کشمیر: خدارا! زخم پر نمک نہ چھڑکیں۔
مفتی افسر علی نعیمی ندوی
قرآن کریم کی یہ آیت کشمیری مسلمانوں کی المناک حالت کی عکاسی کرتی ہے کہ ”اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم کمزور مردوں،عورتوں اور بچوں کے لیے اللہ کی راہ میں نہیں لڑتے، جو ظلم سے عاجز آکر دعا کر رہے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں اس بستی سے نکال لے جس کے رہنے والے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا حماتی بنا دے اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا مدد گار بنا دے، جو لوگ مومن ہیں وہ تو اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں، تو تم شیطان کے ساتھیوں سے جہاد کرو،۔۔۔۔۔۔ تم جہاں کہیں بھی ہوگے موت تمہیں آ پکڑے گی، اگر چہ تم مضبوط برجوں میں کیو ں نہ ہو۔ (النساء: 75 تا 78)
آج کشمیری بھائیوں، بہنوں، بہو اور بیٹیوں پر جو ظلم ہو رہا ہے کہ بے قصور مسلم نوجوانوں کو فوج گھروں سے اٹھا کر لے جا رہی ہے، انہیں جیلوں میں بند کیا گیا یا ہمیشہ کے لیے دار فانی سے رخصت کر دیا گیا اس کے بارے میں کسی کو کوئی اطلاع نہیں ہے۔ حکومت کے نامزد درندے بشکل فوج کشمیری بہو بیٹیوں کی عزت و عصمت کو تار تار کر کے اپنی ہوس کی پیاس بجھانے میں ہمہ وقت مصروف ہیں۔ ہزاروں بچوں کو قتل کر دیا گیا، لاکھوں سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ پورا کشمیر جیل خانہ بنا ہواہے۔ دوکانیں بند ہیں، اسکولس، کالجز اور یونیورسیٹیاں مقفل ہیں۔ راستے سنسان ہیں۔ بیمار گھروں میں دواؤں کے لیے ترس رہے ہیں۔ ہزاروں بھوک او رپیاس کی وجہ سے مالک حقیقی سے جا ملے۔ مسجدوں میں نماز پر پابندی ہے۔ نماز جنازہ پڑھنے کی اجازت نہیں ہے، آخر کار ظلم و بربریت سے موت کا شکار ہوئے افراد کو ان ہی کے گھروں میں دفن کیا جا رہا ہے۔ امن پسند سیاسی رہنماؤں کو غیر متعینہ مدت کے لیے حراست میں لے لیا گیا ہے، کچھ رہنماؤں کو انہیں کے گھروں میں نظر بند کیا گیا ہے۔
کشمیر کے عظیم رہنما غلام نبی آزاد کو کئی مرتبہ جموں کے ائیر پورٹ سے ہی دہلی واپس بھیج دیا گیا۔ جب وہ سپرم کورٹ سے اجازت لینے گئے تو سپریم کورٹ نے شروط و قیود کے ساتھ وہاں جانے کی اجازت دی۔ جب کشمیر گئے تو وہاں بولنے کی آزادی اور عوام سے ملنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ ایک عظیم سیاسی لیڈر ایسے مشکل حالات میں عوام کی دکھ درد کو نہیں سنے گا تو کیا وہ ہاسپٹل میں مریضوں کی علاج کرے گا؟ کشمیری مسلمان بالکل زندہ لاش کی طرح ہیں کہ ظلم و زیادتی اور ظالموں کی خواتین پر دست درازی اور ان کی عزت و عصمت کو داغ دار کرتے ہوئے دیکھ کر بھی کچھ نہیں کر سکتے ہیں۔ہندوستان کا وزیر اعظم اور وزیر داخلہ قاتلوں کا سر غنہ ہے۔ وزیر اعظم نرندر مودی اور ہٹلر میں کوئی فرق نہیں ہے، تبھی تو ان کے حالیہ دورہ ئ امریکہ پر وہاں کے ہندوستانی باشندوں نے ایک احتجاج منظم کیا اور پلے کارڈ اور بینرس پر لکھا کہ ہٹلر مودی کشمیر پر ظلم ختم کرو۔
وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کا یہ دعویٰ کہ 370اور 35Aکو ختم کرنے سے کشمیر ترقی کرے گا اور وہاں خوشحالی آئے گی، یہ سراسر جھوٹ اور فریب پر مبنی ہے۔ اگر واقعی اس کے خصوصی درجہ کو ختم کرنے میں ہی ترقی مضمر ہے تو آخر انہیں تقریباً دو مہینے سے انہیں کے گھروں میں کیوں بند کیا گیا ہے؟ کرفیو کیوں نافذ کیا گیا ہے؟ انہیں اپنے اسٹیٹ کی ترقی اور خوش حالی پر جشن کیوں منانے نہیں دیا جا رہا ہے؟ وہاں کے سابق وزیر اعلیٰ کو کیوں پولیس کے حراست میں لیا گیا؟ اور چند کو کیوں نظر بند کیا گیا ہے؟ وہاں کے رہنماؤں کو اپنے شہر میں جانے کے لیے سپریم کورٹ سے اجازت لینے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے؟ انہیں سپرم کورٹ چند شرائط کے ساتھ جانے کی اجازت کیوں دے رہا ہے؟ مواصلاتی نظام کو کیوں معطل کیا گیا ہے؟ مواصلاتی نظام کو اس لیے معطل کیا گیا ہے کہ عام لوگوں تک وہاں کے نسل کشی اور ظلم و بربریت کی خبریں نہ پہنچ سکے۔ نوجوان تعلیمی میدان میں تحت الثریٰ میں چلا جائے۔ اپنے حقوق کے مطالبے پر پابند کیوں عائد کی گئی ہے؟
اس سال اگست 2019 میں ہم نے عید الاضحی کے موقع پرحسب استطاعت جانوروں کی قربانی پیش کی، عید گاہوں اور بڑے مساجد میں عید الاضحی کی دو گانہ نماز ادا کی؛ لیکن کشمیر یوں کو نہ عیدگا ہوں میں نماز پڑھنے دیا گیا اور نہ ہی بڑے مساجد میں نماز ادا کرنے دیاگیا۔ ہزاروں لوگوں کو فوج نے ہمیشہ کے لیے اندھا بنا دیا۔ لاکھوں نوجوان جام شہادت نوش کر چکے۔ کیا اسی کا نام ترقی اور خوش حالی ہے؟ اگر یہی ترقی ہے تو اس سے پہلے کی تنزلی ہزار گنا بہتر تھی۔
بی جے پی مسلم مخالف پارٹی تھی، ہے اور رہے گی۔ اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اسی پارٹی کے لیڈران اور ٹی وی چینلز کے نام پر کلنک اینکرز نے مسلم خواتین کی انصاف کے نام پر ”تین طلاق“بل کو ایسے بنا کر پیش کیا کہ مسلم خواتین کے تمام مسائل کا یہی واحد حل ہے۔ وزیر اعظم بھی اپنی ریلیوں میں چیخ چیخ کر کہتے تھے کہ ہم مسلم خواتین کو ضرور انصاف دلائیں گے۔ افسوس صد افسوس کے وہ اپنی بیوی کو انصاف نہیں دے سکے۔ وہ گودی میڈیا کے اینکرز جو حکومت کے تلوے چاٹنے میں مصروف رہتی تھی، اس کے لیے ہندوستان کے تمام مسائل سے بڑھ کر ”تین طلاق“ پر ڈبیٹ کرانا ہی سب سے اہم مسئلہ ہوتا تھا، وہی اینکرز جو علماء اور بی جے پی مخالف پارٹیوں کے نمائندوں کو مخالف فلاح و بہبود مسلم خواتین ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کی بازی لگا دیتے تھے۔
آج انہیں اینکرز کو مودی کے تلوے چاٹنے اور ان کے قدموں میں ہمہ وقت سر بسجود رہنے کی وجہ سے کشمیر میں لاکھوں مرد و خواتین پر ہو رہے ظلم و ستم انہیں نظر نہیں آ رہے ہیں۔ تبریز کی بیوی کے آنسو، پہلو خان کے لواحقین کی چیخ و پکار، جنید اور نجیب کی ماں کی آہ بکا نظر نہیں آرہی ہے، وزیر اعظم اس کو انصاف کون دے گا؟
