خواتین

کس کا کلچر! کس کی تہذیب!!

شاہانہ خانم، حیدرآباد

دوسرے کے کلچر کو اپنا کر جدیدیت کا نام دے رہے ہیں اور اسلامی تعلیمات کو بھول گئے

اسلام کی تعلیم وتربیت ہمیں اس بات کو سونچے پر مجبور کررہی ہے کہ ہم کس کی تہذیب کو اپنا کر خوش ہورہے ہیں۔ بلکہ ماڈن زمانے کا نام دے رہے ہیں۔

قدیم اسلامی تاریخ ہمارے سامنے مسلمان عورتوں کابہترین اور حقیقی نمونہ پیش کرتی ہے۔ اسلام کے ہر دور میں اگرچہ عورتوں نے مختلف حیثیتوں سے امتیاز حاصل کیا ہے، لیکن امہات المومنین کی حیثیت جامع ہے اور ان کے دینی، اخلاقی،معاشرتی اور علمی کارنامے خواتین کے لیے نہ صرف اسوۂ حسنہ بن سکتے ہیں بلکہ انہیں موجودہ دور کے تمام معاشرتی اور تمدنی خطرات سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔جبکہ مغربی تہذیب وتمدن اور طرزمعاشرت ہمارے گھروں میں تیزی سے سرایت کررہا ہے اس سے متاثرہ مسلمان خواتین راہ راست سے بھٹکی ہوئی خواتین کو اپنے لیے قابل تقلید سمجھ رہی ہیں تو یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ ان سامنے برگزیدہ اور ممتاز خواتین کی صحیح تصویر پیش کی جائے۔

ہماری خواتین اکثریت رسول اللہ ﷺ کے احکام نافرمانی کرجاتی ہیں۔ اس کا سبب زیادہ تر دنیا کے رسم ورواج ہیں کسی بھی ملک وقوم کی تشخیص کا اصل سرچشمہ اس کی تہذیب وثقافت ہوتی ہیں۔ جوکہ انسانی زندگی کا بنیادی اصول ہے،ہمارے نام ونہاد معاشرے میں کچھ مسلمان اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو مغربیت کے اس فتنہ میں ڈھالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ لیکن اس سے اسلام کی قدرتی قانون کو ہر گزنہیں بدلاجا سکتا۔

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے گردو پیش کا جائزہ لیں اور مغربی تہذب کاخیرہ کردینے والی چمک دمک سے اپنے آپ کو بچائے رکھیں اسی میں ہماری کامیابی کا راز مضمر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ”تم ہی فتح مند اور غالب رہو گے شرط ہے کہ تم مومن بن جاؤ“

جنکے سرپر ڈوپٹہ ہونا چاہئے وہ تو ننگے سرکھڑی ہیں اور جو بے پردہ پھرتی تھی ان کے سرپر ترپال ڈالا ہوا ہے۔ ایک مسلمان کو مسلمان ہونے پر شرم آتی ہے جبکہ یہودی کواپنے یہودی ہونے پر فخر ہوتا ہوتاآج دنیا میں ان کی حکومت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کیا تم نے دیکھا کہ ہم نے تمہارے ساتھ کیا کیا؟ ہم تمہاری سڑکوں پہ پھرے تو ہمیں تمہارا حال پسند نہیں آیا۔ تو پتہ ہے ہم نے کیا کیا؟بہت آسانی سے تمہاری لڑکیوں کے سروں سے حجاب اتروادیا۔ دوسرے طریقوں سے قرآن بھی بھلوادیا۔

تم لوگوں کے پاس اپنا لباس بھیجا اپنے بازاروں کو دیکھو سارے عریاں لباس کی نمائش گاہ ہیں اور تمہاری تہذیب کا لباس تمہارے بازاروں میں ڈھونڈے نہیں ملتا۔اور مزے کی بات یہ ہے کہ تم نے سب قبول کرلیا۔کیا تم کونہیں معلوم یہیں حال قوم لوط کا تھا۔کتنے بے وقوف ہوتم کہ کہتے رہتے ہو؟ یہودیوں نے ہماری زمین چھین لی۔ قرآن اور سنت کوختم کروادیا۔تم کہاں مرگئے ہو؟ کیا تم کچھ کیوں نہیں کرتے؟

