اولاد کی تربیت سے غفلت، مجرمانہ عمل ہے
محمد ندیم الدین قاسمی، حیدرآباد
بلا شبہ اولاد والدین کے لئےایک عظیم نعمت، قیمتی سرمایہ ،ایک اہم ترین امانت اور مستقبل میں قوم کے معمار ہوتےہیں، اگر ان کی حفاظت کی جائے، خیر وبھلائی اور اخلاق حسنہ سے آراستہ کیا جائے، اچھی تعلیم وتربیت سے ہمکنار کیا جا ئے تو وہ فرشتہ صفت انسان، ولی کامل اور قطبِ زمانہ بن سکتے ہیں؛کیوں کہ بچپن کی تربیت “نقش علی الحجر”کی طرح ہوتی ہے،لیکن اگر انہیں نظر انداز کیا جائے اور جانوروں کی طرح صرف ان کی جسما نی ساخت وپرداخت کی فکر کی جائے تو وہ بہیما نہ صفات کے حامل، سماج کے لئے ایک ناسور، والدین کے لئے دردِ سر اور ملت اسلامیہ کے لئے عظیم خسارہ اور آنے والی نسلوں کے بگاڑ سبب بن سکتے ہیں؛ اسی وجہ سے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا “ما نحل والدٌولدہ من نَحْلٍ افضلَ من ادب حسنٍ “(کسی باپ نے اپنی اولاد کو کو ئی عطیہ اور تحفہ حسنِ ادب اور اچھی سیرت سے بہتر نہیں دیا)
یہی وجہ ہے کہ ان دشمنانِ اسلام نے اسلا م کو مٹانے کے لئے یہی نسلِ نو کو اپنا نشانہ بنایا جس کے لئے انہوں نے میڈیا کا سہا را لیا، اس میڈیا نے نسلِ نو کے جذبات کوغلط رخ دینے کے لئے طرح طرح کے حربے آزمائے اور فحاشی و عریا نیت کا وہ طوفان برپا کیا کہ الامان الحفیظ! اور سیٹلا ئٹ چینلز کی شکل میں ایسا جال بچھا یا گیا جس نے بے حیا ئی اور بے شرمی کے تمام دروازے کھول دئے، بد کرداری، فحاشی وعریانیت کو ایک حسین شکل میں پیش کیا گیا اور مستزاد یہ کہ نسل نو کی عقلوں کو بگا ڑنے، دلوں میں فساد پیدا کر نے، آنکھوں سے حیا کا پردہ ہٹانے اور دینی اقدار کو ختم کر نے کے لئے نئے نئے گیمس ایجاد کئے جس میں آج کل ہمارے بچے خوب مبتلا ہیں
اور تو اور موجودہ لاک ڈاون کے فرصت کے زمانہ میں تو ایسے عادی ہوگئے کہ اللہ کی پناہ ! نہ نماز کی فکر ، نہ والدین کا احترام ،نہ بڑوں کی عزت ،اورنہ والدین کو اپنے بچوں کی تربیت کا شوق،نہ فکر اور نہ اس میں خاص دلچسپی ،جس کا نتیجہ ہے کہ آج کل بچے بڑی تیزی سے بری عادات اور غیروں کے طریقوں کے عادی ہوتے جارہے ہیں ،جس کا گناہ لازما والدین کوہی ہوگا۔
بچوں کی تربیت کی اہمیت قرآن وحدیث کی روشنی میں
۱۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:” قُوْا أَنْفُسَکُمْ وَأَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ“․(التحریم:۶)ترجمہ:”اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں“۔۲۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تفسیر وتشریح میں فرمایا کہ:”علموھم وأدِّبوھم“․ترجمہ:”ان (اپنی ولاد )کو تعلیم دو اور ان کو ادب سکھاؤ“۔فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ ہر شخص پر فرض ہے کہ اپنے بیوی بچوں کو فرائض شرعیہ اور حلال وحرام کے احکام کی تعلیم دے اور اس پر عمل کرانے کے لیے کوشش کرے۔
۳۔”مَانَحَلَ والدٌ أفضلَ مِنْ أدبٍ حسنٍ“․ (بخاری، جلد:۱،ص:۴۲۲)ترجمہ:”کوئی باپ اپنی اولاد کو اس سے بہتر عطیہ نہیں دے سکتا کہ اس کو اچھے آداب سکھادے“۔
۴۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یارسول اللہ! والدین کے حقوق تو ہم نے جان لیے، اولاد کے کیا حقوق ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کا نام اچھا رکھے اور ان کی اچھی تربیت کرے “۔
بچوں کی تربیت بتدریج ضروری ہے
تربیت میں تدریجی انداز اختیار کرنا چاہیے؛ چنانچہ غلطی پر تنبیہ کی ترتیب یوں ہونی چاہیے : ۱-سمجھانا۔۲-ڈانٹ ڈپٹ کرنا۔۳-مارکے علاوہ کوئی سزا دینا۔۴-مارنا۔۵- مناسب انداز میں قطع تعلق کرنا۔
تربیت کیسی ہو؟
چناچہ سب سے پہلے والدین و اساتذہ کافرض ہے کہ وہ بچوں کے دلوں میں عقیدۂ توحید و عقیدہ ایمان کو انبیاء و صحابہ کرام ؓ کے قصے سنا کراس طور پر راسخ ومضبوط کردیں کہ جب بھی ان کے دل میں کسی چیز کی طلب یا کسی معاملہ میں استعانت ومدد درکار ہو تو وہ اس کے لیے صرف اور صرف ربِ کائنات کے حضور ہی اپنے ہاتھوں کو پھیلائیں۔
۲۔رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا”ادّبوا اولادكم على ثلث خصال حبّ نبيّكم و حبّ اهل بيته و تلاوة القرآن”( کنز العمال ۱۶/۴۵۶)ترجمہ: اے لوگو! تمہاری اولا کو تین چیزوں کی تربیت دو :تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت،اور ان کے اہل بیت علیہم السلام کی محبت اور قرآن مجید کی تلاوت ۔
۳۔ہمارےاکابر کے قصے سنائیں اور علماء کرام کی مجالس میں لے جایا کریں اس سے ان کے دل تعلیمات نبویہ کی طرف مائل ہوں گے ،اور دین سیکھنے کا جذبہ پیدا ہوگا۔
۴۔انہیں عصری تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم بھی دلائیں ۔۵۔ سب سے اہم بات کہ والدین اللہ سے اپنے بچوں کے تعلق سے راتوں میں اٹھ کرخوب دعائیں مانگیں”کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحر گاہی” تاکہ وہ حشر میں والدین کی رسوائی کا سبب نہ بنیں بلکہ دنیا ہی صدقہ جاریہ بن جائے۔
اللہ عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین