سیاسیمضامین

ظالم کو ظالم جانتے ہوئےبھی حمایت کیوں؟

محمد خالد داروگر، سانتاکروز، ممبئی

ہندوستان اس وقت تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے اور اس ملک پر فسطائی اور فاشسٹ طاقتوں کا قبضہ ہوگیا ہے اور یہ طاقتیں ملک کو تباہی و بربادی کی طرف لے جارہی ہیں۔ ظالموں کی قیادت بدنام زمانہ اور 2002/کے گجرات کے بھیانک فسادات کے ماسٹر مائنڈ نریندر مودی اور بھاجپا کے سابق قومی صدر اور موجودہ وزیر داخلہ تڑی پار امیت شاہ کر رہے ہیں۔ ان کو اقتدار حاصل ہوئے چھ سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ ان چھ سالوں میں انہوں نے ایک ہی کام بڑی منصوبہ بندی اور خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیا ہے اور وہ یہ کہ مسلمانوں اور دلتوں پر ظلم وتشدد کے پہاڑ توڑ کر ان میں ڈر و خوف کی کیفیت کو مستقل برقرار رکھنا تاکہ وہ کسی اور مسئلے پر سوچ ہی نہ سکے۔

ملک کے یہ حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ مسلمانوں کی صفوں میں سے کوئی رہنما اٹھے اور انہیں اس بحرانی کیفیت سے نکالنے کی حتی الامکان کوشش کرے اور وقت اور حالات کے مطابق ان کی صحیح رہنمائی کا فریضہ سرانجام دے۔ لیکن دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ ہمارے یہ ملی قائدین مسلمانوں میں ڈر و خوف کی کیفیت کو برقرار رکھنے میں ظالم حکمرانوں کی اعانت کا کام انجام دے رہے ہیں۔ ایسے ہی قائدین میں ایک نمایاں نام جمعیت علمائے ہند کے جنرل سیکریٹری حضرت مولانا محمود مدنی صاحب کا ہے جو اس وقت نیشنل میڈیا میں شاہ سرخیوں میں اپنے متضاد بیانات کی وجہ سے جگہ بنائے ہوئے ہیں اور مسلسل نیشنل میڈیا ایسے بیانات دے رہے ہیں جس سے حکومت کے موقف کی تائید ہوتی ہوئی دیکھائی دے رہی ہے۔

کشمیر اور این آر سی اور کئی دوسرے معاملات کے تعلق سے مولانا محمود مدنی کے بیانات مستقبل قریب میں مسلمانوں کے لئے پریشانیوں کا باعث بن سکتے ہیں اور مولانا کی ہمت کی داد دینی پڑے گی کہ وہ اس روش پر برابر آگے بڑھتے چلے جارہے ہیں اور کسی ملامت کرنے والے کو خاطر میں بھی نہیں لارہے ہیں۔ ان کے اس رویے پر مولانا عمران صدیقی ندوی نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا ہے کہ”اتنے دنوں سے مولانا محمود مدنی صاحب ایسے بیانات دے رہے ہیں جس سے اتفاق کرنا تو دور کی بات اس پر خاموش رہنا بھی مشکل ہے لیکن اب تک جمیعت کے اندر سے کوئی مخالفت یا بغاوت کی آوازیں نہیں سننے میں آئی، کیا جمیعت میں ایک بھی باشعور غیرت مند مسلمان نہیں ہے؟”

مسلمانوں کے قائدین کے لئے یہ وقت رخصت کا نہیں بلکہ عزیمت اختیار کرنے کا ہے۔ مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کرنے کا ہے ناکہ حوصلہ شکنی کا، ظالم حکمرانوں کی غلط کاریوں کی حمایت کرنے والوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بے زاری کا اعلان کیا ہے۔ حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:”میں تجھے احمقوں کی حکومت(کے شر) سے اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں، میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! (صلی اللہ علیہ وسلم) یہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (یہ جاہل)حکمران میرے بعد آئیں گے۔ جو لوگ ان کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور ان کے جھوٹ کی تصدیق کریں گے اور ان کے مظالم کی پشت پناہی کریں گے وہ نہ میرے ہیں اور نہ میں ان کا ہوں، وہ حوض کوثر پر میرے پاس نہ آسکیں گے۔ اور جو لوگ ملنے کے لیے ان کے پاس نہیں آئیں گے اور ان کے جھوٹ کی تصدیق نہیں کریں گے اور ظلم کرنے میں ان کی اعانت نہیں کریں گے وہ میرے ہیں اور میں ان کا ہوں۔ وہ میرے پاس حوض کوثر پر بھی آئیں گے۔ (مشکوہ کتاب الامارہ والقضا)

ایک اوردوسری حدیث میں جس کو حضرت اوس بن شرجیل رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ”جو شخص کسی ظالم کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے اس کا ساتھ دیتا ہے حالانکہ وہ اسے ظالم جانتا ہے وہ مسلمان نہیں ہے۔ (مشکوہ کتاب الآداب) مودی اور امیت شاہ کے ظالم ہونے پر پورا ملک ہی بلکہ پوری دنیا گواہ ہے۔ اس کے باوجود این آر سی جس مقصد ہی مسلمانوں کو ٹارگٹ کرنا ہے اور ظالم وزیر داخلہ امیت شاہ نے بنگال میں ایک تقریر میں اس کو بلکل واضح کردیا ہے۔ کشمیر میں بھی مسلمانوں کو ہی ٹارگٹ کیا گیا ہے اور آج کشمیر میں مسلمانوں کی جو صورت حال ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ اتنا صاف اور واضح ہونے بعد بھی مودی اور شاہ کے موقف اور اقدام کو صحیح قرار دینا سراسر زیادتی ہے اور ظالم کو ظالم جانتے حمایت کرنا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!