ذرا نم ہوتو یہ مٹی بہت زر خیز ہے ساقی
مفتی افسر علی نعیمی ندوی
حق و باطل کی کشمکش ابتداء اسلام ہی سے جاری و ساری ہے۔ جب مشرکین مکہ کو جنگ بدر میں شکست فاش ہوئی اور سرداران مکہ جہنم کے ایندھن بنادئے گئے تو عکرمہ بن ابو جہل، ابو سفیان بن حرب، صفوان بن امیہ اور دیگر معززین شہر نے ابو سفیان اور تمام سودگران کے مال تجارت کو محمد ﷺ سے بدلہ لینے کے لیے خرچ کرنے پر آمادہ کر لیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ”بیشک کفار اپنا مال ا س واسطے خرچ کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو اسلام سے روکیں، تو وہ اس کو خرچ کر دیں گے، پھر اس پر حسرت کریں گے، پھر مغلوب ہو جائیں گے اور کفار جہنم کی طرف اکٹھے کیے جائیں گے۔“ (الانفال: 36)
قریش نے مکہ او ر دیگر قبائل کو ساتھ لے کر تین ہزار کی فوج اکٹھا کی، جس میں دو سو سوار تھے، حضور ﷺ ایک ہزار صحابہ ؓ کو لے کر مدینہ سے روانہ ہوئے؛ لیکن راستہ ہی سے ابی بن سلول نے ایک تہائی فوج کو لے کر مدینہ واپس ہو گیا۔ آپ ﷺ نے پچاس تیر انداز صحابہ کو یہ حکم دیا کہ تم سواروں کو تیروں کی ضرب سے ہمارے قریب نہ آنے دینا، جب گھمسان کی لڑائی شروع ہوئی تو صحابہ ؓنے بہت سے کفار و مشرکین کو جہنم رسید کر دیا، کچھ صحابہ بھی جام شہادت نوش فرمالیے، اللہ نے تعالیٰ نے اپنی نصرت نازل فرمائی مسلمانوں نے کفار کے لشکر کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور اس کو شکست فاش دی۔
اس شکست کو دیکھ کر وہ تیر انداز صحابہ ؓ جن کو رسول اللہ ﷺ نے درہ میں بٹھایا تھا، وہاں سے اٹھ کر لشکر کے پاس آگئے اور مال غنیمت جمع کرنے لگے، مشرکین نے اسی درہ سے پلٹ کر حملہ کر دیا، اس حملہ سے مسلمانوں کے لشکر درہم برہم ہو گئے۔ عتبہ بن ابی وقاص نے ایک ایسا پتھر حضور ﷺ کے چہرہ ئ مبارک پر مارا، جس سے آپؐ کے اگلے چار دانت شہید ہوگئے۔ ہونٹ زخمی ہوا، سر مبارک پر چوٹ آئی اور چہرہ خون آلود ہو گیا۔ اس وقت آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ لوگ کیسے فلاح پا سکتے ہیں جو اپنے نبی کے چہرہ کو خون آلود کریں، حالانکہ ان کا نبی ان کو ان کے رب کی طرف بلاتا ہے۔
نبی کا حکم ٹوٹا ہے تو جیتی جنگ ہاری ہے
”وہ تمہارے کرتوتوں کا نتیجہ ہے، بیشک اللہ تعالیٰ بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔“(الانفال: 51) اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات میں سے کسی مخلوق کو بغیر جرم کے سزا نہیں دیتا ہے۔ ارشاد خدا وندی ہے کہ ”لوگوں کی بد اعمالیوں کی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا تاکہ اللہ تعالیٰ لوگو ں کو ان کی بد اعمالیوں کا کچھ مزہ چکھائے، تاکہ وہ باز آ جائیں۔“ (الروم:61)معصیت الہٰی ایسی منحوس چیز ہے کہ اس کی وجہ سے دنیا میں بھی آفتیں اور مصیبتیں آتی ہیں جیسے قحط، سیلاب، طوفان، آندھیاں، جنگ وجدل، مار دھاڑ، اموات کی کثرت اور وبائی امراض وغیرہ ان آفتوں اور مصیبتوں کا نازل کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنی بد اعمالی پر متنبہ ہو کر اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو۔ فرمانِ ربانی ہے کہ ”اور اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جس کو اس کے رب کی آیتوں سے نصیحت کی جائے پھر وہ اس سے رو گردانی کرے اور جو کچھ وہ اپنے ہاتھوں آگے بھیج چکا ہے اس کو بھول جائے۔“ (الکہف: 57) ”اس شخص سے زیادہ ظالم کو ن ہوگا جس کو اس کے رب کی آیتیں یاد دلائی جائیں، پھر وہ اان سے اعراض کرے (تو اس کے استحقاق عذاب کیا شبہ ہے اس لیے) ہم ایسے مجرموں سے بدلہ لیں گے۔“ (السجدہ: 22)
