سماجیسیاسیمضامین

سماج بدلے گا تو سیاست بھی بدلے گی ‬

ساجد محمود شیخ، میراروڈ

 ملک کے موجودہ حالات بہت تیزی سے بدل رہے ہیں ۔ ملکی سیاست میں آر ایس آرایس کی پرورده اور داٸیں بازو کی شدت پسند جماعت بھارتی جنتا پارٹی کا غلبہ ہے اور ہر انتخاب میں اسے زبردست کامیابی حاصل ہورہی ہے ۔دوسری طرف سیاست و جمہوری عمل میں مسلمانوں کی اہميت ختم ہوگئی ہے اور انہیں تقریباً حاشیہ پر ڈھکیل دیا گیا ۔گذشتہ پارلیمانی میقات میں بی جے پی حکومت  کی کارکردگی نہایت  خراب تھی ۔ بالخصوص نوٹ بندی اور جی ایس ٹی جیسے معاملات کی وجہ سے عوام حکومت سے نالاں اور بیزار نظر آرہے تھے ۔

اسی بناء پر مسلمان بہت پرامید تھے کہ بی جے پی گذشتہ انتخاب ہار جا ئے گی اور اس کی حکومت کا خاتمہ ہوجاۓگا مگر جب نتائج سامنے آۓ تو مسلمان حیرت زدہ رہ گۓ کیونکہ ان کی توقعات کے برخلاف بی جے پی دوسری بار بھی نہایت شاندار کامیابی سے ہمکنار ہوگئی اور اس کی نشستوں میں بھی اضافہ ہوگیا ۔اس کے بعد نتائج  کو لے کر مسلمانوں کے درمیان  کافی بحثیں ہوٸیں تبصرے ہوۓ اور اس پر کٸی دنوں تک چرچا کا بازار گرم رہا۔

اور ان گفتگو  میں یہ خیال عام ہونے لگا کہ بی جے پی کی یہ غیر معمولی کامیابی ای وی ایم یعنی الکٹرانک ووٹنگ مشین سے چھیڑچھاڑ کا شاخسانہ ہے اور بی جے پی کی پےدرپہ کامیابی اسی گڑبڑی کی مرہون منت ہے ۔ جبکہ یہ ایک مفروضہ ہے ۔اس کا حقیقت سے کوٸی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ شکست کھاٸی ہوٸی سیاسی جماعتوں کی طرف پھیلاٸی گٸی گمراہ کن بات ہے کیونکہ وہ بہت بری طرح شکست کھاچکی ہیں اور عوام الناس کے سامنے اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرنا چاہتی تھیں کہ لوگوں نے ان کو بہت بری طرح سے مسترد کردیا ہے۔

وہ یہ مفروضے کو اس لۓ بے بھی عام کر رہی تھی انہیں اپنے کارکنوں کو متحد بھی رکھنا تھا کیونکہ مایوس کیڈر کے کھسک کر دوسری پارٹی میں چلے جانے کا اندیشہ ستا رہا تھا ۔  سیاسی جماعتوں کی جانب سے پھیلاۓ گۓ اس مفروضے کو مسلمانوں نے بھی جلد قبول کرلیا اور اس بات کو سچ مان بیٹھے اور اسی بھرم میں مبتلا رہے کہ سارا معاملہ ای وی ایم میں چھیڑچھاڑ کا شاخسانہ ہے جبکہ سچائی کچھ اور تھی ۔       درحقیقت ملک کے اندر اکثریتی فرقہ کو اقلیتی فرقہ کے خلاف شکوک و شبہات میں مبتلا کیا جارہا ہے ۔

ہندوٶں کو مسلمانوں سے ڈرایا ہے ۔ مسلم  حکمرانوں کی کردار کشی کی جارہی ہے ۔ مسلمانوں کو دہشت  گرد خونی اور ملک مخالف کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے اسلامی  عاٸلی قوانین کو مضحکہ خیز انداز میں پیش کیا جارہا ہے ۔ایک مسلم ناعاقبت اندیش سیاسی لیڈر کے الٹے سیدھے بیانات کو خوب مشتہر کیا گیا اور یہ   بتایا گیا کہ اگر ہندو متحد نہ ہوۓ تو مسلمانوں کا فلاں لیڈر وزیر اعظم بن جاۓگا ۔ یہ کوٸی ہنسی  مذاق کی بات نہیں بلکہ راقم الحروف نے برادران وطن کے ایک گروپ میں ایسی پوسٹ کا مطالعہ کرچکا ہے ۔

آر ایس ایس اور بی جے پی کا سوشل میڈیا کا سیل بہت مضبوظ ہے اور لگاتار سوشل میڈیا پر ایسے پوسٹ  بھیجے جاتے ہیں جن سے ہندوٶں اور مسلمانوں کے بیچ نفرت میں اضافہ ہو برادران وطن کے اندر مسلمانوں کے تیٸں نفرت اور غصہ میں اضافہ ہوتا رہے۔ اس طرح ہندوٶں کو مسلمانوں کے خلاف متحد کرکے اکثریتی ووٹوں کا ارتکاز کیا گیا۔ 