جنت نما کشمیر آج جہنم کا گڑھا بن چکا ہے۔ اگر حکومت کی دو رخا پالیسی نہ ہوتی تو کشمیر کی خصوصی درجہ کے خاتمہ کے ساتھ دیگر ریاستوں کے خصوصی درجات کو بھی یک لخت ختم کر دیتی، لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ آج جو صورت حال کشمیر کی ہے اگر ایسی صورت حال کسی دیگر ریاست کی ہوتی تو نہ جانے حکومت کو کتنے کروڑوں کا نقصان پہنچایا جاچکا ہوتا۔عوام و خواص سڑک پر اتر کر ملک کے اقتصاد کو کتنے تنزل میں دھکیل چکے ہوتے اس کا اندازہ صرف اس سے کیجیے کہ ایک زانی اور ڈھونگی بابا کے گرفتار کر نے پر غیر مسلموں نے سیکڑوں گاڑیا جلا ڈالی؛ لیکن حکومت نے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی کیوں کہ وہ سب مسلمان نہیں تھے۔
آج اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود تمام مسلم تنظیمیں، جماعتیں اور جمعیتیں خاموش ہیں یا زخم پر نمک چھڑکنے میں مصروف ہیں، ہزاروں خداؤں کی پرستش کرنے والوں کی خوشنودی حاصل کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ارشاد خدا وندی ہے کہ ”مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں“۔ (الحجرات:10) نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مومنوں کی مثال ایک دوسریسے محبت کرنے، رحم دلی سے پیش آنے اور شفقت کرنے میں ایک جسم کے مانند ہیں، جب کوئی عضو مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے تو پورا جسم اس سے متاثر ہوتا ہے، پورا جسم جاگتا اور بخار و بے خوابی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ (صحیح البخاری، کتاب الایمان)
دنیا کے مسلمان کسی خطہ میں آباد ہو ں تو وہ امت مسلمہ کا ایک جز ہیں، اگر وہ آرام و سکون کے ساتھ ہیں تو پوری امت مسلمہ پر سکون ہے۔ اگر وہ ظلم کے شکار ہیں تو پوری امت کے لیے ضروری ہے کہ ان کی تکلیف اور بے چینی کو محسوس کر کے ظلم کے خاتمہ کے لیے ہر ممکن کوشش کریں۔ اگر ہندوستانی مسلمان ان تمام حالات کو دیکھتے اور سنتے ہوئے بھی پر سکون زندگی گزار رہا ہے تو اس کو اپنے ایمان کا جائزہ لینا چاہیے کہ اس کا ایمان کس قدر کمزور ہو چکا ہے کہ ظلم کو ظلم نہیں سمجھ رہا ہے، ظالم کے خلاف کوئی آواز بلند نہیں اٹھا رہا ہے۔ خاموش تماشائی بنا بیٹھا ہے۔مسلمانو! اپنے فروعی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاؤ، مل جل کر ظلم کا خاتمہ کرنے اور ظالم کو کیفر کردار تک پہنچانے کی باریک بینی کے ساتھ منصوبہ بندی کرو۔
متحد ہو تو بدل ڈالو دنیا کا نظام
مسلمانو! مصلحت کے نام پر کب تک بزدلی دکھاتے رہوگے، یاد کرواپنے اسلاف کی تاریخ کو کہ محمد بن قاسم نوجوان سپہ سالار نے ایک مسلم خاتون کی فریاد رسی کے لیے سندھ کے راجا داہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور تمام مظلوموں کو انصاف دلایا۔
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر