ضلع بیدر سے

مرحوم ملک محی الدین سخی دل شاعر تھے، اپنی شاعری اورعمل سے ہردلعزیز بن گئے: اہل بیدرادب

الامین سوسائٹی بیدراور یاران ادب بیدر کے اشتراک سے منعقدہ تعارفی پروگرام سے اہل ادب کا خطاب

بیدر: 5/نومبر (وائی آر) شاعر ِ ہنداور خلیج جناب انجینئر ملک محی الدین مرحوم کا طلبہ وطالبات سے تعارف کرانے والاایک بالکل نیاپروگرام الامین سوسائٹی بیدر اور یاران ادب بیدر کے اشتراک سے 5/نومبر بروز منگل، الامین عبدالمجید میموریل ہال، الامین ڈگری کالج کیمپس، بہمنی روڈ، بیدر میں عمل میں آیاجس کی صدارت بزرگ انجینئر مولانا محمدابرارخان صاحب نے کی۔ یہ ایک تعزیتی پروگرام نہیں بلکہ اپنی نوعیت کا نیاپروگرام تھا۔جس میں صرف اور صرف مرحوم ملک محی الدین کاکلام پیش کرتے ہوئے ان کے کلام کو طالبات سے متعارف کرایاگیا۔

سب سے پہلے بزرگ شاعر جناب محمد امیرالدین امیرنے مرحوم ملک محی الدین کاکلام تحت میں پیش کیاجس کو کافی داد سے نوازاگیا۔ (ڈاکٹر) مستقیم بیگم نے اپنی مترنم آواز میں ملک محی الدین کے کلام کو پیش کرتے ہوئے سماں باندھ دیا۔ تین غزلیں پیش کیں جس کو کافی سراہا گیا اور طالبات کولگاکہ کافی اچھااور فرحت بخش کلام ہے۔ جس کااظہار طالبات نے کھل کرکیا۔

محمدیوسف رحیم بیدری سکریڑی یاران ِا دب بیدر نے بھی ملک محی الدین کاکلام پیش کیا اور بتایاکہ شعراء کے بارے میں عموماً کہاجاتاہے کہ وہ غریب ہوتے ہیں، ان کے پاس کھانے پینے کے لئے کچھ نہیں ہوتا۔ یہ ایک غلط بات معاشرے میں رائج ہوگئی ہے۔اس حوالے سے جب ہم ملک محی الدین کو دیکھتے ہیں تو پتہ چلتاہے کہ وہ اردو کے جواں سال شاعرتھے لیکن ان کے پاس گھربار اورایک بڑا کنبہ تھا۔ جس کی ذمہ داری وہ احسن طریقے سے اٹھایاکرتے تھے۔وہ ایک سخی دل کے مالک تھے اور شاعرِ الفت یعنی محبتیں بانٹنے والے شاعر کہلاتے تھے۔ انہیں ہندوستان ہی نہیں خلیج میں بھی شہرت حاصل تھی۔ بلکہ وہ ہندوستان سے زیادہ خلیج میں مشہور ومعروف تھے۔

ملک گیر شہرت یافتہ افسانہ نویس محترمہ رخسانہ نازنین جوائنٹ سکریڑی یاران ادب بیدر نے اپنے خطاب میں کہاکہ یہ پروگرام اس لئے رکھاگیاہے تاکہ اردو کی طالبات شعروادب کی جانب راغب ہوسکیں اور اردو کی ترقی وترویج کے عمل میں اپناکردار اداکریں۔ رہ گئی بات شاعر ہند اور خلیج بھائی ملک محی الدین کی، وہ ایک حساس دل لے کر بیدر کی سرزمین پرپیدا ہوئے تھے اور اسی حنائی سرزمین میں سپرد خاک کئے گئے۔مجھے نہیں پتہ کہ آج مجھے اس پروگرام میں غم کااظہار کرنا ہے یاخوشی کا، لیکن میں یہ ضرورکہوں گی کہ ملک محی الدین نے اپنی شاعری اور اپنے وجودسے سبھی کے دلوں کو جیت رکھاتھا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلندفرمائے اور ان کی مغفرت کرتے ہوئے پسماندگان کو صبرجمیل عطاکرے۔

مولانا محمدابرارخان انجینئر نے اپنے صدارتی خطاب میں بتایاکہ صبر کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ اپنے عزیزوں کے چلے جانے پر صبر نہ کریں گے توپاگل ہونے کاامکان بڑھ جاتاہے۔ اسلئے بہتر ہے کہ صبر کیاجائے۔ صبر مجبوری کو نہیں بلکہ ڈٹے رہنے کوکہتے ہیں۔پروگرام میں ملک محی الدین کے فرزندارجمندعلی قادری بحیثیت خصوصی مہمان موجودتھے۔

صدراجلاس نے غالباً انھیں تلقین کرتے ہوئے کہاکہ قرآن میں سب سے زیادہ اہمیت والدین کودی گئی ہے اور فرزند سے زیادہ غم والد کو ہوتاہے۔ علی قادری سے زیادہ غم علی قادری کے دادامعین الدین قادری کاہے۔اسی طرح تمام کے غم پربھاری مرحوم کی بیوی کا غم ہے۔ وہ 4مہینے 10دن تک غم منائیں گی۔جبکہ باقی افراد کے لئے تین دن سے زیادہ غم منانے کی اسلام نے اجازت نہیں ہے۔ البتہ کسی کے جانے کاغم عمر بھر ساتھ رہتاہے۔

پروگرام کاآغازدو طالبات کی جانب سے علیحدہ علیحدہ پیش کی گئی حمدا ورنعت شریف سے عمل میں آیا۔ میربیدری نے بھی اپنی نعت شریف پیش کی۔ اس تعارفی پروگرام میں ملک محی الدین اور اردو ادب سے متعلق مختلف سوالات کے جوابات دینے پر طالبات کو بطورِ انعام قلم عطا کیاگیا۔جس پر طالبات نے اپنی بے پناہ مسرت کا اظہارکیا۔

شہ نشین پر پروفیسر مقبول احمد پرنسپل الامین ڈگری کالج، علی قادری بن ملک محی الدین،جناب امیرالدین امیر،جناب محمدیوسف رحیم بیدری، ڈاکٹر مستقیم بیگم، محترمہ رخسانہ نازنین،جناب عمروبن علی موجودتھے۔یاران ادب واٹس ایپ گروپ کے اڈمن سراج الحسن شادمان نے ویڈیواور فوٹوگرافی کافریضہ انجام دیا۔ا لامین ادارہ کے جناب معین خان نے انتظامی امورکی دیکھ بھال کی۔ تمام طالبات میں پھل کی تقسیم عمل میں آئی۔جناب امیرالدین امیرکے اظہارتشکر پر تقریب اپنے اختتام کوپہنچی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!