آج ہندی مسلمانوں کی حالت تیزی کے ساتھ قعر مذلت کی طرف گامزن ہے، ظلم بڑھ رہا ہے، ظالموں کو حکمراں پارٹی کا ایم ایل اے تہنیت پیش کر رہا ہے، کچھ ریاستی عدالتوں کے فیصلے ظالموں کے حق میں جا رہے ہیں،پوری دنیا جانتی ہے کہ ہجومی تشدد نے تبریز انصاری کو اپنا شکار بنا لیا، پہلو خان بھی ماب لنچنگ کے شکار ہوئے، مجرمین نے اقبال جرم کیا تھا، اس کے ویڈیوز موجود ہے، عدالت میں پیش بھی کیے گئے تھے، افسوس صد افسوس کہ عدالت نے مجرموں کو باعزت بری کر دیا، تبریز انصاری کی موت کے بارے میں اب حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ اس کا انتقال دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے ہوا تھا، ہندوتوا کو فروغ دینے والی جماعتوں اور تنظیموں کے غنڈوں نے نہیں مارا۔
اب یہ ماب لنچنگ کو ئی ایسا واقعہ نہیں رہا جو اچانک پیش آگیا، بلکہ اب مائیکرو پلاننگ کے تحت یہ سیاسی طور پر قتل و غارت کے بازار گرم کر کے اقلیتوں میں خوف و دہشت کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، خاص طور پر مسلم سماج اس کے نشانے پر ہیں، نیشنل میڈیا کی اکثریت نے تو پہلے ہی حکمراں پارٹی کی غلامی کے لیے سر تسلیم خم کیا تھا، اب صبح وشام اس کے تلوے چاٹنے کو ہی اپنا فرض منصبی سمجھ رہی ہے، لوگوں کو حقیقی مسائل سے دور کر کے آپسی پیار و محبت میں زہر گھول رہی ہے، نفرت کو فروغ دے رہی ہے۔غدار ِوطن انگریزوں کے چمچوں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ وہ محب وطن جنہوں نے اپنی جان و مال کو وطن کی حفاظت کے لیے قربان کر دیا ان کو غدار وطن ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔ تاریخ کو مسخ کر کے پیش کیا جا رہا ہے۔
واقف ہے خوب جھوٹ کے فن سے یہ آدمی
گودی میڈیا کے بعد اب تو بعض ریاستی عدالتوں سے بھی کچھ ایسے فیصلے صادر ہو رہے ہیں،جس سے یہ صاف تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ”جس کی لاٹھی اس اس کی بھینس“کیوں کہ مظلوم کے ہزاروں لاکھوں روپئے عدالتوں کے چکر میں خرچ ہونے کے بعد بھی فیصلہ ظالموں کے حق میں ہی جارہا ہے، بی جے پی کے لیڈران عدالت کے فیصلے سے پہلے جو فیصلہ سنادیتے ہیں اسی کے مطابق فیصلے بھی آرہے ہیں، ڈاکٹر راحت اندوری نے اسی کی ترجمانی کرتے ہوئے کیا خوب کہا ہے کہ
انصاف ظالموں کی حمایت میں جائے گا
یہ حال ہے تو کون عدالت میں جائے گا
جو جرم کرتے ہیں اتنے برے نہیں ہوتے
سزانہ دے کر عدالت بگاڑ دیتی ہے
اب تو صرف سپرم کورٹ سے ہی امیدیں وابستہ ہیں کہ یہاں سے ضرور انصاف ملے گا، بابری مسجد کا قضیہ سپرم کورٹ میں زیر بحث ہے، ہندو پکچھ کاروں کے وکیلوں نے اپنے دلائل پیش کیے، اب مسلم پکچھ کاروں کے وکیلوں نے بحث شروع کی ہے، انہوں نے اپنے دلائل پیش کرنے شروع کیے تو ان کے دلیلوں کی دھجیاں اڑادی تو نام نہاد ہندو اور بی جے پی کے لیڈران بوکھلا کر الٹے سیدھے بیان دینے لگے، سپرم کورٹ کی توہین میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی، یہاں تک کہ مسلمانوں کی طرف سے وکالت کرنے والے وکیل کو وکالت سے دستبردار ہونے کے لیے دھمکیاں دی جانے لگی ہیں، بی جے کے سینئر لیڈر سبر امنیم سوامی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اب فیصلہ عقیدے کی بنیاد پر ہی ہوگا، فیصلہ رام مندر کے حق میں ہی ہوگا۔
