بابری مسجد مقدمے کا فیصلہ حق وانصاف کے مطابق ہوگا: مسلم پرسنل لا بورڈ
لکھنؤ: 12/اکٹوبر۔ (پریس ریلیز) دارالعلوم ندوۃ العلماء میں آل انڈیامسلم پرسنل لا بورڈ کی مجلس عاملہ کا ایک اہم اجلاس صدر بورڈ حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کی زیر صدارت منعقد ہوا اور اس میں مختلف امور پر دور کرنے کے بعد درج ذیل تجاویز منظور کی گئیں۔
بابری مسجد کے سلسلہ میں مسلمانان ہند کا موقف وہی ہے جس کا بورڈ کی طرف سے بارہا اختیار کیا گیا ہے کہ جو کہ مسجد کے لئے وقف کردی جائے وہ ہمیشہ کہ باقی رہتی ہے۔ اس کی حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔ اس لئے مسلمان اس سے دست بردار ہو سکتے ہیں اور نہ اسے قتل کر سکتے ہیں۔ مسلمانوں کا یہ نظر پوری طرح تاریخی حقائق اور شواہد پینی ہے کہ بابری مسجد کی مندر کو منہدم کر کے باسی مندر کی جگہ پتھر نہیں کی گئی۔ بابری مسجد کے بارے میں بعض حلقوں سے مصالحت کی بات بار بار آتی رہی ہے اور بورڈ نے پورے خلوص کے ساتھ مصالحت کی ایسی کاروائیوں میں شرکت بھی کی ، تاکہ انصاف پینی کوئی حل نکل آئے، جو سب کے لئے قابل قبول ہو لیکن بار بار کی کوششوں کے بعد یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ اس مسئلہ میں بظاہر مصالحت کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس لئے واضح کیا جاتا ہے کہ اب جب کہ مقدمہ اپنے آخری مرحلہ میں ہے مصالحت کا کوئی موقع باقی نہیں رہ گیا ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے وکلا سینئر ایڈوکیٹ ڈاکٹر راجیوتون کی قیادت میں جو دلائل و شواہد عدالت میں پیش کئے ان کی بنیاد پر پوری توقع کی جاتی ہے کہ فیصلہ بابری مسجد کے بیان میں ہوگا ، جوان و صداقت کے تقاضوں پہنی ہوگا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس مقدمہ پر نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا کی نگاہیں کی ہوئی ہیں اور لوگ یہ توقع رکھتے ہیں کہ ملک کی عدالت کی دستورچند ملکی قوانین اور حقائق و شواہد کو پیش نظر رکھے گی۔
اس میں شبہ نہیں ہے کہ سینئر ایڈ وکیٹ ڈاکٹر راجیوتون پسینئر ایڈوکیٹ شیکھر نانڈ سے امیر ای وگیٹ میناشی اروڑہ سینئر ایڈوکیٹ یوسف حاتم چھالا سینئر ایڈوکیٹ ظفریاب جیلانی اور ایڈوکیٹ آن ریکارڈ جناب خلیل احمد سید، ایم آر شمشاد ، ایاز مقبول ارشاد احمد فضیل احمدایونی اور جونئیر وکلی محترمہ کریتی چوہے، تر تامین ، جناب پرویز واز اعظمی بیل حسین ، ادتی محمد ربحترمہ سائرو حق اور دیگر جونیئر وکلاء نے غیرمعمولی محنت و جانفشانی کے ساتھ اس مقدمہ کی پیروی کی۔ بورڈ ان وکلاء کی خدمات کو قدر حسین کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور ان کا شکرگزار ہے۔
۲- ہندوستان ایک کثیر ثقافتی اور کثیر نامی ملک ہے ۔ یہاں رہنے والے ہر شہری کو اپنے مذہب پر عمل کرنے اور اپنی تہذیبی شناخت کے ساتھ زندگی گزارنے کی دستوری آزادی ہے۔ ایو نینام سول کوڈ اس ملک کے لئے ہر گز موزوں نہیں ہے ۔ اس لئے یو نیفارم سول کوڈ لانے کی عدلیہ یا مقننہ کے ذریعہ جو بھی کوشش کی جائے گی ، بورڈ اس کی پرزور مخالفت کرے گا۔ یہاں یہ بات بھی واضح کردینا ضروری ہے کہ یہ مسئلہ صرف مسلمانوں کا ہی نہیں ہے بلکہ اس سے ملک کی دیگر اقلیتیں اور قبائل بھی متاثر ہوں گے ۔ اس لئے یہ اجلاس حکومت ہند سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس طرح کا کوئی بھی قدم اٹھانے سے باز رہے۔
٣- تین طلاق سے متعلق جو قانون پارلیمنٹ سے پاس کیا گیا ہے وہ قانون شریعت میں مداخلت ہے اور سپر یم کورٹ کےفیصلہ اور دستور ہند کے بھی مغائر ہے، نیز اس سے عورتوں اور بچوں کا مفاد بھی متاثر ہوگا ۔ لہذا بورڈ نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اس قانون کوعدلیہ میں پیش کرے گا اور تقریب اس کے خلاف سپریم کورٹ میں رٹ پٹیشن داخل کرے گا۔