سماجیمضامین

جے این یو اور دیپیکا

شیخ زید احمد

مشہور بالی ووڈ اداکارہ دپیکا پڈوکون کے اچانک جواہر لال یونیورسٹی پہچنے، اور متاثرین کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کی وجہ سے ہندوستانی عوام میں کھبلی سی مچ گئی، ان کے جے این یو پہنچنے پر دونوں قسم کے ردِعمل سامنے آئے، کہ سیکولرزم کے ماننے والوں اور تعلیم کی اہمیت سمجھنے والوں نے ان کے اس طرزعمل کو سراہا، اور انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا، تو دوسری طرف ہندوستانی تہذیب کے دشمنوں اور تعلیم سے کورے لوگوں نے ان کی مخالفت شروع کر دی، ان پر دیش دروہی ہونے کے الزامات لگانے لگے ، یہاں تک کہ ان کے شوہر رنبیر کپور سے طلاق تک دلوانے لگ گئے ۔

مگر سوال یہ ہے کہ آخر دیپکا کیسے جے این یو پہنچ گئیں۔۔؟ اور کیوں ۔۔؟
دراصل دیپکا کے اقدام کے پیچھے جو اصل چیز کار فرما ہے وہ ان کی دس جنوری کو رلیز ہونے والی “چھپاک” فلم ہے، جس میں انہوں نے میگھنا گلزار کی نگرانی میں ایک ایسڈ اٹیک وکٹم کا رول پلے کیا ہے، جے این یو کا گزشتہ اٹیک اور ان کی فلم کی کہانی بہت حد تک میل کھاتی ہے، جیسا کہ ان کی فلم کا ایک ڈائلاگ ہے “۔۔۔۔۔۔۔کہ اٹیک ان ہی لڑکیوں پر ہوا ہے جو یا تو پڑھنا چاہتی ہیں یا بڑھنا چاہتی ہیں۔۔۔۔ ”

بالکل اسی طرح سے جے این یو میں آئشی گوش اور ان کے ساتھیوں اٹیک پر کیا گیا ، کہ صنف نازک کی نزاکت کو بالائے طاق رکھ کر ان کے سر و بدن پر بے رحمی سے حملہ کیا گیا، ایسی ہی ایک مظلوم لڑکی کا کردار دیپکا نے اپنی فلم میں پیش کیا ہے، تو ایک اداکارہ جس نے سالوں سال محنت کرکے ایک خاص کردار ادا کیا ہو، اور وہ ابھی اس کردار سے نکل بھی نا پائی ہو، اور پھر اچانک وہی حقیقت سامنے آجائے تو خود کو روک پانا بہت مشکل ہو جاتا ہے، کیونکہ انہوں نے حملے کے دوسرے دن آئشی کی پریس کانفرس سے اس کی ہمت کا بخوبی اندازہ کر لیا تھا کہ ” ۔۔۔۔آئشی کا سر پھوٹا ہے ، من نہیں بدلا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ ” اور نا ہی ہمت ٹوٹی ہے۔

تو پھر ایسے ماحول ایک اداکارہ خود کو ایک حقیقی کر دار کی ملاقات سے نہیں روک پائی، جس کا ثبوت ان کی وائرل شدہ وہ تصویر ہے، جس میں وہ آئشی کے سامنے انتہائی انکساری کے ساتھ دونوں ہاتھ دونوں جوڑے کھڑی ہیں، دراصل وہ یہ کہنا چاہ رہی ہیں کہ حقیقت و سچائی کے سامنے اداکاری کی اہمیت نہیں ہے، حقیقی سنگھرش اور زمینی سچائی اصل سچائی ہے، اور ادکاری تو بس اداکاری ہے کہ۔

صداقت ہو تو دل سینوں سے کھنچنے لگتے ہیں واعظ

حقیقت خود کو منوا لیتی ہے مانی نہیں جاتی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!