آخر۔۔۔جمیعت علماء پر اعتراض کیوں!
مرزا انور بیگ
جمیعت علماء پر اعتراض پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ
۱۔ یہ جمیعت علماء ہے جمیعت علمائے اسلام نہیں ہے۔
۲۔ اس کے بانی حسین احمد مدنی کا نظریہ قومیت یہ تھا، ” قومیں اوطان سے بنتی ہیں” غیر اسلامی نظریہ ہے اور اسی کے اب تک یہ لوگ پرستار ہیں۔
۳۔ حسین احمد مدنی مجاہد آزادی ہند تھے اسلامی مملکت کے قیام کے خلاف تھے۔ اس لئے وہ کسی صورت اسلام کے نمائندے نہیں تھے۔
۴۔ جمیعت علماء کے اراکین ہمیشہ مسلمانوں کے دیگر مکاتب فکر سے دشمنی پر آمادہ رہے اور فتنہ انگیزی کرتے رہے۔
۵۔ یہ کانگریس کی ہی ایک شاخ کی حیثیت سے کام کرتے رہے اب بھاجپا سے پینگیں بڑھانے میں لگے ہیں۔
۶۔ ملت کے سرمایہ کو اپنا ذاتی سرمایہ سمجھا۔ مدنی خاندان کی مالیت کا اندازہ لگا کر دیکھ لیں کہاں سے آیا۔
۷۔ دارالعلوم دیوبند کو اپنی جائیداد بنا رکھا۔
۸۔ سہارنپور کے مدرسوں کا خام مال امت کو لڑانے کے لئے استعمال کیا۔
ہر مکتبہ فکر کے اختلاف کے پیچھے دیوبند ملے گا۔
الف۔ دیوبندی بریلوی جھگڑا
ب۔ دیوبندی شیعہ جھگڑا
ج۔ دیوبندی اہل حدیث جھگڑا
د۔ دیوبندی جماعت اسلامی جھگڑا
۹۔ فتویٰ تکفیر کے سرخیل بھی دیوبندی اور سہارنپوری رہے ہیں۔
۱۰۔ مناظرہ بازی بھی ان کا مشغلہ رہا ہے۔
۱۱۔ اکابر پرستی بھی ان کا شیوہ ہے۔
۱۲۔ جماعت اسلامی پر جھوٹی تہمتیں اسی کے اراکین و امرا نے لگا کر شر پھیلایا ہے۔
۱۳۔ جماعت اسلامی کا موازنہ انہی لوگوں نے آر ایس ایس سے کرکے عوام میں غلط فہمیاں پھیلائیں ہیں۔
یہ معدودے چند ہنر ہیں اہل فن کے جن کی طرف اشارہ کیا ہے پھر بھی نہ تقوی میں کوئی فرق واقع ہوتا ہے نہ زہد پر آنچ آتی ہے۔
مولانا حسین احمد مدنی دراصل موجودہ جمیعت علماء کی بانی ہے۔ جس طرح کانگریس اور کانگریس آئی۔
دوسری بات یہ میرے تجربات و مشاہدات پر مبنی تحریر ہے اس سے ضروری نہیں کہ ہر کوئی اتفاق کرہی لے۔