اِدارہٴ ادبِ اسلامی ہند کی جنوبی ہند کانفرنس
(تیسری قسط)
رپورتاژ: محمد یوسف عبدالرحیم بیدری
نظام ہفتم یعنی میرعثمان علی خان اور اردو کا شہر حیدرآباد اب وہ حیدرآباد نہیں ہے، جس کی تہذیب اور ثقافت پر اہلیان حیدرآباد کو ناز تھا۔ شاہ غوث کی بریانی کھانے کا لطف جہاں ہے، وہیں جاپان کی کمپنیIKEAاور چین کاسامانِ عیش وعشرت حیدرآباد میں مناسب قیمت پر بآسانی مل جاتاہے۔میں جس لال بس میں سوار ہوں، اس میں بھی کئی مسافر ایسے ہوں گے جو یہاں شاہ غوث کی بریانی کھانے کے علاوہ جاپان اورچین کی اشیاء خریدنے اپنے اپنے اضلاع سے عازمِ سفر ہوں گے۔اسی طرح حیدرآباد اب علاج ومعالجہ کے لئے معروف ہوتاجارہاہے۔ جس کسی کوایمرجنسی میں بیدر سے حیدرآباد علاج کے لئے روانہ کیاجاتاہے وہ اکثروبیشتر اپنے پاؤں پر واپس نہیں آتا۔ لیکن جو خود اپنے علاج کے لئے حیدرآباد کے دواخانوں پر حاضری دیتے ہیں وہ اپنے پاؤں پر بیدرواپس بھی آجاتے ہیں۔ میں کھڑکی کی نشست پر براجمان ہوں۔اور یہ حقیقت اظہر من الشمس ہےکہ بسوں کے مسافر ہمیشہ کھڑکی کی نشست حاصل کرنا چاہتے ہیں اور جب وہ نشست مل جاتی ہے تو سب سے زیادہ خوشی اسی کو ہوتی ہے۔ لیکن جب بس شہر میں داخل ہوجاتی ہے تو میری دانست میں سب سے زیادہ تکلیف کھڑکی والے مسافر ہی کوہوتی ہے کیونکہ اس کو کہیں نہ کہیں اتر جانا ہوتاہے اور وہ چاہتے ہوئے بھی اپنی پڑوسی نشست والے سے کہہ نہیں سکتاکہ میں اُترنے والا ہوں، مجھے راستہ دیں۔یہی کیفیت میری تھی۔
حالانکہ میرے بازو وسیم احمد صاحب اور ان کے بازوان کانواسہ تھا۔ ہم تینوں کو ایک ہی مقام پر اترنا تھا۔ڈراس بات کا تھاکہ اگر میں انھیں راستہ دینے کے لئے کہوں اور وہ خودبھی اٹھ کھڑے ہوجائیں اور ٹولی چوکی آنے میں تاخیر ہوجائے تو وسیم احمد صاحب کو کھڑے ہونے کی تکلیف خواہ مخواہ میری وجہ سے برداشت کرنی پڑتی۔ میں خاموش ہی رہا تاہم اندرکی بے چینی بڑھتی جارہی تھی۔جو مجھ سے کہہ رہی تھی کہ مجھے اب اترنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوناچاہیے ورنہ اگر کنڈکٹر چڑچڑاہوجائے تو بس مطلوبہ مقام کو چھوڑ کر دوسری مقام پرجا کھڑی ہوجائے گی۔
اچانک ہی وسیم احمد صاحب اٹھ کھڑے ہوئے۔ شاید انھیں پتہ تھاکہ کس مقام پر پہنچنے کے بعد ٹولی چوکی کے لئے اٹھ کھڑے ہوناچاہیے۔ میں خوش ہوگیاکہ میرے کہنے سے پہلے ہی وہ اٹھ کھڑے ہوگئے ہیں۔ میں نے کہا”بچے(نواسے) سے کہیں کہ سامان اتارکرقریب رکھ لیں“ انھوں نے نواسے کو ہدایت دی۔ بس رکی اور ہمارے علاوہ تین مزید افراد ٹولی چوکی پر اتر گئے۔ وسیم احمد صاحب سامنے تھے، کنڈکٹر نے انھیں جلدی سے اترنے کوکہا۔ جبکہ وہ پاؤں کی تکلیف کے سبب آہستہ سے اترنے پر مجبور تھے۔سب سے آخرمیں میں تھا۔ میرے نیچے اترتے ہی بس آگے بڑھ گئی۔ بالکل ٹھیک مقام پر ہمیں اتاراگیاتھا۔ ”کانفرنس کہاں ہورہی ہے بھائی“ وسیم صاحب کے یوں ہی استفسار پر میں نے جواب میں کہاکہ اگر ہم ناک کی سیدھ میں جنوب کی سمت چلے جائیں توگولکنڈہ راستے پر اسلامک سنٹر آجائے گاجہاں ادارہٴ ادب اسلامی ہند کی جنوبی ہند کانفرنس ہورہی ہے“ میرے جواب سے وسیم احمد صاحب مطمئن نہیں تھے۔ میں نے کہا”وہ محمود صاحب کہاں ہیں جو آپ کو لینے آنے والے تھے“ انھوں نے کہاکہ ہم انھیں چھوڑتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور سیدھا آٹولے کر اسلامک سنٹر پہنچنے کی سعی کریں گے“ میں توان کے ہر موقف پر راضی تھا۔ آٹو روکا گیا۔ کوئی مسلمان آٹو ڈرائیورتھا۔ تین افراد کے لئے اس نے 100روپئے کرایہ لینے کی بات کہی۔ جب ہم راضی ہوکر آٹو میں بیٹھ گئے تو میں نے پوچھا”کہاں سے تعلق رکھتے ہو؟“ اس کاجواب تھا”لاتور سے“ میں نے مسرت کااظہا رکرتے ہوئے کہا”اچھاتو مراٹھی مانس ہو“ اس کا جواب اس نے مراٹھی میں دیا۔ جس پر وسیم احمد خوش ہوتے ہوئے مراٹھی ہی میں اس سے بات کرنے لگے۔
اسی دوران وسیم صاحب نے اسلامک سنٹر کال کرکے مقام معلوم کیا۔ آٹو ڈرائیور نے ہمیں اسلامک سنٹر پہنچاتے ہوئے کہاکہ گولڈن پیالیس کے آگے اسلامک سنٹر ہے۔ آئندہ سے آپ کسی بھی آٹو والے کو گولڈن پیالیس کے آگے اسلامک سنٹر کہاکریں وہ آپ کو فوری پہنچادے گا۔ جیسے ہی ہم اسلامک سنٹر پراُترے۔ سامنے ایک نیلے اور سفید رنگ کابیانر ہمارااستقبال کررہاتھا۔ لکھاتھا۔ ”خوش آمدید۔ شرکا دوروزہ جنوبی ہند کانفرنس“میں خوش ہوگیا۔ واقعی ہمارا استقبال کیاجارہاتھا۔ اسی دوران وسیم احمد کے نواسے کو لینے کے لئے Ola کیاب پیچھے آکر کھڑی ہوگئی۔میں خوش آمدید بیانر کے سامنے کھڑے ہوکر وسیم احمد کے ساتھ سیلفی لینے لگا۔ انھوں نے کہا”ذرا اس Olaکے نیم پلیٹ کی تصویر بھی لے لیں“ میں نے تصویر کھینچ لی۔ وہ ڈرائیور کے پاس گئے اورانھوں نے اس کانام پوچھا اس نے کوئی مسلم نام بتایا۔ وہ بڑے خوش ہوگئے۔ انھیں اطمینان ہوگیاکہ ان کانواسہ اپنی منزل مقصودپر خیریت سے پہنچ جائے گا۔
واقعی ایک محبت کرنے والے نانا کی بے چینی پوری طرح ان کے چہرے سے عیاں تھی اور اب وہ مطمئن چہرے کے ساتھ میری طرف آرہے تھے۔ ہم دونوں زیر تعمیر 5منزلہ اسلامک سنٹر کو دیکھنے لگے۔کچھ دور پر ورنگل کے رکن جماعت محمدرضوان تعمیراتی کام کی دیکھ ریکھ کرتے نظر آئے۔ میں نے انہیں دورہی سے سلام کا اشارہ کیا۔ وہ اس اشارے کو نہیں دیکھ سکے۔ جس وقت ہم اسلامک سنٹر میں داخل ہورہے تھے، کچھ ادیب وشاعر دوسری منزل پر ناشتے کے لئے تشریف لے جارہے تھے۔ جن میں ممبئی کے ممتاز سائنس داں اور سیاسی کالم نگار ڈاکٹر سلیم خان بھی موجودتھے۔ میں نے بآوازِ بلند کہا”ڈاکٹر سلیم خان صاحب ہیں کیا؟“سرتاپاسفیدی میں ملبوث اور مبتلا گورے چٹے ڈاکٹر سلیم خان نے ہنستے ہوئے پلٹ کر دیکھا اور سیڑھیوں سے نیچے اترآئے۔ گلے لگاکر دوستانہ شفقت سے پوچھا”کب آئے بھائی یوسف رحیم؟، خوش آمدید“
(………جاری ہے)