ٹرمپ کے بعد ؟
مرزا انور بیگ
مودی ہے تو ممکن ہے کے نعرے بڑے خوش کن ہیں بھکتوں کے لئے۔
پیارے مودی جی نے نوٹ بدل کر دکھا دی۔ نالے کی گیس سے چولہا جلا کر دکھا دیا اور گوبر گیس پلانٹ سے ٹرکٹر کے ٹیوب میں گیس بھر کے دکھا دی کیوں کہ مودی ہے تو ممکن ہے۔
بیٹی بچاؤ بچاؤ بچاؤ کا نعرہ لگوا دیا۔ بیٹی پڑھاؤ مالش کالج کھلوا دیے کیوں کہ مودی ہے تو ممکن ہے۔ دیش کو بالکل بدل دیا۔ ستر سال پہلے دیش کی بربادی کی پوری سازش کانگریس کے سر ڈال دی گویا ان کے آسمان دنیا سے زمین دنیا پر آنے یعنی رحم مادر میں آنے والے نو مہینے اور باقی کے سوا انہتر سال اس طرح کل ملا کر ستر سال کی پوری ذمہ داری کانگریس کے سر آسانی سے ڈال کر اب اس غلطی کی درستی کی جارہی ہے کیوں کہ مودی ہے تو ممکن ہے۔
جمہوری نظام میں الیکشن کی تیاریاں جنگی پیمانے پر ہوتی ہیں۔ ہر اہل نا اہل، احمق بدتمیز، جاہل و مجرم و قاتل ، تڑی پار و بدکار اور بدکردار سب اپنی مارکیٹنگ کر کے خود کو ملک و ملت کا خیرخواہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خوشنما خواب ہتھیلیوں پر سجا کر لاتے ہیں۔ عوام کا ہمدرد بن کر خود کو پیش کرتے ہیں۔ مودی نے جب سے حکومت سنبھالی پہلے گجرات کے وزیر اعلی کا عہدہ سنبھالا اور اسی وقت سے الیکشن کی تیاری میں مصروف ہوگئے۔
اپنی پہلی میقات میں بھیانک ہندو مسلم فساد کروا کر جس میں قریباً دو ہزار سے زائد مسلمان عورتوں بچوں مرد عورتوں کو قتل کیا گیا۔ درندگی کی وہ مثال قائم کی گئی جو شائد ہلاکو خان کے بعد مودی کے نام ہی رجسٹر ہوئی ہوگی جس میں اجتماعی عصمت دری سے لے کر رحم مادر سے بچے کو نکال کر ہوا میں اچھالا گیا اور زمین پر گرنے سے پہلے سفاک بھگوا بہادروں نے تلوار کے وار سے ٹکڑے کر دیے۔ اسی طرح سینکڑوں بچوں کو جو کسی کے بیٹے بھی تھے اور بیٹیاں بھی تھیں جنہیں بچانے کی بات کم از کم ان کے منہ سے اچھی نہیں لگتی، انہیں زندہ جلا دیا گیا۔ اس طرح مودی جی اپنی الیکشن مارکیٹنگ میں پوری طرح کامیاب ہو کر دوبارہ وزیر اعلی گجرات بن گئے اور اپنے اقتدار کو مضبوط کرتے چلے گئے۔
مودی جی کی ایک بہترین صفت یہ ہے کہ وہ ایک الیکشن جیتتے ہی فوراََ دوسرے الیکشن کی تیاریاں شروع کر دیتے ہیں۔ اپنے مخالفین کو کنارے لگانے سے لے کر بھکت بنانے کا بہترین گن ان کے اندر موجود ہے۔ وہ وزیر اعلی سے وزیر اعظم بن گئے مگر معمول میں فرق نہیں آیا۔ 2014 کا الیکشن جوں ہی جیتا فوراََ 2019 کی تیاری شروع کردی ۔ ملک میں کوئی کام ہوا نہ ہوا مگر مودی جی مسلسل الیکشن ریلیوں کو سمبودھت کرتے رہے۔ ان کے کام کاج کے پروگرام میں صرف دو پروگرام ترجیحی طور پر شامل رہے۔ ایک بیرونی ممالک کے دورے دوسرے الیکشن مارکیٹنگ۔ انہی دو کاموں میں پانچ سال گذر گئے اور عوام کے لئے جب جواب دینے کو کچھ نہیں بچا تو پھر خونی کارڈ کھیلا گیا۔ بلاسٹ، پاکستان، مسلمان اور دہشت گردی۔
بہرحال وہ پھر اتنے زیادہ کامیاب وزیر اعظم ثابت ہوۓ کہ صدر امریکہ کی نظر ان پر پڑی اور مسٹر ٹرمپ نے انھیں کراۓ پر بلا کر اپنی الیکشن مارکیٹنگ کروا ڈالی۔ اس پوری تمہید کا حاصل یہ ہے کہ اگر ٹرمپ جیت گئے تو خیر کوئی بات نہیں چار سال اور مودی جی امریکی دورے کرلیں گے اور ٹرمپ تو ٹرمپ کارڈ ہی ہیں ان کا رویہ کراۓ کے اینکر کی وجہ سے تو بدلنے والا نہیں ہے کہ ہندوستانیوں کے لئے ویزا اور امیگریشن آسان کردیں گے اور ہندوستانی اشیاء سے ٹیکس ہٹا لیں گے۔
کرائے کے اینکر کی اوقات صرف اتنی ہے کہ اپنی اجرت لے اور نکل لے۔ مگر بالفرض ٹرمپ الیکشن ہار گئے تو پھر مودی اور بھارت اور امریکہ میں بسے بھارتیوں کا کیا ہوگا ؟ یا ٹرمپ کے دوسری مدت پوری کرنے کے بعد جب دوسرا کوئی صدر بنے گا تو بھارت کی اوقات اس کی نظر میں کیا ہوگی۔ یہی سوچ رہا ہوں کہ موی ہے تو کچھ بھی ممکن ہے۔ بربادی بھی۔