سڑکوں پر تمہاری لڑکیاں ایسے لباس میں گھوم رہی ہیں کہ نام کو لباس ہے پہلے ہم نے تمہاری عورتوں کا حجاب اتارا پھر چادریں پھر ڈوپٹہ پھر لباس چست کیا شلواریں اونچی کیں اب شلوار کی جگہ ٹائیٹس جینس پہنادیا ہم نے انھیں بازاروں راستوں میں برہنہ کردیا اب وہ ہمارا بنایا ہوا لباس فخر سے پہنتیں ہیں اور تمہارا لباس پہنتے ہوئے انھیں شرم آتی ہے کیامضحکہ خیز بات ہے۔تمہارا حال بہت برا ہوگیا۔ہمیں تم لوگوں کی تعلیم میں ترقی پسندنہ آئی تو ہم نے تمہارا نصاب بدلوادیا۔

اور تمہارے ٹیلی ویژن کو ذلت آمیز پروگراموں اور شرم ناک ڈراموں میں بدل دیا۔تمہیں اور تمہارے علماء کو کچھ بولنے کی ضرورت نہیں چپ رہنا ہی بہتر ہے۔ ہم نے تمہارے نوجوانوں کو بھٹکا دیا ایک دور تھا کہ تم ایک پاکیزہ اور غالب امت تھے۔ آج تم ذلت کی بستیوں میں اترگئے ہو۔ بے چارے!

ہم نے محسوس کیا کہ تم لوگوں کی زبان عربی بہت خوب صورت ہے جس سے تم قرآن پڑھتے ہو اور اہل جنت کی بھی یہی زبان ہوگی۔ تو ہم نے تمہاری زبان کو بے فائدہ اور فضول قرار دیا۔ اور تم لوگوں نے فوراً ”یقین کرلیا۔ پھر تم دوسری زبان پر فخر کرنے لگے۔(ہائے……بائے……ہیلو……ہواریو وغیرہ وغیرہ)اور تم نے اپنے دعائیہ خوب صورت کلمات (السلام علیکم)کو چھوڑکر انھی کا استعمال شروع کردیا اور ہم تمہیں اسی طرح پسند کرتے ہیں۔اور ہمیں یہ بھی پسند نہیں آیا کہ تم لوگوں کومتحددیکھیں توہم نے تمہاری مسجدوں کواڑادیا اور الزام بھی تم پر ہی لگایا۔ اس سے تمہارے درمیان باہمی لڑائیاں شروع ہوگئیں ہم نے تمہارے دین کا گہرائی سے مطالعہ کیا اور چھوٹے چھوٹے فتووں کے ذریعے تمہیں تمہاری راہ سے ہٹادیا۔

ہم نے تمہارے درمیان نفرت اور فساد کی آگ بھڑکائی جوتب تک نہیں بجھے گی جب تک کہ تم سب کوجلاکر راکھ نہ کردے۔تمہارے گھر والے اب جدید مشینی ایجادات کے زیر سایہ پرورش پاتے ہیں۔ ہم نے طرح طرح کی کمپوٹر گیمزایجاد کیں، جن میں کھوکر تم قرآن کوبھول گئے اپنے علماء کوبھول گئے مسلمان سائنس دانوں اور ان کے کارناموں کوبھول گئے تمہاری نئی نسل ایسی نسل ہے جو حق بات کہتے ہوئے ڈرتی ہے۔
ہم یہودی قوم اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ تعداد میں اس قدر تھوڑے ہونے کے باوجود ہم نے تمہیں بہت آسانی سے گوشت کے ٹکڑوں کی مانند خریدلیا۔

اور تمہیں اس کا کوئی ملال نہیں تم خوش اور مست ہوآج کل کی لڑکیاں لباس کے پہننے میں ان امور کا کس قدر اہتمام کرتی ہیں؟ بلکہ وہ تو اپنے آپ کو نمایاں کرنا اور اپنی حسن کااعلان کرنا چاہتی ہیں، خصوصاً ہرموقع کا استعمال جو پردے کے لئے ہوتا ہے اس میں اس قدر زیب وزینت اور میناکاری کی جاتی ہے کہ بجائے پردہ کے وہ خودکشش اور نظروں کو دعوت دینے والا ہوگیا ہے جہاں آج کل اس حوالے سے مرد کو جس قدر مجرم کردانا جاتا ہے، اس سے کہیں بڑھ کر عورتیں خود اس قسم کے واقعات اور حادثات کے پیش آنے کا پیش خیمہ اور سبب ہیں۔

ہمارا ماحول ہمارا کلچر ایک تحریک کا کلچر ہونا چاہیے۔ لہٰذا ہم اگر سچے مسلمان اور مومن ہیں تو مغربیت کی یہ ہیجان ہمارابال بھی بیکا نہیں کرسکتی اللہ تعالیٰ ہم تمام مسلمانوں کی اس عذاب سے بچائے اور ہمیں اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔آمین
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!