مذہبیمضامین

ولی

مرزا انور بیگ

اکثر مترجمین قرآن نے جن الفاظ کے ساتھ انصاف نہیں کیا ان میں ایک لفظ ولی بھی ہے۔ میرا حسن ظن یہ کہتا ہے کہ مترجمین نے جن الفاظ کو جوں کا توں رہنے دیا ہے وہ اکثر اصطلاحات ہیں جن کا ترجمہ لفظی ترجمہ قرآن میں احاطہ کرنا مشکل ہے۔ مگر اسی کو لے کر نیم علماء قسم کے افراد نے بڑی لن ترانیاں کی ہیں اور باقاعدہ اس پر عقیدہ کی عمارت تعمیر کردی ہے۔

ولی کو لے کر بڑی بڑی کتابیں لکھی گئیں اور اکثر تقاریر کی جھڑیاں لگائی گئیں۔ اس پر پوری اوہام پرستی کے مکڑ جال بنے ہوئے ہیں۔ اسی سے مشتق کئی اور الفاظ ہیں جیسے پیر اور بزرگ۔
دراصل یہ پورا سلسلہ تصوف کے اندھیرے غاروں سے نکلتا ہے اور عقیدہ و ایمان کو نگلتا چلا جاتا ہے۔ پھر تصوف کی مختلف اصطلاحات میں سلوک اور شریعت کی جگہ طریقت پھر ان سے وابستہ افراد کے القابات ضبدالتسالکین ، عارفین، ابدال و قطب، ملنگ ، قلندر، مجذوب، مجنون، کشاف اور نہ جانے کیا کیا اور کون کون سے عہدے بازار تصوف میں دستیاب ہوتے ہیں جن سے بھولی بھالی عوام مرعوب ہو جاتی ہے اور انھیں پیر ، بزرگ یا ولی کے طور پر دیکھتی ہے اور ان کی عقیدت میں اپنا سر جھکاتی ہے۔ حسن اتفاق یہ کہ اس میں کوئی فرقہ دوسرے سے پیچھے نہیں ہے کیا دیوبندی کیا بریلوی اور کیا ندوی اور کیا شیعہ سب اس بہتی گنگا کی چلتی ناؤ کے ملاح ہیں۔

ولیوں کے تعلق سے ایک عجیب قسم کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے جب ہم واعظین سے ان کی حکایات سنتے ہیں۔ روشن دمکتا چہرہ، بڑی سی گھنی سفید داڑھی، آنکھوں میں سرمہ، سر پر عمامہ ، کرتا پاجاما، کندھے پر رومال، ہاتھ میں تسبیح گننے کا ہار، ایک ہاتھ میں لاٹھی، قریب میں چند پرانے دبے پچکے برتن۔
ان تصورات کو بعض عقیدت مندوں نے تصویر کے ساتھ بھی پیش کیا ہے اور کبھی کبھی ان کے ساتھ پیرانی اماں کی تصویر بھی لگی ہوئی دیکھی ہے فریم میں جسے صبح شام اگربتی کی دھونی دی جاتی ہے۔ ایک بات ان تصورات اور تصاویر میں قابل غور ہے کہ جو صورتیں ان میں ظاہر کی جاتی ہیں ساری کی ساری وسط ایشیا سے لے کر شمالی دنیا اور شمالی ہند کے لوگوں سے مشابہت رکھتی ہیں۔ کوئی ولی نہ جنوبی ہند کے کسی دراوڑ کی شکل سے مشابہ ہوتا ہے نہ کسی افریقی نژاد سے ان کا تعلق ہوتا ہے گویا ولایت بغداد سے نکل کر ایران ہوتی ہوئی شمالی ہند تک دراز ہوئی بس۔ نہ کوئی افریقی کالا بھجنگ ولی ہو سکتا ہے نہ کوئی پیر ولی بزرگ ہندوستان کے جنوب میں پیدا ہو سکتا ہے نہ ہوا ہے۔ آپ اندازہ لگائیں کہ یہ سارا فتنہ کن علاقوں میں پرورش پاکر دنیا میں پھیلا ہے اور ان کے پھیلانے میں کن فرقوں کا ہاتھ رہا ہوگا۔ اس سے متاثر سبھی اہل ایمان ہوۓ ہیں۔
ایک واعظ کو میں نے کہتے سنا ، چوراہے پر بنے اسٹیج سے علم کے خزانے لٹا رہے تھے۔ فرمایا، مسلمانوں بتاؤ لفظ ولی قرآن میں آیا ہے یا نہیں۔
مجمع نے آواز لگائی۔ آیا ہے۔
فرمایا کہ جو ولی کو نہ مانے وہ قرآن کا منکر ہوا یا نہیں؟
آواز آئی منکر ہے۔
فرمایا جو قرآن کا منکر ہے وہ کافر ہوا یا نہیں۔
مجمع سبحان اللہ سبحان اللہ کے شور سے گونج اٹھا۔
اور یہ بات بات کوئی صدی نصف صدی پرانی نہیں ہے بلکہ ابھی چند ایک سال گزرے ہیں۔
ہمارا بڑا طبقہ دراصل ان باتوں سے ناواقف ہے اس لیے اس طرح کے بہکاوے کا شکار ہے۔ ان کو جوش دلانے کے لیے قرآن کی یہ آیت زور شور سے تلاوت کی جاتی ہے اور اس میں گویا یہ واعظین اپنے نظریے کے مخالفین کو تنبیہ بھی کرتے ہیں۔
” آگاہ رہو۔ بے شک جو اللہ کے ولی ہیں ان کے لئے نہ خوف ہے نہ ملال و غم ہے۔”
حالانکہ قرآن میں یہ لفظ دوست ، سرپرست اور مددگار کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اس لفظ کے ساتھ اللہ بھی آیا ہے اور شیطان بھی آیا ہے۔ ولی اللہ۔ ولی الشیطان۔
ہم اس وقت صرف اللہ کے ولی کی بات کرتے ہیں۔
عام رویہ سے ہٹ کر یعنی کشف و کرامات کے ڈراموں سے الگ کیوں کہ جس طرح کشف و کرامات کے قصے اور ولیوں کے حلیے بیان ہوتے ہیں وہ تو ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک چکا ہوں۔ نہ لمبی داڈھیوں نے کرامتیں دکھائیں نہ لمبے کرتوں اور سرمہ لگے چہروں نے۔ لہذا ولیوں کی تلاش میں ناکامی ہی ہاتھ آئی۔