گویا اب عدالت میں جج خود کوئی فیصلہ نہیں کرے گا بلکہ بی جے پی کے لیڈران جو فیصلہ کریں گے وہی فیصلہ جج کو بھی سنانا ہوگا،ایسا ہی فیصلہ ہائی کورٹ کا آیا بھی تھا، اب دیکھنا یہ ہے کہ سپرم کورٹ عقیدے کی بنیاد پر فیصلہ کرتی ہے یا دلائل کی روشنی میں؟ہندوؤں کی جانب سے مالکانہ حق ثابت کرنے کے لیے اب تک ایک دلیل بھی پیش نہیں کی گئی ہے۔
آج خدا کی مدد کیوں نہیں آرہی ہے؟ ظالموں کو اللہ تعالیٰ نیست و نابود کیوں نہیں کر رہا ہے؟ ظالم آسمانی آفتوں کا شکار کیوں نہیں ہو رہا ہے؟ کیا اللہ کی پکڑ سے باہر ہے یا اس کی نظروں سے اوجھل ہو چکا ہے؟ جس خدا نے اپنے گھر کی حفاظت ابابیل کے ذریعہ کی اور لشکر جرار کو شکست فاش دے کر رہتی دنیا تک کے لیے عبر ت بنا دیا، آج بھی اس کے گھروں کو مسمار کیا جا رہا ہے، کتنے مسمار کیے جا چکے، اس کے کے متولیان اور خادمان کو جام شہادت پلا دیا گیا، کئی دہائیوں سے انہیں ظلم کی چکی میں پیسا جا رہا ہے، ارض ِ ہند اپنی و سعت کے باوجود تنگ ہوتی جارہی ہے۔آخر یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟
مسلمانوں جاگو! خواب غفلت سے بیدار ہو جاؤ، احکام ِ خدا وندی کو مضبوطی سے تھام لو، اب بھی خدا سے اپنے رشتہ کو استوار نہیں کیا تو یہ ظلم کی چکی مزید تیز ہو جائے گی، ذرا غور تو کیجیے کہ جن صحابہ نے خدا اور رسول کو خوش کرنے کے لیے اپنی جان و مال کو قربان کر دیا، ان کی ایک اجتہادی غلط پر اللہ نے ایسی سزادی کے جیتی ہوئی جنگ بھی ہار گئے۔ آج ہمیں اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ ہم واقعی مومن اور مسلم ہیں یا صرف نام باقی رہ گیا ہے؟
ہماری زندگی میں نہ فرائض کی پابندی ہے نہ سنتوں کا اہتمام ہے، ہماری زندگی اسوہ ئ رسول اکرم ﷺسے کوسوں دور ہے، ہم طرز بنوی کے مطابق زندگی گزارنے میں شرم محسوس کرتے ہیں۔ دشمنان اسلام کے طرز زندگی پر ہماری زندگی گزر رہی ہے، اسی طرز زندگی کو ہم باعث افتخار سمجھتے ہیں۔ جب تک امت مسلمہ بحیثیت امت اپنے اندر تبدیلی نہیں لائے گی تو یہ حالات بد سے بد تر ہوتے جائیں گے، نام نہاد امت مسلمہ باعث رسوائی پیغمبر ہے، معدود ے چند کے علاوہ پوری امت صرف جمعہ اور عیدین ہی کی پابندی کرتی ہے۔
کس قدر تم پہ گراں صبح کی بیداری ہے
ہم سے کب پیار ہے، ہاں نیند تمہیں پیاری ہے
ہم نے اپنے فرائض کی انجام دہی میں ایسی لا پراہی کی ہے کہ دعا کے قبولیت کے مقامات و اوقات میں جتنی دعائیں امت کے لیے کی جارہی ہیں اس میں سے ہمیں کوئی حصہ نصیب نہیں ہو رہا ہے، ہم نے فرمان خدا وندی کا عملی طور پر استخفاف کیا ہے، اس لیے ہم اس کے مستحق ہیں کہ ہم سے نظر کرم پھیر لی جائے، کسی ظالم بادشاہ کو ہم پر مسلط کر دیا جائے یا کسی آفت سماوی و ارضی میں گرفتار کر دیئے جائیں۔ یہ تما م آفتیں اور مصیبتیں ہمارے ہی اعمال کی نحوست کا ثمرہ ہے، جس کو ہم بھگت رہے ہیں۔
اس کے الطاف تو ہیں عام شہیدی سب پہ
تجھ سے کیا ضد تھی اگر تو کسی قابل ہوتا
کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
تھے تو آباء وہ تمہارے ہی، مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر ِ فردا ہو
ایسے حالات میں ہمیں چاہیے کہ ہم بحیثیت قوم اللہ تعالیٰ سے اپنی غلطیوں، کوتاہیوں کی معافی مانگیں اور سچے پکے مومن بن کر بقیہ زندگی گزارنے پختہ عہد کریں، عملی طور پر اس کا ثبوت پیش کریں، ان شاء اللہ تعالیٰ، خدا کی مدد اور نصرت ضرور نازل ہوگی، خوف و دہشت کے بادل چھٹیں گے، ظالم خود بخود کیفر کردار تک پہنچ جائے گا۔
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہوتو یہ مٹی بہت زر خیز ہے ساقی