سماجیسیاسیمضامین

بی جے پی سے “بیٹی بچاؤ”

مفتی افسر علی ندوی

ہندوستان میں بڑھتے جرائم اور قانون کے رکھوالوں کی درندگی اور عدلیہ کی بے بسی کو پھر سے بحال کرنے کے لیے اسلام کے قانون ِ انصاف کو عملی جامہ پہنائے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ”زناکرنے والی عورت اور زناکے کرنے والا مرد (دونوں کے لیے حکم یہ ہے کہ) ان میں سے ہر ایک کو سو (درے) مارو اور تم لوگوں کو ان دونوں پر اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں ذرارحم نہ آنا چاہیے(کہ رحم کر کے چھوڑ دو یا سزا میں کمی کردو) اگر تم اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو اور ان دونوں کے سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت کو حاضر رہنا چاہیے(تاکہ ان کے ذریعہ سے تشہیر ہو اور سامعین کو عبرت ہو اور دوسرے لوگ اس رکیں) (سورۃ النور: 2)یہ سزااس زانی اور زانیہ کے لیے ہے جو غیر شادی شدہ آزاد، عاقل اور بالغ ہوں۔ ایسے عاقل، بالغ اور آزاد جو شادی شدہ ہمبستری کر چکے ہوں اس کی سزا رجم ہے۔ آج بنی آدم کی 99%فیصد کی زندگی کا اصل مقصد صرف دو چیزوں کا حصول ہے، ایک زر، دوسرا زن۔ اسی کے ارد گرد ان کی زندگی کی چکی گھوم رہی ہے۔

بی جے پی حکمراں پارٹی کے بیانات اور نعروں میں اس قدر تضاد ہے کہ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ”بیٹی بچاؤ“ کا نعرہ لگانے والے بیٹیوں کی عزت و عصمت کو لوٹنے میں مصروف ہیں، متاثرہ کی شکایت پر اسی کو ہی جیل میں ڈال دیا جاتا ہے اور اس کے اہل خانہ کو جیل میں ڈالنے اور کھلے عام سڑک پر موت کے گھاٹ اتاردینے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ یہ بات صرف دھمکی تک محدود نہیں رہتی ہے؛ بلکہ اسے عملی جامہ پہنایا جاتا ہے۔

اناؤ میں بی جے پی کے ایم ایل اے کلدیپ سنگھ سنگر کے خلاف اسی کے گاؤں کی لڑکی نے عصمت دری کی شکایت تھانے میں کی تو پولیس نے ملزم کو گرفتار کرنے کے بجائے متاثرہ کے والد کو گرفتار کیا اور اس کو اتنا زیادہ زد کوب کیا کہ وہ وہ اپنی جان مالک حقیقی کو سپرد کر دیا۔ اس کے چشم دید گواہ کو بھی دار فانی سے رخصت کروا دیا گیا۔ متاثرہ کے چچا مہیش کو رائے بریلی کے جیل میں بند کر دیا گیا۔ جب وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ اپنے چچا سے جیل میں ملنے جارہی تھی تو منصوبی بند سازش کے تحت اس کے کار کو ایک ٹرک نے ایسی ٹکر ماری کہ اس کی چاچی اور مَوْسِی کی موت موقع پر ہی ہو گئی۔ متاثرہ، اس کی بڑی بہن اور اس کے وکیل کی حالت ایسی نازک ہو گئی کہ اس کو ونٹیلٹر پر رکھا گیا۔