اگر مسلمان یہ چاہتے ہیں کہ کہ ملک کی سیاسی فضا بدلے۔ اقتدار میں سیکولر اور انصاف  پسند لوگوں  کی واپسی ہو تو صرف خواہش سے یہ کام نہیں ہونے والا ہے اور صرف الیکشن کے بھروسہ پر ملک میں تبدیلی لانا ممکن نہیں ہے ۔اس کے لئے سماج کو بدلنا ہوگا  ۔سماج میں مسلمانوں کے تعلق سے نفرتوں کو کم کرنے اور محبت کو بڑھاوا دینے میں مدد ملے ایسا ماحول تیار کرنا پڑے گا۔

برادران وطن کے دلوں سے اسلام و مسلمانوں کے تعلق سے غلط فہمیوں کو ختم کرنا پڑے گا اور ذہنوں میں پا ئے جانے والے شکوک  و شبہات کا تدارک بھی کرنا پڑے گا ۔ اب سوشل میڈیا پر ہم لوگوں کو پہلے سے زیادہ متحرک  ہوجانا  ہے ۔ وہاٹس اپ اور سوشل میڈیا کے دیگر اپلیکیشن اب ہمارے لئے صرف وقت گذاری کا ذریعہ نہ رہیں بلکہ تحفظ ملت کا پلیٹ فارم بن جاٸیں ۔ہمارے پاس جو ایسے پوسٹ ۔تصاویراور ویڈیو آتے ہیں جن سے غلط فہمی دور ہوسکے انہیں برادران وطن کے گروپ میں فوراً بھیجنا چاہیئے اور ۔نفرت بھرے پیغامات کا مدلل جواب دینا چاہیئے۔

خود ہم کو بھی نفرت پھیلانے والے مواد کو عام کرنے سے پرہیز کرنا پڑےگا ۔ایسے پیغامات جن سے برادران کو تکلیف پہنچتی ہو یا جن میں ان کے مذہب کا مذاق اڑایا گیا ہو یا پھر ان سیاسی قاٸدین کا تمسخر اڑایا گیا ہو ہرگز بھی عام نہ کریں ۔خیال رہے کہ موجودہ وزیر آعظم بھی ان کے پسندیدہ قاٸدین میں سے ہیں اسلۓ ان کا مذاق اڑانے کے بجائےان غلط پالیسیوں اور اقدامات پر بات ہو اور ان کی ناکامیوں کو اجاگر کیا جا ئے۔ دھیان رہے کہ یہ لڑائی صرف سوشل میڈیا پر ہی نہیں لڑی جا ئے گی بلکہ ہمیں سماج سے عملی طور پر بھی جڑنا چاہیئے۔

براران وطن سے برارانہ تعلقات استوار کرنے ہوں گے ۔ سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ حصہ لینا پڑےگا ۔ جن دفاتر میں ہم برسرروزگار ہیں وہاں اپنے عمده اخلاق سے سیرت و کردار کا اعليٰ نمونہ بن جاٸیں۔ عوامی مقامات بس ٹرین وغیرہ میں معمولی لڑائی جھگڑوں کو طول دینے کے بجائے صبر و تحمل کے مظاہرے کی ضرورت  ہے ۔ فلاحی کام ترجیحی بنیادوں پر کرنے اور قدرتی آفات و مصیبتوں کے مواقع پر بڑھ چڑھ کر اپنی خدمات پیش کرنے کی ضرورت  ہے ۔ 

ہمارے سامنے تاتاریوں  کی مثال ہے انہوں نے مسلمانوں پر حملہ کرکے مسلم حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی ۔ مسلمانوں کا قتل عام کر دیا تھا۔ مگر خوف و ہراس کے اس ا بدترین دور میں بھی مسلمانوں نے اپنے اخلاق و کردار کا  وہ اعليٰ نمونہ پیش کیا کہ تاتاری مسلمانوں کے گرویدہ ہو گۓ اور حلقہ بگوش اسلام ہو کر مسلمانوں کے محافظ بن گئے۔ اگر ہندوستان میں بھی مسلمانوں نے اپنے اخلاق و کردار سے برادران وطن کو متاثر  کردیا تو یہاں کا سماج بدل جا ئے گا اور جب سماج بدلے گا خودبخود یہاں کے حالات بدل جاٸیں گے إن شاءالله ملک کی سیاسی فضا بھی بدل جا ئے گی ۔ضرورت ہیکہ ہم اس طرف متوجہ ہوں ۔ 
ہےعیاں یورش تا تار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے  

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!