زبان وقلم کی تیزی
ابوفہد ندوی
اس بات سے بہت کم لوگ آشنا ہیں کہ زبان و قلم کی تیزی ترسیل میں رکاوٹ بنتی ہے۔ قلم کی تیزی کو حالات کے سنگین ہوجانے اور دردِ دل کے سوا ہوجانے کی صورت میں جائز رکھنے والے کاش اسوۂ رسول ﷺ ہی کو سامنے رکھ لیں اور قرآن کے اسلوب پر ہی غور کرلیں۔ قرآن وسیرت میں نصیحت، مصلحت اور حکمت، قلم وزبان کی تیزی وچالاکی پر حاوی ہے۔ اور یہی چیز قرآن وسیرت کی اثر آفرینی کو بڑھاتی ہے۔
جبکہ قرآن ایسے وقت اور حالات میں نازل ہوا اور سیرت کا ذخیرہ ایسے زمانے اور مقام پرسامنے آیاجہاں قبائلی عصبیتیں انسانی مزاج پر غالب تھیں اور بدویت کا سررشتہ شہری اور تمدنی نزاکتوں اور تحمل وبردباری سے کم ہی ملتا تھا۔
قلم و زبان کی تیزی وچترائی سے موضوع ڈائیورٹ ہوجاتا ہے۔ مصنف جو کچھ کہنا چاہتا ہے اور جو میسج دینا چاہتا ہے لوگوں تک وہ میسج من وعن نہیں پہنچتا۔کئی قلم کار مضمون یا کتاب کے متنازع بن جانے بلکہ جانتے بوجھتے بنائے جانے کو مارکیٹنگ کے حساب سے بہتر سمجھتے ہیں، مگر اس سے یہ نقصان بہر حال ہوتا ہے کہ ابلاغ کی سطح پرمضمون یا کتاب ناکام ٹہر جاتی ہے۔
ہر قلم کار اور مقرر کے لیے بہتر نمونہ یہی ہے کہ وہ جب بھی بات کرے ، خطاب کرےیا لکھنے لکھانے کا ارادہ کرے تو قرآن و سیرت کے اسلوب کو سامنے رکھے ۔ اور لوگوں کو علم وحکمت اور دانش وری کی سطح پر ایڈریس کرے۔ متنازع اور مختلف فیہ مسائل اورخیالات سے پرہیز کرے ،جوش و جذبے اور رد عمل کی نفسیات کی رو میں بہہ کر کچھ بھی کہنے اور لکھنے سے گریز کرے ۔ اور کچھ بھی کہنے او رلکھنے سے پہلے یہ ضرور دیکھ لے کہ قرآن حاملین قرآن کو کس طرح ایڈریس کرتا ہے اور کس طرح ان کے دل کی تمام سلوٹوں تک پہنچتا ہے۔
زیادہ تر لوگ مزاج کی سختی اور لب ولہجے کی تندی سے کام چلانے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ سیدھی انگلی سے گھی نہیں نکلتا، مگر قرآن میں جو ہدایت دی گئی ہے وہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ قرآن میں ہے : فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّـهِ لِنتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ۔قرآن نے رسول اللہﷺ کے حوالے سے تمام بنی نوع انسانی کو آسان سا قاعدہ بتادیا کہ نرمی اختیار کرو ، ہر معاملے میں نرمی اختیار کرو، اِلاّ یہ کہ حدود اللہ پامال کی جارہی ہوں۔مذکورہ آیت میں اللہ نے نرم مزاجی کو رحمت سے تعبیر فرمایا ہے اور اس رحمت کی نسبت اپنی ذات عالی کی طرف کی ہے۔یہ کتنی بڑی بات ہے۔
مزید برآں قرآن کو جب خوش الحانی کے ساتھ پڑھا جاتا ہے تو ایسا احساس ہوتا ہے کہ گلاب کے پھولوں پر شبنم گررہی ہے۔ قرآن کی تلاوت کبھی بھی سامع کی سماعتوں پر اس طرح نہیں گرتی جس طرح ٹین کی چھت پر بارش کی موٹی موٹی بوندیں گرتی ہیں یا اولے گرتے ہیں۔ قرآن کے اسلوب کی یہی حلاوت وشیرینی ہے جو اسے دو آتشہ بناتی ہے، جو دردمند دلوں پر اس طرح گرتی ہے کہ اندر تک اترتی چلی جاتی ہے اوران کے تمام مسام جاں کو زندہ ومتحرک کردیتی ہے۔
یہی شان اگر ہمارے اسلوب ِ زندگی میں ہوگی، اسلوب تحریراور اسلوب خطابت میں ہوگی تو یقینی طور پر ہماری بات اور تحریر دلوں پر اثر کرے گی۔ اور ایک داعی الی اللہ کو قرآن سے یہ اسلوب سیکھنا ہوگا، جس میں محبت ہے، حلاوت ہے، حکمت ہے اور دانش ہے۔ جو انذار اور تبشیر ، خوف اور امید کا بہترین امتزاج ہے۔