عظیم انقلابی قائد
مرزا انور بیگ
دنیا میں جو بھی انقلابات رونما ہوتے رہے ہیں ان کے اثرات ایک مخصوص زمانے تک ہی محدود رہے ہیں مگر اسلام کا جو انقلاب حضرت محمد صلی علیہ وسلم کے ذریعے آیا اس کے اثرات مسلسل جاری و ساری ہیں۔
یہ عظیم انقلاب کسی ایک موضوع کو لے کر نہیں برپا ہوا تھا بلکہ اس کی ہمہ جہتی نے اسے جاوداں بناۓ رکھا۔
عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ۲۳ سال کی مختصر مدت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تکمیل کردی لیکن حقیقت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ۱۸ سال میں انقلاب کی تکمیل کردی۔ یعنی ابتدائی تین سال تک تو صرف انذر عشیرتکم پر عمل ہوتا رہا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قریبی رشتے داروں اور دوستوں کو اسلام کی دعوت دیتے رہے۔
انقلابی دعوت کا آغاز تین سال بعد ہوا جب یہ آیات نازل ہوئیں کہ
” اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے اٹھ اور ڈرا اور اپنے رب کی بڑائی بیان کر اور اپنے لباس کو پاک رکھ۔” اس کے بعد وہ مشہور واقعہ سیرت کی کتابوں میں درج ہے کہ صبح سویرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوہ صفا پر چڑھ گئے اور یا صباحا کی آواز لگائی۔ یہ تھی انقلابی تحریک کی پہلی پکار اور پھر سنہ ۸ ھجری میں فتح مکہ کے ساتھ اس کی تکمیل ہوگئی باقی کے دو سال اس کی توسیع جزیرہ نما عرب میں کی اور عجم تک دعوت کا کام بڑھایا اس طرح بین الاقوامی دعوت کا آغاز کیا گیا۔
لہذا انقلاب کا مرحلہ ۱۸ سال میں مکمل ہوگیا۔ اور پھر یہ مژدہ بھی آگیا کہ اللہ کی مدد آگئی اور فتح ہوگئی لوگ فوج در فوج اس میں داخل ہونے لگے۔ اس میں جہاں دعوت کی ہمہ گیریت کی وجہ سے تیزی سے پھیلتی گئی وہیں داعی کی شخصیت کو ایک مستقل مقام حاصل ہے جس کا ذکر قرآن میں کئی مقامات پر آیا ہے۔ آپ کے اخلاق و کردار سب سے بڑے گواہ تھے کہ یہ دعوت دعوت حق ہے جس کا اعتراف مخالفین داعی بھی کرتے تھے۔ اسی کے ساتھ ہمت و شجاعت اور استقلال کا بھی بہت بڑا اٹر داعی کے اصحاب پر پڑتا ہے۔
اگر قائد ہی بزدلی دکھاۓ تو اس کے ماننے والے میدان میں کب ٹک سکتے ہیں اور قائد عظیم کی شجاعت کے قصوں سے سبھی واقف ہیں کہ جب غار ثور میں دشمن غار کے دہانے تک پہنچ گئے اس وقت بھی زبان پر یہی الفاظ تھے ۔ لا تحزن ان اللہ معنا۔ گھبراؤ نہیں اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ جب مکہ میں تن تنہا تھے اس وقت بھی مخالفین سے صاف صاف کہہ دیا کہ تم میرے ایک ہاتھ میں چاند اور دوسرے ہاتھ میں سورج بھی رکھ دو تو میں اس دعوت کے کام سے پیچھے ہٹنے والا نہیں۔ یا یہ میری بوٹی بوٹی بنا دیں یا میں ان پر غلبہ حاصل کر لوں۔
جنگ بدر میں صرف تین سو تیرہ کے ساتھ میدان میں استقامت کے ساتھ ڈٹ گئے۔ جنگ احد میں جب دانت بھی شہید ہوگئے اور آپ گڑھے میں گر کر زخمی بھی ہو گئے لیکن استقلال میں لغزش نہیں آنے پائی اور جب دشمنوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر اڑا دی اس وقت اپنے نام کا اعلان کروایا کہ میں زندہ ہوں اور ہاں میں نبی برحق ہوں ابن ابی مطلب ہوں۔ یہ تھی وہ شجاعت کہ دشمنوں کے نرغے میں ہونے کے باوجود اپنے زندہ ہونے کا اعلان اور اپنی شناخت دونوں کو ظاہر کیا۔ مدینہ منورہ میں ایک زور دار آواز نے لوگوں کو چونکا دیا۔ لوگ باہر نکلے تو دیکھا آواز کی سمت سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لارہے ہیں۔ لوگوں کو آگاہ کیا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔
شجاعت کے علاوہ داعی انقلاب کی بے لوثی بھی انقلاب کی کامیابی میں کافی اہمیت رکھتی ہے اور اس کو بھی اللہ نے بطور دلیل پیش کیا کہ یہ دعوت حق ہے۔ کہ اس دعوت کے بدلے نبی تم سے کسی مال و زر کا طالب نہیں ہے۔ یہ چند خصوصیات داعی انقلاب کی بہت نمایاں تھیں جنھوں نے ۱۸ سال کے مختصر عرصے میں اور بہت کم خون خرابا کے ساتھ ایک پرامن انقلاب برپا کرکے ساری دنیا کو انگشت بدنداں کردیا۔