شخصیاتمضامین

مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی: جیل سے پھانسی کی سزا تک

تحریر: میاں طفیل محمدؒ

ام المومنین حضرت عائشہؓ سے بڑھ کر حضور نبی کریم کو جاننے اور پہچاننے والی شخصیت اور کون ہو سکتی تھی۔ ان سے لوگوں نے جب پوچھا کہ حضور نبی کریم کیسے تھے؟ تو انہوں نے فرمایا: حضور چلتا پھرتا قرآن تھے۔ میں بھی مولانا مودودیؒ صاحب کے بارے میں یہی کہتا اور کہہ سکتا ہوں کہ مولانا مودودی مرحوم‘ دعوت اسلامی کا چلتا پھرتا نمونہ تھے۔

میں نے 35 سالہ رفاقت کے دوران ان کی کوئی بات اور کوئی حرکت‘ اسلام اور اسوہ رسول سے ہٹی ہوئی نہیں دیکھی۔ میرا ان سے ایک ہی بات پر اختلاف تھا کہ وہ پان کھاتے تھے۔ شہر لاہور میں‘ مارچ 1953ءمیں‘ جب ہم لوگوں کو گرفتار کرکے لاہور سینٹرل جیل میں لے جایا گیا۔ ہم لوگ دیوانی گھر وارڈ کے صحن میں مولانا مودودی صاحب کی اقتدا میں مغرب کی نماز پڑھ رہے تھے کہ دیوانی گھر وارڈ کا باہر کا دروازہ کھٹ سے کھلا اور 14’15 فوجی اور جیل افسر اور وارڈر احاطے میں داخل ہوئے۔ اور جہاں ہم نما ز پڑھ رہے تھے وہاں قریب آکر کھڑے ہو گئے۔ ہم نے باقی نماز مکمل کر لی تو ان میں سے بڑ ے فوجی افسر نے جو مارشل لا کورٹ کا صدر تھا‘ اس نے پوچھا: ”مولانا مودودی صاحب کون ہیں؟“ مولانا نے عرض کیا: ”میں ابوالاعلیٰ مودودی ہوں“، تواس نے کہا: ”آپ کو قادیانی مسئلہ کتاب تصنیف کرنے پر موت کی سزا دی جاتی ہے۔ اس کے خلاف کوئی اپیل نہیں ہو سکتی ہے۔ آپ گورنر جنرل سے رحم کی اپیل کر سکتے ہیں“۔ مولانا نے بلا توقف فرمایا: ”مجھے کسی سے کوئی رحم کی اپیل نہیں کرنی ہے۔ زندگی اور موت کے فیصلے زمین پر نہیں آسمان پر ہوتے ہیں۔ اگر وہاں پر میری موت کا فیصلہ ہو چکا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے موت سے نہیں بچا سکتی اور اگر وہاں سے میری موت کا فیصلہ نہیں ہوا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت میرا بال بھی بیکا نہیں کر سکتی“۔ اس کے بعد اسی افسر نے کہا:” آپ نے مارشل لا کے بارے میں روزنامہ تسنیم میں جو بیان دیا ہے اس پر آپ کو سات سال قید بامشقت کی سزا دی جاتی ہے“۔

کوئی آدھ گھنٹے کے بعد ہیڈ وارڈن اور ان کے ساتھ کچھ دوسرے وارڈر آئے اور انھوں نے کہا: ”مولانا مودودی صاحب تیار ہو جائیں‘ وہ پھانسی گھر جائیں گے“۔ اس پر مولانا مودودی صاحب نے اطمینان سے اپنا کھلا پا جامہ تنگ پاجامے سے بدلا‘ جو وہ گھر سے باہر جاتے وقت پہنا کرتے تھے۔ سر پر اپنی سیاہ قراقلی ٹوپی پہنی اور چپلی اتارکر سیاہ گر گابی جوتا پہنا اور اپنا قرآن مجید لے کر اور ہم سب سے گلے مل کر نہا یت اطمینان سے پھانسی گھر روانہ ہو گئے ۔