مجرم منصوبہ بند سازش کے تحت اس کو حادثہ کا شکار بنا کر اپنے سر سے گناہ عظیم اور بد نامی کے داغ دھونے کی ناکام کوشش کی تھی۔ جس ٹرک سے حادثہ ہوا، اس کے نمبر پلیٹ کو سیاہ کر دیا گیا تھا۔ وہ تو انصاف مانگنے گئی تھی؛ لیکن ظالموں نے اس کے باپ اور دیگر افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ گبر نے ٹوئیٹر پر لکھا کہ پولیس نے ہی بھاجپا ایم ایل اے کو متاثرہ اور اس کے اہل خانہ کی لوکیشن دی تھی۔جج مار دیتے ہیں، وکیل ماردیتے ہیں، یہ گواہ کو ماردیتے ہیں اور فیصلے سڑک پر کرتے ہیں۔ ستپال سنگھ نے ٹوئٹ کیا کہ سرکار پر کلنک ہے، آج اتر پردیس میں انصاف کی امید کافور ہو چکی ہے۔

کٹھوا میں دلدوز واقعہ اس وقت پیش آیا جب آٹھ سالہ معصوم بچی آصفہ کی بے رحمانہ قتل، ٹارچر اور عصمت دری نے انسانیت کو شرمسارکیا۔ کرائم برانچ کی رپورٹ کے مطابق سنجے رام نے اپنے بھتیجے سے کہا کہ مسلمانوں سے بدلہ لینا ہے اس لیے تم مسلم لڑکی کو اغوا کرو، اس کا بھتیجا اپنے دوست کے ساتھ آصفہ کو اغوا کیا، نشے کی گولیاں کھلاکر مندر لے گیا، چھ دن تک مسلسل ریپ کیا، اسی دوران رام کے بیٹے کو میرٹھ سے بلایا کہ وہ اس کا ریپ کرے، اس درندے نے میرٹھ سے آکر اپنی ہوس کی پیاس بجھائی، یہ وہی مندر ہے جس کے لیے اکثریتی طبقہ ملک کے امن وشانتی کو تباہ و برباد کر دیتا ہے اور اقلیتی طبقہ کے افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ اسی مندر کو ریپ کا اڈہ بنا دیا، مجرموں کو بچانے کے لیے ہندو ایکتا منچ وجود میں آکر بر سر پیکار ہو گیا، بی جے پی کے دو کابینہ سطح کے وزراء درندوں کی حمایت میں کھڑے ہوگئے۔

قانون کے رکھشک بکھشک بن گئے۔ اس دلدوزواقعہ پر وزیر اعظم کی زبان گنگ ہو گئی، ”بیٹی بچاؤ“ کہنے والے، بیٹیوں کی عصمت کے لٹیروں کی حمایت میں کھڑے ہو گئے۔دَینک بھاسکر کے رپورٹ کے مطابق سابق کندریہ گِرہ منتری سوامی چنمیا نند کے ہی ایس ایس لا کالج کی طالبہ نے کہا کہ چنمیا نند اس کے ساتھ ایک سال تک جنسی استحصال کیا، پولیس اور ڈی ایم اس کے اہل خانہ کو دھمکی دے رہی ہے، پولیس کیس درج نہیں کر رہی تھی تو دہلی میں زیرو ایف آئی آر درج کرانی پڑی، جب اس کے والد تھانے میں کیس درج کرانے گیے تو ڈی ایم نے فون کر کے کہا کہ تم کو پتہ ہے کس کے خلاف کیس درج کرا رہے ہو، ایس آئی ٹی نے آٹھ گھنٹے تک اس سے پوچھ تاچھ کی اور چودہ دن کے لیے اس کو جیل میں ڈال دیا؛لیکن چنمیا نند سے ایک سوال بھی نہیں پوچھا گیا اور نہ اس کو جیل میں ڈالا گیا، اس نے کہا کہ اتر پردیس کی سرکار سے انصاف کی امید نہیں ہے۔اتر پردیس کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناٹھ کہہ چکے ہیں کہ مسلم عورتوں کو قبروں سے نکال کر اس کے ساتھ ریپ کرو۔
انصاف ظالموں کی حمایت میں جائے گا
یہ حال ہے تو کون عدالت میں جائے گا

