کیا کہا جناب! کفر کا موازنہ ایمان سے۔۔۔؟؟؟
“چھترپتی شیواجی کا موازنہ اورنگزیب عالمگیر (رحمۃ اللہ علیہ) سے کرنا ایسا ہی ہے جیسے کفر کا موازنہ ایمان سے کرنا ہے”
محمد خالد داروگر، دولت نگر، سانتا کروز، ممبئی
مولانا محمود مدنی صاحب کو آر ایس ایس کے سر سنگھ چالک موہن بھاگوت کے اس جملے”مسلمانوں کے بغیر ہندوتوا مکمل نہیں ہوتا ہے”سے اس قدر زیادہ خوشی ہورہی ہے کہ وہ موہن بھاگوت سے ملنے کو بیتاب دکھائی دے رہے ہیں اور موہن بھاگوت کی بات کا ان پر اتنا زیادہ اثر ہوگیا ان پر اچانک چمتکار ہونا شروع ہوگیا۔
سب سے پہلے جمعیتہ علماء ہند کی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں تجاویز رکھی کہ”کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے۔” (لیکن کشمیر میں برپا مظالم اور جبر وتشدد کی مذمت نہیں کرسکے) اور پھر دوسرا حکومت سے مطالبہ کیا کہ این آر سی کو پورے ہندوستان میں لاگو کیا جائے (این آر سی کی وجہ آسام میں مسلمانوں پر کیا گزر رہی وہ آنکھوں سے اوجھل ہوگیا) اور اب آگے بڑھ کر مولانا محمود مدنی صاحب نے یہ بھی فرما دیا کہ”چھترپتی شیواجی نامی راجہ اورنگزیب (رحمۃ اللہ علیہ) سے بہتر تھے اور بحیثیت بادشاہ میں اورنگزیب کو 10 میں سے 8 نمبر دونگا اور شیواجی مہاراج کو 10 میں سے 10 نمبر دونگا۔ اورنگزیب عالمگیر اور شیواجی مہاراج کی اپنی الگ حیثیت ہے اور ان کا موازنہ اورنگزیب ہرگز نہیں کیا جاسکتا ہے۔
مولانا محمود مدنی صاحب آخر کون ہوتے ہیں اورنگزیب (رحمۃ اللہ علیہ)کو نمبر دینے والے، کیا وہ تاریخ داں ہیں اور کیا انہوں نے اورنگزیب (رحمۃ اللہ علیہ) پر تحقیقی کام کیا ہے۔
مشہور و معروف اسکالر اور تاریخ دان ڈاکٹر بشمبھر ناتھ پانڈے جن کا انتقال 82/سال کی عمر میں 1998ء دہلی میں ہوا اور جو 1983ء سے 1988ء تک اڈیسہ کے گورنر رہے انہوں نے اورنگزیب عالمگیر پر زبردست تحقیقی کام کیا کرتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ”اورنگزیب جیسا انصاف پسند بادشاہ اس ملک میں نہیں گزرا ہے۔”کئی اور تاریخ دان اورنگزیب عالمگیر کی شخصیت کے معترف رہے ہیں۔
مولانا محمود مدنی صاحب اورنگزیب پر ڈاکٹر بشمبھر ناتھ پانڈے کے ذریعے کیے گئے تحقیقی کام کو ہی بڑھ لیتے تو وہ شیواجی مہاراج کا موازنہ اورنگزیب عالمگیر سے کرنے کی جرأت ہی نہیں کرتے۔
اورنگزیب عالمگیر نے 1657ء سے 1707ء تک ہندوستان پر حکومت کی۔ اورنگزیب حیرت انگیز صلاحیتوں کا مالک تھا اور جب وہ تخت پر بیٹھا تو اس کی عمر چالیس سال کی تھی اور اس کا دور حکومت پچاس سالوں پر محیط ہے۔ اورنگزیب نے آگرہ کی بجائے دہلی کو دارالسلطنت بنایا۔ اس زمانے کے ایک فرانسیسی سیاح برینیر نے جو شاہجہاں اور اورنگزیب کے دربار میں بارہ سال رہا، لکھا ہے کہ اورنگزیب جب دہلی پہنچا تو جون کا مہینہ تھا اور سخت گرمی پڑرہی تھی۔
اورنگزیب نے گرمی میں رمضان کے پورے روزے رکھے۔ وہ روزہ رکھنے کے باوجود حکومت کے سارے کام کاج کرتا۔ شام ہوتی تو روزہ افطار کرتا اور افطار میں جوار اور مکئی کی روٹی کھاتا، پھر تراویح کی نماز پڑھتا اور رات کا زیادہ حصہ عبادت میں گزارتا۔ اورنگزیب ہندوستان کا ہی نہیں بلکہ برصغیر کا سب سے بڑا بادشاہ ہے۔ وہ صرف اس لحاظ ہی سے بڑا نہیں ہے کہ اس کے قبضہ میں سارا ملک تھا بلکہ اس لحاظ سے بھی کہ اخلاق، عادات، محبت، دیانت، انصاف اور حکومت کی ذمہ داری اور رعایا پروری کے لحاظ سے بھی وہ بےمثل تھا۔ وہ سرکاری آمدنی کو اپنے ذاتی خرچ میں نہیں لاتا تھا کیونکہ وہ رعایا کا مال تھا۔
