آخر ہمارا ملک کہاں جارہا ہے!
سمیع اللّٰہ خان
ہندوستان کی 49 مؤثر شخصیات کے خلاف ملک سے بغاوت کا مقدمہ!
بہار کے ایک سنگھی ذہنیت کے حامل وکیل سدھیر کمار اوجھا نے دو مہینے پہلے مظفر پور کی عدالت میں اُن 49 معزز اور مؤثر ہندوستانیوں کے خلاف نریندرمودی کی شبیہ خراب کرنے اور ملک میں علیحدگی پسندی کو پروموٹ کرنے کا الزام لگاتے ہوئے اپیل دائر کی تھی
جن انتالیس شخصیات نے ملک میں مسلمانوں اور دلتوں پر ہورہے مظالم کی مذمت کی تھی اور خاص طورپر زہریلی” Mob Lynching, ہجومی دہشتگردی ” پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیاتھا اور وزیراعظم نریندرمودی کو کھلا خط لکھ کر ملک میں بڑھ رہی فسادی کارروائیوں اور سَنگھی انتہاءپسندی کو روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے انہیں انسانیت اور جمہوریت کی تذکیر کی تھی، ان انصاف پسند شخصیات نے اس تلخ سچائی کا بھی اعتراف کیاتھا کہ ” جے شری رام ” کے نعرے کو جنگ کا ہتھیار بناکر استعمال کیاجارہا ہے اور حکومتِ وقت پر تنقید کو ملک پر تنقید سے تعبیر کیا جارہاہے_
ان لوگوں کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے Chief Judicial Magistrate نے پولیس کو ان پر ” ایف آئی آر ” درج کرنے کا حکم دیا تھا، چنانچہ آج ان انصاف پسند Celebrities کے خلاف، ملک سے بغاوت، غداری، عالمی سطح پر وزیراعظم کی شبیہ خراب کرنے اور ملک میں تناؤ پھیلانے جیسے سنگین مجرمانہ معاملات پر مشتمل مقدمہ درج کرلیاگیا ہے_
سچ بولنے اور انصاف کی جرأت کرنے والے ان معززین میں پروفیشنل میدان کے ماہرين اور متخصصین شامل ہیں جن میں سے بعض کے نام یہ ہیں
تاریخ داں رام چندر گہا، فلمساز منی رتنم، اپرنا سین، گلوکارہ شبھا مدرل، اداکارہ کونکنا سین، ہدایتکار شیام بینیگل اور انوراگ کشیپ وغیرہ ہیں…
نئے ہندوستان میں ایسے مجرمانہ معاملات جن لوگوں کے خلاف عدالتی حکم پر پولیس نے درج کیے ہیں ان کے نام اور میدان کار کے متعلق جان کر یقینًا آپ حیران تو ہوں گے البته ہندوستانی سسٹم میں اب ایسی آمرانہ حرکتیں نئی بات نہیں رہی ہیں…… جمہوری نظام حکومت میں جو شخصیات ملک کے لیے تعظیم و تکریم کا باعث ہوتی ہیں انہیں حکومت کے خلاف سچ بولنے کے جرم میں مجرمانہ معاملات میں ماخوذ کرکے ہندوستان نے عالمی سطح پر اپنی شبیہ کتنی درست کرلی ہوگی وہ بتانے کی تو ضرورت نہیں ہے لیکن اتنا تو صاف صاف ظاہر ہے کہ ملک کے سسٹم میں کسقدر آلودگی ہوچکی ہے_
دوسری طرف فیسبوک کے بعد اب سماجی ذرائع ابلاغ کی مشہور ایپلیکیشن ٹوئٹر نے بھی ہندوستان میں اپنے سنگھی آمریت سے مربوط ہونے کا ثبوت دینا شروع کردیاہے، پچھلے دنوں اس نے حکومتی رویے کے خلاف آواز اٹھانے والے کئی سوشل ایکٹوسٹوں کے اکاؤنٹ بند کرنے کے بعد آج، پچھڑے طبقات کے معروف ایکٹوسٹ، کالم نگار اور بلاگر ” ہنس راج مینا ” کا اکاؤنٹ ٹوئٹر نے Suspend کردیاہے وہ گزشتہ کئی دنوں سے آدی واسیوں کے مسائل پر مضبوط آواز اٹھا رہےتھے، ٹوئٹر کی موجودہ بھاجپا نواز پالیسیوں نے ثابت کردیاہے کہ اب ٹوئٹر کے انڈیا دفتر میں کون لوگ قابض ہوئے ہیں_
اسی کے ساتھ کشمیر کو ہندوستان کا حصہ قرار دینے کے آج ۲ مہینے مکمل ہوچکے ہیں، اسے دنیا کی تاریخ یاد رکھے گی کہ ایک ریاست کو اس کے تمام اختیارات چھین کر جب دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں ضم کیاگیا تو اسے ناصرف ہندوستان سے چھپا لیاگیا بلکہ پوری دنیا سے اس کا رابطہ منقطع کردیاگیا، وہیں دوسری طرف لاکھوں انسانوں کو آسام میں ” این آر سی ” کے ظالمانہ عمل کی وجہ سے شہری حقوق سے محروم کیاگیا
ملک کی معیشت ٹوٹ رہی ہے، حکومت کی مالیاتی اور معاشی پالیسیاں پوری طرح ناکام ہیں جس کی وجہ سے تجارت کا ہر چھوٹا بڑا شعبہ بحرانی حالت سے گزررہا ہے، متوسط طبقے کی جمع پونجی تک ختم ہورہی ہے
کیا آپکو اندازہ بھی ہے کہ آپکا ملک کس غیر یقینی سمت میں آگے بڑھ رہاہے؟
ملک کی ایسی بدترین سچویشن میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملک کے نوجوان سب سے پہلے اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے آئینی لڑائی لڑتے، اور فاشسٹ طاقتوں کے غرور کو اپنے آہنی عزائم سے توڑنے کے لیے متحد ہوتے، اس کے ساتھ تعلیمی، سیاسی اور تجارتی میدانوں میں منظم کیڈر بناکر اپنا وجود مضبوط کیا جاتا لیکن محسوس یہ ہوتاہے کہ ملک کی اکثریت کے نزدیک یہ فسطائیت اور آمریت معمول کے واقعات بن چکےہیں لیکن یاد رکھیں ایک دن یہی واقعات آپکے لیے زندگی کا معمول بھی ہوسکتے ہیں _
نوجوان شاعر نسیم خان کہتاہے:
” ہے یہی وقت کہ پھر بعد میں پچھتاؤ گے "
” گر نہ بیدار ہوئے اب بھی، تو مر جاوگے "