اب مولانا امین احسن اصلاحی صاحب ‘ مولانامودودی صاحب کی قمیص ‘ پاجامہ اور ٹوپی کبھی سینے سے لگاتے اور کبھی اپنے سر پر رکھتے ‘ کبھی آنکھوں پر لگاتے اور بے تحاشہ روتے ہوئے کہتے جاتے کہ:”مجھے یہ تو معلوم تھا کہ مولانا مودودی صاحب بہت بڑے آدمی ہیں‘ لیکن مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ خد ا کے ہاں مودودی صاحب کا اتنا بڑا مرتبہ اور مقام ہے“ ۔ چودھری محمد اکبر صاحب بھی روتے ہوئے کمرے سے باہر نکل کر صحن میں چلے گئے اور میں بھی روتا ہوا صحن میں ایک طرف نکل گیا اور ساری رات اسی طرح سے گزرگئی۔اگلی صبح ایک وارڈر نے آکر بتایا:”مولانا مودودی صاحب تو عجیب آدمی ہیں۔ معلوم ہو تا ہے کہ ان کو یہ اندازہ ہی نہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ وہ پھانسی گھر گئے‘ وہاں کا لباس پہنا‘ جنگلے سے باہر پانی کے گھڑے سے وضو کیا اور عشاءکی نماز پڑھی اور ٹاٹ پر لیٹ کر تھوڑی دیر بعد خراٹے مارنے لگے۔ حالانکہ ان کے آس پاس پھانسی گھرکے د وسر ے قیدی چیخ و پکار میں مصروف تھے“۔
مولانا مودودی صاحب کو پھا نسی کی سزا کا اعلان ہوتے ہی ملک بھر میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں احتجاج شروع ہو گیا ۔ انڈونیشیا کی اسلامی پارٹی کے وزیر اعظم ڈاکٹر ناصر صاحب نے حکومت پاکستان سے کہاکہ: ”پاکستان کو مودودی صاحب کی ضرورت نہیں تو دنیا بھر کے مسلمانوں کو ان کی ضرورت ہے ۔ پاکستان ان کو انڈو نیشیا بھجوا دے“۔ سعودی عرب نے اس سزا کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ علیٰ ھذا القیاس بہت سے دوسرے ممالک کے مسلمانوں نے بھی اور پاکستان میں تو ہرجگہ سے احتجاج ہوا ۔ اس احتجاج کانتیجہ یہ ہوا کہ تیسرے ہی روز حکومت پاکستان نے اعلان کر دیا کہ مولانا مودودی صاحب اور مولانا عبد الستار خاں نیازی صاحب کی سزاے موت عمر قید میں تبدیل کر دی گئی ہے ۔ چنانچہ مولانا مودودی صاحب کو پھانسی گھر سے جیل کے بی کلاس وارڈ میں منتقل کر دیا گیا۔

سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب کی یہ عمر قید عملاً ۱۴ سال قید با مشقت کی تھی ۔ اگر چہ یہ مارشل لا کورٹ کے تحت دی گئی تھی اور مارشل لا ختم ہو جانے کے بعد اسے ختم ہو جانا چاہیے تھا‘لیکن مارشل لا کے تحت سارے احکام اور سزاﺅں کو انڈمنٹی ایکٹ کے تحت بر قرار رکھا گیا

تھا ‘اس لےے یہ سزائیں مارشل لا اٹھ جانے کے باوجود بھی قائم اور جاری تھیں ۔

جماعت اسلامی نے مولانا مودودی صاحب کی سزا کو کالعدم کرانے کے سلسلے میں لا ہور ہائی کورٹ میں میاں منظور قادر ایڈوو کیٹ کے ذریعے سے رٹ دائر کردی اور ہائی کورٹ نے رٹ منظور کرتے ہوئے سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب کو رہا کرنے کا حکم دے دےا‘ چنانچہ مولانا مودودی صاحب ۲۸ مئی ۱۹۵۵ءکو ڈسٹرکٹ جیل ملتان سے رہا ہوکر گھرآ گئے۔
مولانا مودودی صاحب کی سزا ے موت کے خلاف رٹ کی اس کارروائی کو اللہ تعالیٰ نے میاں منظور قادر صاحب کو منکر خدا سے ایک مومن و مسلم میں تبدیل کرنے کا ذریعہ بھی بنا دیا ۔ ہو ا یوں کہ اس سلسلے میں ان سے میرا رابطہ اور بے تکلفی ہوئی تو میں نے ایک روزتفہیم القرآن کا پورا سیٹ لے جا کر میاں منظور قادر صاحب کی خدمت میں پیش کیاتو انھوں نے فرمایا:”میاںصاحب‘ آپ کو تو معلوم ہو گا کہ میں تو خدا کو نہیں مانتا“۔ میں نے عرض کیا:”میاں منظورقادر صاحب‘ آپ نے ہزاروں کتابیں ہر فن میں پڑھی ہیں‘ ان کو بھی پڑھ ڈالیں۔آپ کو معلوم تو ہو کہ مولانا مودودی کیا کہتے ہیں اور کیسے آدمی ہیں؟“چنانچہ انھوں نے تفہیم القرآن کا سیٹ لے کر رکھ لیا۔

میاں منظور قادر صاحب کچھ عرصے بعد جگر کے کینسر میں مبتلا ہو گئے۔ وہ علاج کے لیے سی ایم ایچ لاہور میں داخل ہو گئے ۔میں ان کی عیادت کے لیے گیا تو کافی مضحمل تھے۔ مجھ سے فرمایا :

Mian Sahib, now I have made peace with my Lord.Now I am prepared to meet Him.

