ہے؟حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے روایت کی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا، عورت اپنے شوہر کے گھر میں نگہبان ہے۔ (صحیح البخاری، کتاب العتق)باپ، شوہر اور گھر کے ذمہ دار بروز ِ قیامت جوابدہ ہوں گے۔گھر کے ذمہ دار پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ خاص طور پر صنف ِنازک کے ہر ایک نقل و حرکت اور دیگر سرگرمیوں پر نظر رکھیں، کہیں آپ کے ساتھ ایسا نہ ہو کہ فرائض، نوافل اور دیگر عبادات کی کثرت کے باوجودکہیں و اصل جہنم نہ ہو جائیں۔ بے ساختہ لبوں پراکبر الہ آبادی کا یہ شعرجاری ہوتا ہے کہ
بے پردہ نظر آئیں کل جو چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو میں نے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگی کہ عقل پہ مردوں کے پڑ گیا

آج کی اکثر خواتین مغربی تہذیب کی دلدادہ نظر آتی ہیں،انہیں چاہیے کہ وہ فلمی اور سیریل کے اداکارہ کے طرز پر اپنی زندگی گزارنے کے بجائے خاتون ِ جنت حضرت فاطمہ زہرہ ؓکی زندگی کو اپنے لیے نمونہ بنائیں، اور اسی طرز پر اپنی زندگی گزاریں،ہر حال میں صبر وشکر، شوہر سے وفاداری، اولاد کی تربیت اور امور ِ خانہ داری بحسن و خوبی انجام دیں، تاکہ ہماری نسلوں میں بھی دین کے داعی اور اسلام کے شیدائی پیدا ہوں، جو احقاق حق اور ابطال باطل کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہیں اور ضرورت پڑنے پر حسینی کردار ادا کریں، اسی میں ہم عورتوں کی کامیابی اور کامرانی مضمر ہے۔ آج کل کی مغرب زدہ خواتین کی حالت زار کو شاعر نے یوں بیان کیا ہے کہ
عورت نے جنم دیا مردوں کو مردوں نے اسے بازار دیا
جب جی چاہا مسلا کچلا جب چاہا دھتکار دیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!