محمود مدنی کا بیان عزیمت یا رخصت!
مولانا محمود مدنی صاحب کشمیر پر بیان دینے سے پہلے واقعہ”شعب ابی طالب”سے رہنمائی حاصل کرلیتے۔
محمد خالد داروگر، دولت نگر، سانتاکروز، ممبئی
کشمیر میں 5/اگست کو آرٹیکل 370/کی منسوخی سے قبل عائد کی گئی غیر معمولی پابندیوں کو جمعہ کے روز 40/دن مکمل ہوکر گزر گئے ہیں۔ مگر وادی میں حالات زندگی معمول پر نہیں آئے ہیں۔ جمعہ کو لگاتار تیسرے ہفتے سری نگر کی جامع مسجد میں نماز ادا نہیں ہوئی اور مسجد کے صدر دروازے پر تالا لٹکتا رہا۔ کشمیر کے سیاسی لیڈران ابھی تک انتظامیہ کی قید میں ہیں اور موبائل فون نیز انٹرنیٹ سروس پر پابندیاں برقرار ہیں۔ ابھی بھی پوری دنیا سے ان کا رابطہ منقطع رکھا گیا ہے اور وہاں پر صحیح صورت حال کا واقعی علم کسی کو نہیں ہے۔
جمیعتہ علماء ہند کے رہنما مولانا محمود مدنی صاحب نے کشمیر کا دورہ کیے بغیر مجلس عاملہ کے اجلاس میں بیان داغ دیا کہ”کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے اور وہاں کے عوام کو نصیحت کی وہ ہندوستان کے ساتھ رہیں۔” مولانا محمود مدنی صاحب سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعہ”شعب ابی طالب”سے ہی رہنمائی حاصل کرلیتے تو بہتر ہوتا۔
قریش کے تمام قبیلوں کے سرداروں نے خاندان بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب سے معاشرتی اور معاشی تعلقات توڑ لیے اور ایک قرارداد باقاعدہ لکھی گئی۔ اس پر سب نے دستخط کیے، پھر اس تحریر کو کعبہ کے اندر لٹکا دیا گیا۔ یہ معاہدہ بغیض بن عامر بن عامر نے لکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی اس ظالمانہ کاروائی کی اسے یہ سزا ملی کہ اس کی انگلیاں فالج زدہ ہوگئیں، ہاتھ ہمیشہ کے لیے بیکار ہوکر رہ گیا۔
قریش کے اس خوفناک حد تک ظالمانہ بائیکاٹ کی وجہ سے ابو طالب نے اپنے خاندان سمیت شعب ابی طالب میں پناہ لی۔ یہ مکہ معظمہ کے ایک محلے کا نام ہے۔ اس میں بنو ہاشم رہا کرتے تھے۔ شعب عربی میں گھاٹی کو کہتے ہیں۔ یہ کوہ ابو قبیس کی گھاٹیوں میں سے ایک گھاٹی تھی۔ اب چونکہ ابو طالب بنو ہاشم کے سردار تھے۔ اس لیے اس گھاٹی کو شعب ابی طالب کہا جاتا ہے۔
بنو ہاشم اور بنو مطلب نے ابو طالب کا بھرپور ساتھ دیا۔ سب کے سب اس گھاٹی میں چلے آئے۔ فرق صرف یہ تھا کہ مسلمان نے دین کی وجہ سے گھاٹی کو آباد کیا اور ان کے عزیز جو ان کے ساتھ آئے تھے۔ انہوں نے خاندانی اور نسبتی تعلق کی بنا پر ان کا ساتھ دیا البتہ بنو ہاشم میں صرف ابو لہب نے ان کا ساتھ نہیں دیا اور وہ قریش کے ساتھ شہر ہی میں رہا۔ اس گھاٹی میں بنو ہاشم اور بنو مطلب نے تین سال گزارے اور یہ تین سال سخت تنگی کے سال تھے۔ تنگ دستی اس قدر تھی کہ گھاٹی سے بچوں کے بلبلانے کی آوازیں بلند ہوتی رہتی تھیں۔ آہستہ چلنے والوں کو ان کی آوازیں سنائی دیتی تھیں مگر وہ لوگ اس قدر سنگ دل تھے کہ ان کے دل ذرا بھی نہ پسیجے بلکہ الٹا وہ ان چیخوں کو سن کر خوش ہوتے تھے۔
مسلمانوں نے یہ تین سال درختوں کے پتے اور چمڑا کھا کر گزارے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ”میں بھوکا تھا اتفاق سے رات کے وقت میرا پاؤں کسی چیز پر پڑا میں فوراً اسے زبان پر رکھ کر نگل گیا۔ مجھے یہ اب تک معلوم نہیں کہ وہ کیا چیز تھی۔ اسی طرح ایک رات مجھے اونٹ کی کھال کا سوکھا ہوا ٹکڑا راستے میں مل گیا میں نے اس کو پانی سے دھو کر جلایا پھر اس کا سفوف بنایا اور پانی کے ساتھ کچھ سفوف پھانک لیا۔ اس سفوف سے میں نے تین راتیں گزاریں۔
قریش کا یہ معاشرتی بائیکاٹ اس قدر خوفناک تھا کہ کھانے پینے کی چیزیں بھی گھاٹی میں لے جانے نہیں دیتے تھے۔ حد تو یہ تھی کہ کوئی تجارتی قافلہ مکے میں آتا تو ابو لہب یہ کہتا پھرتا کہ”کوئی تاجر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ان کے ساتھیوں کو کوئی چیز عام نرخوں پر فروخت نہ کرے بلکہ ان کے لیے قیمت اس قدر بڑھائے کہ وہ چیز یہ لوگ خرید ہی نہ سکیں۔”
قریش میں کچھ لوگ بہرحال ایسے تھے جن کے دل ان حالات کی وجہ سے کڑھتے تھے کیونکہ وہ آخر ان کے نزدیکی رشتے دار تھے اور ایسے رشتہ دار خفیہ طور پر ان کے لیے کچھ کھانے پینے کی چیزیں بھیج دیتے تھے۔ ایک دن حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ اپنی پھوپھی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے لیے کھانے کا کچھ سامان لے کر نکلے راستے میں ابو جہل نے ان کا راستہ روک لیا اور اس نے کہا کہ”اگر تم نے شعب ابی طالب میں غلہ پہنچایا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔”ایسے میں ابو البختری سامنے آگئے۔ تفصیل سن کر اس نے کہا کہ”اگر ایک شخص اپنی پھوپھی کے لیے کچھ غلہ لے جاتا ہے تو تم کیوں روکتے ہو؟”ابوالبختری کی بات پر ابو جہل کو غصہ آگیا اور وہ لگا اسے برا بھلا کہنے۔ اس طرح کچھ نیک لوگوں میں اس ظالمانہ معاہدے کو ختم کرنے کے لیے خیالات ان کے دل میں ابھرنے لگے۔ اس سلسلے میں ہشام بن عمرو نے کوشش کی، یہاں تک کہ زہیر بن امیہ اور سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے رشتے دار مطعم بن عدی، زمعہ بن اسود، ابوالبختری بن ہشام اور مختلف قبیلوں کے کچھ افراد نے رات کے وقت ایک خفیہ میٹنگ کی اور اس میٹنگ میں انہوں نے اس معاہدے کو منسوخ کرنے کا طریقہ طے کیا۔ اس کے بعد صبح کے وقت خانہ کعبہ کے پاس جمع ہوئے، پہلے انہوں نے طواف کیا اور طواف کے بعد زہیر نے اعلان کیا کہ”جب تک انسانیت کے خلاف اس معاہدے کو ختم نہیں کیا جاتا، میں چین سے نہیں بیٹھوں گا۔”اس پر ابو جہل زہیر کی مخالفت میں بولنے لگا۔ تب چار نیک دل لوگوں نے باری باری اعلان کیا کہ ہم اس معاہدے کو منسوخ کرتے ہیں۔ یہ سن کر ابو جہل حیران رہ گیا اور بولا کہ”گویا تم یہ معاملہ پہلے ہی طے کرچکے ہو۔”اب ابو جہل بےبس ہوگیا اور اس طرح مسلمانوں کو اس سنگ دلانہ معاہدے سے نجات ملی۔
اس معاہدے کو منسوخ کرانے میں ابوالبختری اور دوسرے چار انصاف پسند لوگوں کا بڑا ہاتھ تھا۔
کشمیر میں آرٹیکل 370/کو منسوخ کرنے کی حکومت کی یک طرفہ کاروائی کے خلاف برادران وطن کے انصاف پسند لوگ پہلے ہی میدان میں اتر چکے ہیں اور وہ حکومت کے فیصلے کے خلاف مسلسل اپنا احتجاج درج کرا رہے ہیں۔ یہ افراد اور تنظیمیں تاحال حکومت کے خلاف اور کشمیری عوام کے جائز حقوق کے لیے ثابت قدمی کا مظاہرہ کررہی ہیں۔ بائیں بازو کی تنظیموں اور دہلی کے مسلمانوں کی تنظیم یونائٹیڈ اگینسٹ ہیٹ کھل کر سراپا احتجاج بنی ہوئی ہیں اور انسانیت کا حق ادا کررہی ہے۔
شعب ابی طالب میں میں محصور مسلمانوں کے بائیکاٹ کے منسوخ کرانے میں ابوالبختری نے جو رول ادا کیا ہے اگر وہی رول مولانا محمود مدنی صاحب ادا کرتے اور ہم وطنوں کی تنظیموں اور ان کے سرکردہ افراد کو ساتھ لے کر حکومت کے خلاف ایک ماحول بناتے اور حکومت پر مسلسل دباؤ بنائے رکھتے تو بات ہی کچھ اور ہوتی۔ اب بھی مولانا محمود مدنی صاحب کے لیے موقع ہے کہ وہ کشمیر سے آرٹیکل 370/ کے خاتمے کے لئے آواز اٹھائیں، نیز کشمیر میں کرفیو کے دوران فوج کے مظالم پر ہموطنوں کی طرح آواز بلند کریں اور بغیر لاگ و لپیٹ کے کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کا غیر جانبدرانہ انکوائری کا مطالبہ کریں۔ میڈیا کے ذریعے دوٹوک انداز میں کہیں کہ ہاں کشمیر میں فوج مظالم ڈھا رہی ہے۔ بی بی سی، دی وائر، دی قوئینٹ اور مڈل ایسٹ جیسے بڑے میڈیا ہاؤز نے بھی کشمیر کی سنگین اور بدترین صورتحال کو کوریج دیا ہے۔ حق اور انصاف کی یہ آوازیں سوفیصد آئینی حدود میں ہیں اور ہر انصاف پسند اسے بیان کررہاہے۔
لیکن ان سب سے ہٹ کر مولانا محمود مدنی صرف یہی دہائی دے رہے ہیں کہ ہم بھارتی ہیں اور کشمیر بھی بھارتی ہیں تو ظاہر سی بات ہے کہ عالمی میڈیا اور عالمی برادری میں سیدھے سیدھے وہ حکومت کی تائید میں استعمال ہورہے ہیں۔ ایسے اہم موقع پر مولانا محمود مدنی صاحب کو عزیمت کی راہ اختیار کرنا چاہیے تھا۔ لیکن افسوس کہ انہوں رخصت کی راہ کو ترجیح دی۔