اور کچھ عرصے بعد ان کا انتقال ہو گیا ۔ انّا للہ و انّا الیہ راجعون!
l مولانا مودودی صاحب کو چا ر مرتبہ گرفتار کیا اور جیل بھیجا گیا ۔ پہلی مرتبہ ۴ اکتوبر۱۹۴۸ءکو جہاد کشمیر کے بارے میں جھوٹا الزام لگا کر اور اس بار مو لانا امین احسن اصلاحی صاحب کو اور مجھے بھی ان کے ساتھ گرفتار کر کے نیو سینٹرل جیل ملتان میں نظر بند رکھا گیا اور ۲۰ ماہ بعد اس وقت رہا کیا گیا‘ جب ایک اور نظر بند ی کے سلسلے میں ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ دے دیا کہ پنجاب پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظر بندی میں دو مرتبہ ہی چھے چھے ماہ کی تو سیع ہو سکتی ہے ۔ اس سے زیا دہ تو سیع نہیں ہوسکتی۔ ہم لوگ اس وقت اسی پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت تیسری تو سیع کے تحت قید بھگت رہے تھے۔ اس لیے ہم لوگوں کو بھی حکومت کو رِہا کرنا پڑا۔

l دوسری مرتبہ مولانا مودودی صاحب لاہورشہر کے مار شل لا کے تحت ۲۸ مارچ ۱۹۵۳ ءکو گرفتار ہوئے تو ان کے ساتھ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب اور میرے علاوہ جماعت کے ۵۵‘۵۶ نمایاں ارکان بھی گرفتار کر لیے گئے۔ مولانا مودودی صاحب کو سزائے موت اور بعد ازاں اسے عمر قید میں تبدیل کر دیا گیااور وہ ۲۶ ماہ بعد اس بنا پر رہا ہوئے کہ جس انڈ منٹی ایکٹ کے تحت مولانا کی سزا بر قرارتھی وہی خلاف قانون پایاگیا ۔

l تیسری مرتبہ مولانا مودودی صاحب ۴ جنوری ۱۹۶۴ءکو جماعت اسلامی خلافِ قانون قرار دیے جانے پر گرفتار ہوئے اور ان کے ساتھ جماعت کے ۵۵‘ ۵۶ دوسرے سرکردہ ارکان جماعت بھی گرفتار ہوئے۔ پھر مولانا مودودی صاحب اور دوسرے سب نظر بند بھی ۹ ستمبر ۱۹۶۴ ءکو اس وقت رِہا ہوئے‘ جب کہ سپریم کورٹ پاکستان نے جماعت پر پابند ی کو منسوخ اور مولانا مودودی سمیت تمام نظربند ارکانِ جماعت کی رہائی کا حکم دے دیا ۔

l چوتھی مرتبہ مولانا مودودی صاحب ۱۹۶۷ ءمیں اس لیے گرفتار اور نظر بند کیے گئے کہ عیدالفطر‘ جمعہ یا جمعرات کو پڑ رہی تھی اور جنرل محمد ایوب خاں صاحب کو ان کے بعض درباریوں نے ڈرا دیاتھا کہ عید جمعہ کے روز ہوئی تو دو خطبے ہوں گے‘یعنی ایک عید کا اور دوسر ا جمعہ کا ‘اور ایک دن میں دو خطبوں کا ہونا حکومت کے لیے منحوس اور خطرہ بھی ہو سکتا ہے ۔ چنانچہ جنرل محمد ایوب صاحب نے اپنے خوشامدی علما کے ذریعے چاند بدھ کی شام کو ہی دکھا دیا تا کہ عید جمعرات کو ہی ہو جائے ۔ مولانا مودودی صاحب اور تین چار اور بڑے علماے کرام نے سرکاری چاند کوماننے سے انکار کر دیا۔ اس پر جنرل محمد ایوب صاحب کی حکومت نے مولانا مودودی صاحب کو گرفتار کر کے راتوں رات لاہور سے لے جا کر بنوںمیں نظر بند کر دیا اور دو ماہ بعد ان کو رِہا کیا ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!