سیریز/قسط وارمضامین

تُرکوں کا عکس تاریخ کے آئینے میں۔۔۔

(قسط 2)

تابش سحر

مامون الرشید کے بعد اس کا ولی عہد بھائی معتصم باللّه تختِ خلافت پر جلوہ افروز ہوا، سن 223 ھ میں مسلمانوں کی آپسی خونریزی کو مدِّنظر رکھتے ہوے ایک رومی گورنر توفیل بن میخائیل نے اسلامی ریاست کے علاقے زبطرہ پر حملہ کردیا، مردوں کو قتل اور عورتوں و بچّوں کو قید کرلیا گیا، معتصم آپسی خانہ جنگی سے پریشان تھا مگر جیسے ہی اسے توفیل کی دہشت گردی کا علم ہوا اور یہ پتہ چلا کہ رومی’ ایک مسلمان ہاشمی عورت کو کھینچ کر لے جارہے تھے اور وہ یہ فریاد لگارہی تھی کہ “اے معتصم مدد کر” تو اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی، دینی حمیّت و غیرت نے اس کا سکون چھین لیا، اس نے اپنی تمام تر مصروفیات پسِ پُشت ڈال دی اور فوراً پیش قدمی کا اعلان کردیا، بذاتِ خود محاذ کی جانب روانہ ہوا، زبطرہ پہنچ کر جب یہ معلوم ہوا کہ رومی سب کچھ اجاڑ کر واپس جاچکے ہیں تو اس نے اپنے مصاحبین سے دریافت کیا کہ رومیوں کا سب سے مشہور و معروف اور عظیم الشان شہر کونسا ہے؟

جواب ملا عمودیہ! معتصم رومیوں سے بدلہ لینے کے لئے عمودیہ کی جانب چل پڑا، اپنے لشکر کے ساتھ بِپھرے ہوے شیر کے مانند رومیوں پر حملہ آور ہوا اور ایسی عظیم الشان فتح حاصل کی کہ ایک ایک مسلمان دس دس رومی قیدیوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکتا تھا، اتنا مالِ غنیمت حاصل ہوا کہ پانچ دنوں تک فروخت کیا گیا تب بھی بچا رہا تو اسے نذر آتش کردیا گیا، بہرِحال ترکوں کی اس داستان میں معتصم کے اس کارنامے کو ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ آج ہم میں دینی حمیّت و غیرت اور اخوّتِ ایمانی کا فقدان ہے جس کے سبب دشمن ہمارے بھائیوں کو ایک ایک کرکے مارتا ہے اور ہم جمہوریت کی زنجیروں اور سرحد کی بندشوں میں جکڑے ہوے فقط آنسو بہاتے ہیں، ملک میں بھی کہیں مسلمانوں پر ظلم و زیادتی ہوتی ہے تو ہم اپنے شبستانوں میں آرام کرتے ہیں، معتصم میں ہزاروں خرابیاں اور مختلف اوصاف ہونگے لیکن دینی حمیّت و غیرت کو پیش کرتی یہ داستانِ شجاعت مسلم حکمرانوں کے منہ پر زوردار طمانچہ ہے-

یہ ہے معتصم باللّه! جب وہ خلیفہ بنا تو اس نے دیکھا کہ ایرانیوں کا اثر رسوخ بڑھنے لگا ہے، سرکشی ان کی فطرت بنتی جارہی ہے تو اس نے ترکوں کو اہم عہدے تفویض کرنا شروع کئے، ترکوں کا ایک فوجی دستہ بھی بنایا جو شہر میں گھوڑے دوڑاتا تو اہلِ بغداد میں سراسیمگی پھیل جاتی، نتیجتاً عوام نے شور و غل برپا کیا تو معتصم نے ایک نئے شہر کو بسانے کا منصوبہ بنایا، اس سلسلے میں اُس نے اُس جگہ کا انتخاب کیا جسے قاطول کہا جاتا تھا، یہ وہ شہر تھا جس کی بنیاد اس کے باپ ہارون الرشید نے رکّھی تھی، اپنے بیٹے واثق باللّه کو بغداد میں اپنا جانشین مقرّر کرکے وہ قاطول پہنچا اور شہر کی تعمیرِ نو کا اعلان کردیا، جنگی پیمانے پر شہر کی تعمیر کی گئی اور اسے “سرّ من رأی” (جس نے دیکھا خوش ہوا) کا نام دیا گیا جو بعد میں کثرتِ استعمال کی بناء پر “سامرا” ہوگیا، سامرا بغداد سے ایک سو پچیس کلو میٹر پر واقع ہے، معتصم ترکوں کے ساتھ یہیں اقامت پذیر ہوگیا اور سامرا کو کافی شہرت ملی-