اورنگزیب انصاف کے معاملہ میں اتنا سخت تھا کہ اس کے سامنے امیر و غریب سب یکساں تھے۔ حد تو یہ ہے کہ اس نے پورے ملک میں اعلان کرادیا تھا کہ اگر کوئی بادشاہ پر مقدمہ چلانا چاہے تو وہ عدالت میں مقدمہ کرسکتا ہے۔ یہ اورنگزیب کا اتنا بڑا کارنامہ ہے کہ اگر اس نے اپنے عہد میں کوئی اور کام نہ بھی کیا ہوتا تو اس کا نام تاریخ میں زندہ رہتا۔ اورنگزیب مغل بادشاہوں میں سب سے زیادہ پڑھا لکھا تھا۔ حافظ قرآن تھا، تفسیر حدیث اور فقہ سے واقف تھا۔ امام غزالی کی تصانیف اور دوسرے علماء کی کتابیں اکثر پڑھتا رہتا تھا۔ عربی، فارسی، ترکی اور ہندی چاروں زبانوں کا ماہر تھا اور ان میں سے ہر زبان میں گفتگو کرسکتا تھا۔
اورنگزیب اعلیٰ درجہ کا خوش نویس بھی تھا۔ قرآن مجید لکھا کرتا تھا۔ ایک قرآن مجید لکھ کر اس نے مدینہ بھجوایا اور ایک مکہ معظمہ بھجوایا۔ اس کے ہاتھ کے لکھے ہوئے قرآن اور سورتیں اب بھی ملتی ہیں۔ اورنگزیب کو بڑے بڑے محل اور مقبرے بنوانے کا شوق نہیں تھا۔ وہ صرف رفاہ عام کے کاموں پر روپیہ خرچ کرتا تھا۔ ہاں اس کو مسجدوں کی تعمیر کا بہت شوق تھا۔ ملک میں اس نے ہزاروں مسجدیں بنوائیں اور ہر سال ہزاروں مسجدوں کی مرمت کرواتا تھا۔ مسجدوں کے تمام اخراجات شاہی خزانے سے ادا ہوتے تھے۔ اس معاملے میں اورنگزیب کو ہندوؤں کا بھی خیال تھا اور اس نے ہندوؤں کے پاٹھ شالاوں اور کئی عبادت گاہوں کے لیے جاگیریں دے رکھی تھیں۔ اورنگزیب دن رات میں صرف تین گھنٹہ سوتا تھا۔ اس کا بیشتر وقت ملکی انتظام اور عبادت میں گزرتا تھا۔ وہ سلطنت کی ایک ایک بات سے باخبر رہتا تھا۔ نوے( 90 ) سال کی عمر میں جب اس کا انتقال ہوا۔
اس کی محنت اور جفاکشی کا یہ حال تھا کہ لوگ تعجب کرتے تھے۔ اس کی زندگی بڑی سادہ تھی۔ کپڑے بھی سادہ پہنتا تھا اور کھانا بھی سادہ کھاتا تھا۔ اخلاق ایسا بلند تھا کہ ساری زندگی کبھی گندے یا برے الفاظ منہ سے نہیں نکالے وہ اپنا خرچ ٹوپیاں سی کر اور قرآن مجید لکھ کر پورا کرتا تھا۔ اورنگزیب کا دکن کے شہر احمد نگر میں انتقال ہوا اور اورنگ آباد کے پاس خلد آباد میں اس کو دفن کیا گیا، جہاں اس کی قبر اب تک موجود ہے۔ اس کی نعش جب احمد نگر سے اورنگ آباد لے جائی جارہی تھی تو راستہ بھر میں لوگ زاروقطار رو رہے تھے، جیسے وہ ان کا باپ تھا۔ مرنے سے پہلے اس نے وصیت کی کہ ساڑھے چار روپے جو میرے ہاتھ کی محنت کے ہیں اور ٹوپیوں کی سلائی سے بچے ہیں اس میں تہجہیز و تکفین ہو اور آٹھ سو پانچ روپے جو قرآن نویسی کی اجرت سے حاصل ہوئے ہیں، مساکین میں تقسیم کیے جائیں۔
ایک مؤرخ نے لکھا ہے:- ” ہندوستان کے مسلمان بادشاہوں میں یوں تو علاؤالدین خلجی، فیروز شاہ اور شیر شاہ سوری نے عوامی فلاح و بہبود کے بہت کام کیے مگر ان میں کوئی ایسا نہ تھا جس نے پیوند لگایا ہوا لباس اس لیے پہنا ہو کہ عوام پر اس کا بوجھ نہ پڑے۔ جس نے روکھی سوکھی روٹی اس لیے کھائی ہوکہ عوام کو دو وقت پیٹ بھر کھانا نصیب ہو۔”
مولانا محمود مدنی صاحب کو آخر ایسی کیا ضرورت پیش آئی کہ انہوں چھترپتی شیواجی مہاراج کا موازنہ اورنگزیب عالمگیر (رحمۃ اللہ علیہ) سے کردیا۔ کیا اورنگزیب کے یہ اوصاف جو اوپر بیان کیے گئے ہیں شیواجی مہاراج میں پائے جاتے ہیں۔ جس طرح چراغ کا موازنہ سورج سے نہیں کیا جاسکتا ہے اسی طرح شیواجی مہاراج کا موازنہ اورنگزیب عالمگیر (رحمۃ اللہ علیہ) سے کسی بھی صورت میں نہیں کیا جاسکتا ہے۔