عاشورہ اور شہادت
مرزا انور بیگ
دو سوال ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔
ایک یہ کہ شہادت حسین رض کی وجہ سے عاشورہ کے دن کی فضیلت ہے یا
دوسرا یہ کہ عاشورہ کے دن کی وجہ سے شہادت امام حسین رض کی شہادت کی فضیلت ہے ؟
اور دونوں ہی سوال کا جواب نہیں میں ملتا ہے۔
اگر ۱۰ محرم یعنی عاشورہ کے دن حضرت امام حسین رض کو انتہائی بے کسی کے عالم میں شہید نہ کیا جاتا بلکہ عام جنگوں جیسا ہی یہ معرکہ ہوتا اور شہید ہوتے اس وقت بھی ان کی شہادت کی فضیلت اور اہمیت میں کوئی کمی واقع نہ ہوتی کیوں کہ یہ معرکہ جس عظیم مقصد کے تحت پیش آیا وہ مقصد عظیم تھا۔
وہ مقصد جس نے یزیدی نظریہ کی سفاکی کو اجاگر کیا، وہ مقصد جس نے یزیدیت اور اسلام میں سے کسی ایک کی اطاعت کا درس دیا، اس مقصد کی حفاظت کے لئے اپنے پورے خاندان کو قربان کر دینا جس نے سستا سودا جانا اس لئے اس شہادت کی اہمیت اور فضیلت ہے نہ کہ یوم عاشورہ نے اسے فضیلت بخشی۔ یہ معرکہ بادشاہت کی اقامت کے خلاف اور خلافت کی اقامت و بحالی کے لئے پیش آیا۔ یہ معرکہ اسلامی نظام حکومت کی بحالی اور قیصر و کسریٰ کے نظام حکومت کی بحالی کے درمیان پیش آیا۔ یہ معرکہ حق و باطل کے درمیان پیش آیا۔ یہ معرکہ بدکردار اور باکردار افراد کے درمیان پیش آیا۔
اسی طرح یوم عاشورہ کو بھی فضیلت معرکہ کربلا کی وجہ سے حاصل نہیں ہے۔ بلکہ اس روز یعنی ۱۰ محرم کو انبیاء کرام علیہم السلام کو اللہ نے دشمنوں پر فتح دی اور اسلام دشمنوں کو زیر کیا دوسری طرح یوں کہہ سکتے ہیں کہ انبیاء کرام علیہم السلام کو اللہ نے راحت و خوشی سے نوازا اور یہ دن شکرانہ ادا کرنے کا ہے۔
احادیث میں روایتیں موجود ہیں کہ جب رسول اللہ صلی علیہ وسلم مدینہ تشریف لے گئے اور وہاں یہودیوں کے بارے میں یہ علم ہوا کہ وہ بھی دس محرم کا روزہ رکھتے ہیں تو فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام کے معاملے میں ہم اس بات کے زیادہ مستحق ہیں، نیز یہ بھی فرمایا کہ آئیندہ ہم ۹ اور ۱۰ محرم کا روزہ رکھیں گے تاکہ یہودیوں سے مشابہت نہ ہو (المفہوم) لہذا عاشورہ کے دن مسلمانوں کا عمل روزہ رکھنے کا رہا ہے اور یہ دن مسلمانوں کے لئے بھی فضیلت اور اہمیت کا حامل ہے کیونکہ مسلمانوں سے زیادہ نبیوں کے وارث دوسری قومیں نہیں ہیں۔
اللہ نے خوشی کے موقع پر شکر ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ جب کہ غم میں صبر کی تلقین کی گئی ہے۔ نبیوں کی خوشی میں شامل ہونا یہ ہمارے لئے باعث سعادت ہے۔ اور اس سعادت میں اس شعور کے ساتھ شریک ہونا کہ ہمیں یہ علم ہوکہ وہ کیا معاملہ تھا جس میں اللہ نے دشمنوں کو نیست و نابود کیا یہ سب سے اہم ہے۔ نبی کا منسب و مقام، اس کی ذمہ داری، اس کے فرائض اور ان کی تکمیل کے لئے کی گئی کوششیں یہ ہمارے سامنے ہونی چاہئے اسی وقت ہم صحیح معنوں میں ان کی خوشی کا لطف لے سکیں گے۔ اسی وقت ان کو درپیش مسائل اور پریشانیوں کا اندازہ ہوسکے گا اور اسی وقت ہم پر یہ راہیں بھی کھلیں گی کہ ان حالات میں انہوں نے کس طرح کام کیا۔ کس صبر و استقلال کا مظاہرہ کیا اور کس طرح اللہ سے لو لگا کر اس سے مدد طلب کی۔
معرکہ کربلا کو بھی اسی انداز میں اگر دیکھیں پورے تاریخی حقائق کی روشنی میں تو ہمیں اس میں بھی بہت فکرانگیز باتیں ملیں گی۔ ابتدا کہاں سے ہوتی ہے۔ درمیان میں کیا کیا پیش آتا ہے۔ ان خرابیوں کی اصلاح کے لئے کیا کیا کوششیں ہوتی ہیں۔ امت سے کتنے سروں کی شہادتیں پیش کی جاتی ہیں۔ پھر اس کا انجام کیا ہوا اور اس کے اثرات کا نہ رکنے والا سلسلہ جو اب تک جاری ہے۔
مگر ہم نے ان تمام باتوں کو ایک طرف ڈال کر نری شہادت حسین پر لچھے دار تقریریں سن سن کر لطف اندوز ہورہے ہیں۔ نہ ان تقریروں میں امت کے لئے کوئی دستور عمل ہے نہ زاد راہ۔ گفتن شنیدن برخاستن سے ایک ذرہ زیادہ نہیں ہے۔ اور اس پر مستزاد یہ کہ عاشورہ اور شہادت دونوں کو گڈمڈ کرکے دونوں کی اہمیت سے ہم خالی ہو گئے ہیں جبکہ دونوں ایک ہی ڈور کے سرے ہیں۔