جب قرآن کا تھوڑا مطالعہ کیا تو اندازہ ہوا کہ نہ یہ کوئی مخصوص مخلوق ہوتے ہیں جنہیں جنگل یا خانقاہوں میں تلاش کیا جائے یا کسی درگاہ کے مجاوروں میں بلکہ اللہ کا ولی ہونا بہت آسان ہے اور ہر وقت ہمارے اپنوں کے درمیان اللہ کے ولی موجود رہتے ہیں بس بات صرف اتنی ہے کہ ہمیں اصلیت کا شعور نہیں ہے۔ اور چونکہ یہ کوئی مخصوص عہدہ بھی نہیں ہے اس لیے اس کی تلاش میں سرگرداں رہنا وقت کا ضیاع ہے۔ قرآن نے ایک جملے میں وضاحت کردی کہ اللہ کا ولی کون ہے اور پھر یہ بھی اس سے معلوم ہو گیا کہ کوئی بھی اللہ کا ولی بن سکتا ہے۔ فرمایا۔
” اللہ ان کا ولی ہے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کئے”
اللہ ان کا ولی ہے یعنی اللہ جن لوگوں کا ولی یعنی دوست ہے تو لازماً وہ بھی اللہ کا دوست یعنی ولی ہوا۔ سیدھی سی بات ہے۔ جس نے بھی ایمان لانے کے بعد نیکی پر گامزن ہے وہ اللہ کا ولی ہے اور ایسے ہزاروں مومن ہمارے اطراف میں پاۓ جاتے ہیں۔ باقی جتنی بھی اس تعلق سے باتیں ہیں سب فضولیات ہیں۔ مائتھ ہیں، مکڑجال ہیں ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے صرف قصے کہانیوں تک محدود ہیں۔
انہی لوگوں کے بارے میں قرآن کہتا ہے۔
” بے شک جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے ان کے لئے نہ خوف ہے نہ غم ہے۔”
اب یہ بات بھی ضروری نہیں کہ آپ انھیں ان کی زندگی میں ہی پہچان لیں کہ وہ اللہ کے ولی تھے۔ اصل اور اہم بات یہ ہے کہ جس کا خاتمہ ایمان اور نیکی پر ہوا وہی دراصل ولایت کے منصب پر تھا۔ میں نے اپنی زندگی میں اب تک چار افراد کو دیکھا ہے جن کے بارے میں مجھے شرح صدر حاصل ہے کہ وہ اللہ کے ولی تھے۔
۱۔ بچپن کا واقعہ ہے۔ میری عمر بارہ سال رہی ہوگی۔ ایک شخص ادھیڑ عمر کے تھے اور انھیں پابندی سے باجماعت نماز پڑھتے دیکھا تھا۔ چھوٹی داڑھی تھی جس میں چند سفید بال تھے ہمیشہ پینٹ شرٹ میں ہی میں نے دیکھا تھا۔ نماز کے وقت ٹوپی لگاتے تھے۔ ایک روز جمعہ کے دن عصر کی جماعت ختم ہوئی۔ دعا کے بعد سبھی باہر نکلے ۔ وہ بھی دروازے کی طرف بڑھے ایک پیر جوتے میں ڈالا اور اسی جگہ گر گئے اور موت واقع ہو گئی۔
۲۔ مولانا علی میاں ندوی، الوداع جمعہ، نماز سے قبل، تلاوت قرآن کرتے کرتے رفیق اعلیٰ سے جا ملے۔
۳۔ ایک اسکول کے پرنسپل تھے اور جماعت اسلامی کے رکن بھی تھے۔ کرلا بمبئ میں علاقے کی مسجد میں رمضان میں بلاناغہ قرآن کا درس دیتے تھے۔ درس قرآن دیتے دیتے حسب عادت کچھ دیر کے لئے خاموش ہو گئے۔ لوگ انتظار میں تھے کہ آگے بڑھیں مگر وہ تو بہت آگے جاچکے تھے۔
۴۔ بریلوی عالم حضرت مثنی میاں سفر حج میں مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ جاتے وقت سڑک حادثے کا شکار ہو کر شہید ہوگئے۔
میں پورے وثوق سے کہہ رہا ہوں کہ یہ لوگ اللہ کے ولی تھے۔ کیونکہ ان میں سے سبھی کی اموات اچھی تھیں۔
ایسے نہ جانے کتنے افراد ہمارے اطراف موجود ہیں نہ ان میں کوئی کرامت ہے نہ کشف و الہام کی باتیں ان سے منسوب ہیں۔ بات یہ ہے کہ جب ہم من گھڑت صفات کی تلاش میں ہوں گے تو ولی بھی ہمارے لیے مافوق الفطرت مخلوق ہوگی جس کی بس نہ ختم ہونے والی تلاش اور ایک تجسس موجود ہوگا کہ کاش ہماری بھی کسی ولی سے ملاقات ہوجاتی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!