اس طرح ترکوں کا سیاسی قد حیرت انگیز طور پر بڑھ گیا، وہ خلافتِ عبّاسیہ کے اعوان و مددگار بن گئے، حتّیٰ کے خلافتِ عبّاسیہ پر زوال کے گہرے بادل چھانے لگے، خلفاء اپنا جاہ و جلال کھو بیٹھے، ماضی کی عظمت و رفعت قصّۂِ پارینہ بن گئی، کمزور و عیش پسند خلفاء اور ان کی ناقص حکمتِ عملی کے سبب خود مختار ریاستیں وجود میں آئیں، جو عبّاسی خلیفہ کو اپنا مذہبی سرپرست تو مانتی تھی مگر ان کا اپنا بادشاہ ہوا کرتا تھا اس سلسلے میں جس ریاست کو شہرت اور کافی اہمیت حاصل ہوی وہ سلجوقی سلطنت ہے-

سلجوق بن دقاق کا تعلّق ترک قبیلے اوغوز سے تھا، اس سلطنت کا بانی سلجوق کے پوتے طغرل بیگ کو قرار دیا جاتا ہے جسے شروعات میں محمود غزنوی سے شکست ہوی البتّہ اس نے مزاحمت جاری رکّھی اور آخرکار اپنے بھائی چغری بیگ کی معیّت میں نیشاپور اور مرو پر قبضہ کرلیا بعد میں سلجوقی سلطنت کی حدودِ اربعہ میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوتا گیا، سلجوقی حکمراں چونکہ عبّاسی خلفاء کو اپنا مذہبی سرپرست سمجھتے تھے لہذا ان کی مدد اور تعاون بھی اپنی ذمّیداری تصوّر کرتے، ایران و عراق میں شیعہ حکومت بنی بویہیہ کا زور بڑھتا جارہا تھا اسی کے پیشِ نظر طغرل بیگ نے شجاعت و بیباکی کا نمونہ پیش کرتے ہوے ایران و عراق سے بنی بویہیہ کا خاتمہ کردیا، عبّاسی خلیفہ قائم باللّه نے اس کا گرم جوشی سے استقبال کیا، طغرل بیگ کا نام سکّوں پر لکھنے اور خطبے میں پڑھے جانے کا اعلان کیا گیا۔

طغرل بیگ کے بعد الپ ارسلان سلجوقی حکمراں قرار پایا، یہ خدا ترس، رعایاپرور اور باہمّت و غیرت مند شجاع انسان تھا، مکّہ اور مدینہ پر مصر کی فاطمی حکومت کے طرفداروں کا سایہ تھا جسے الپ ارسلان نے ختم کردیا اس کی شجاعت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ محض پندرہ ہزار افراد پر مشتمل اس کی فوج نے رومی شہنشاہ ڈومانوس کی ایک لاکھ افراد پر مشتمل فوج کو شکستِ فاش دی تھی، الپ ارسلان ہی وہ جوہری تھا جس نے ایک درّیتیم نظام الملک طوسی کو دریافت کیا، وہی نظالم الملک طوسی جس نے عالمِ اسلام میں دانشگاہوں اور مدارس کی شمعیں روشن کی، جس نے اپنے علمی، ادبی اور سماجی کارناموں سے تاریخِ اسلامی کو رونق بخشی-

گیارہویں صدی عیسوی میں سلجوقی سلطنت منظرِ عام پر آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے خلافتِ عبّاسیہ کے خاتمے کے بعد مسلمانوں کی مرکزی حکومت کہلائی، جو ایشیا کے وسیع و عریض حصّے پر پھیلی ہوی تھی، فتوحات نے سرحدوں کو کافی وسعت عطا کردی تھی مگر بُرا ہو آپسی خانی جنگی کا’ کہ اسی کی بدولت سلجوقی سلطنت پر بھی زوال کے مہیب سائے طاری ہوگئے، چنگیز خان نامی تاتاری طوفان برپا ہونے کو تھا اُدھر صلیبیوں نے صلیبی جنگوں کا آغاز کردیا جو دو سو سال تک جاری رہی، پہلی ہی صلیبی جنگ میں وہ بیت المقدّس پر قابض ہوچک تھے، عظیم سلجوقی حکومت آپسی خانہ جنگی اور تخت کی رسہ کشی کی ہوس میں چھوٹے چھوٹے علاقوں میں تقسیم ہوگئی، متعدّد چھوٹی چھوٹی ریاستوں نے جنم لیا جس کے سبب سلجوقیوں کی قوّت بکھر کر رہ گئی-

(……جاری ہے )

سوال:- وہ کونسا قبیلہ ہے جس نے بروقت کارِ مسیحائی انجام دے کر موت کے دہانے پر کھڑے سلجوقی لشکر کو صلیبی حملہ آوروں سے بچایا؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!