وزیر اعظم نرندر مودی کا یہ نعرہ ”بیٹی بچاؤ“ اب لوگو ں نے سمجھا ہے کہ اس کا مطلب کیا تھا، اے بھارت کے نواسیو! اپنی بیٹیوں کی حفاظت کے سامان خود پیدا کرو، کیونکہ بی جے پی کے عملہ، ایم ایل اے، ایم پی اور منسٹر تمہاری بیٹیوں کی عزت و آبرو کو نیلام کرنے کے لیے میدان میں آ چکے ہیں۔ ریاستی حکومت کے اشاروں پر کام کرنے والی پولیس اس کے ساتھ ہے، تمہارا اس کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کرانا مشکل ہو جائے گا۔ہندو افسران کے دلوں سے قانون کا خوف نکل چکا ہے، عدلیہ بھی انصاف دینے سے قاصر ہے، ہندو انتہا پسندتنظیموں کے غنڈے پولیس کی نگرانی میں جرائم انجام دے رہے ہیں، مسلمانوں اور دلتوں کو مار کر اور ان کی بہو بیٹیوں کی عزت نیلام کر کے اس کی ویڈیو بنا کر وائرل کر رہے ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں اور دلتوں میں خوف و ہراس پیدا کیا جائے۔ گودی میڈیا اس کے خلاف لب کشائی کی جرأت نہیں کر سکتا ہے۔ اس کا کام صرف جھوٹ کو پھیلا کر سچ ثابت کیسے جائے اسی میں دن رات مصروف رہنا ہے۔

مسلمانو! اپنی تاریخ کو پڑھو اور اس کو عملی جامہ پہناؤ، جب ہسپانیہ کا بادشاہ رڈارک نے نواب جولین کی بیٹی پر دست درازی کی تو اس نے موسیٰ بن نصیر سے مدد چاہی، موسیٰ بن نصیر نے خلیفہ عبد الملک کی اجازت سے طارق بن زیاد کو سات ہزار فوج دے کر روانہ کیا کہ وہ نواب جولین کو انصاف دلائیں، طارق بن زیاد اندلس پہنچ کر اپنی کشتیوں کو جلا دیا، ساحل کے کنارے رڈارک کی ایک لاکھ فوج کا مقابلہ اس جواں مردی کے ساتھ کیا کہ خود رڈارک مارا گیا اور فوج شکست کھا کر بھاگ گئی۔ اندلس پر مسلمانوں کا ایسا قبضہ ہوا کہ سات سو سال تک مسلمان حکمرانی کرتے رہے۔ مسلمانوں ہندوستان میں امن و سکون اور عزت و وقار کے ساتھ رہنا ہے تو اپنے ستر سالہ پرانا حکمت عملی میں تبدیلی لانا ضروری ہو گیا ہے، 1949ء میں جو اسٹینڈ تھا اگر اسی کو 2019ء میں بھی عملی جامہ پہناتے رہے تو خاص طور پر بی جے پی حکمراں ریاستوں میں انصاف نہیں مل سکتا۔

وزیر داخلہ امت شاہ نے تو ہندتوا کے ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے اور آر ایس ایس ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے کلکتہ کے جلسہ میں یہ اعلان کر دیا کہ ہم ہندو، سکھ، جین، بودھ اور عیسائی جو باہر سے آئے ہیں ان کو ہم شہریت دیں گے؛ لیکن اقلیتی طبقہ مسلمان کو نہیں رہنے دیں گے، وہ اس بات کا ثبوت دینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ وہ صرف آر ایس ایس کے کارندہ ہیں، اس ملک کے آئین کو ماننے والے نہیں ہیں۔ ساورکر کی آڈیا لوجی پر ہی کام کریں گے۔ مسلمانوں کی نسل کشی اور بیخ کنی میں کوئی موقع ہاتھ سے نہیں چھوڑیں گے۔ ایسے حالات میں مسلمان اپنی بقا و دوام کے لیے جد و جہد نہیں کریں گے، تو وہ دن دور نہیں کہ وہ اندلس کی طرح ہندوستان سے بے دخل کر دیے جائیں یا ان کے لیے اس ملک کو بر ما اور سریا بنا دیا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!