کتاب ”کانگریس آریس یس کی ماں“۔ ایک تعارف
تبصرہ نگار: محمد یوسف عبدالرحیم، بیدری
پروفیسر ولاس کھرات ڈائرکٹر باباصاحب ریسرچ سنٹر نئی دہلی کی کتاب ”کانگریس، آرایس ایس کی ماں“(اردو ترجمہ) کادوسرا ایڈیشن منظر عام پرآچکاہے۔پہلاایڈیشن اپریل 2018کو منظر عام پر آیاتھا۔ یہ کتاب دراصل پروفیسر ولاس کھرات کی ہندی کتاب ”کانگریس آریس یس کی ماں“ کااردوترجمہ ہے۔ جس کو سید مقصود (ظہیرآباد) نےکیاہے۔152صفحات کی اس کتاب میں ٹائٹل سے لے کر آخری صفحہ اور بیاک ٹائٹل تک مختلف تاریخی تصاویر ہیں جس سے کئی باتوں اور رازوں سے پردہ اٹھتاہے۔ 40کے قریب کتابوں کاحوالہ شامل کتاب ہے۔
کتاب کا پیش لفظ وامن مشرام صدر بام سیف وبھارت مکتی مورچہ نے تحریر کیاہے اور بتایاہے کہ ”کانگریس کاقیام 1885میں ہوا۔ آرایس ایس 1925میں بنی۔ آرایس ایس کو کانگریس کی ماں نہیں کہاجاسکتا۔ کانگریس کو آریس یس کی ماں ضرور کہاجاسکتاہے۔ اسی بات کو ثابت کرنے کے لئے مضبوط ثبوتوں کی بنیادپر پروفیسر ولاس کھرات نے یہ کتاب لکھی ہے۔ یہ بہت ہی اچھی کتا ب ہے۔ اور اس کی بہت زیادہ اہمیت وضرورت تھی(صفحہ 8)“
کتاب کے مصنف پروفیسر ولاس کرات نے کتاب کامقدمہ لکھتے ہوئے کہاہے کہ ”برہمنوں کی تاریخ اور ان کے رویہ کو ذہن میں رکھ کر ڈاکٹر امبیڈکر صاحب نے کہاتھا”دیش بھکتی بزدل لوگوں کاآخری سہارا ہوتاہے“ اور آج چھیل کپٹ دھوکہ دہی، بدخواہی کی جارہی ہے۔ اوراس کو دیش بھکتی کانام دیاجارہاہے“ (صفحہ 11)،وہ آگے لکھتے ہیں ”4/نومبر1948 کو برہمنوں نے پارلیمنٹ میں یہ مسئلہ اٹھایاتھا بھارت کا دستور رام راجیہ کا دستور ہونا چاہیے۔ وید پرمہارا(ویدوں کی طرز) پر ہونا چاہیے۔
یہ مسئلہ کانگریس کے برہمنوں نے اٹھایاتھا۔ آج آریس یس اور بی جے پی کے لوگ وہی کام کررہے ہیں۔ اس وقت کانگریس کے لوگوں نے جوکام کیاتھا۔ ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر نے اس وقت برہمنوں کے نیچ خیالات پر حملہ بھی کیاتھا۔ اس کتاب سے کئی تنازعات کاحل نکلے گایہ میرایقین ہے۔ (صفحہ 12)“
کتاب 5ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلاباب قیام کانگریس کی تاریخ اور اس کا مقصد، دوسرا باب کانگریس آرایس یس کی ماں، تیسر اباب گاندھی جی کاقتل، آریس ایس، نہرواور گولوالکر، چوتھا باب پونہ پیکٹ کی وجہ سے آریس یس مضبوط ہوا۔ اور پانچواں باب بابری مسجد کس نے گرائی، ہے۔
ضمیمہ میں گروگولوالکر کا اہم انٹرویو، نہرو، پٹیل اور ڈاکٹر بابا صاحب کے اہم خطوط، جواہر لعل نہروکا ریزرویشن کے خلاف لکھا رازدارانہ خط وغیرہ جیسے قابل مطالعہ ابواب شامل ہیں۔ کتاب اپنی اشاعت کے ساتھ ہی ہندی مارکیٹ میں بحث کا موضوع بنی رہی تھی۔ اس کتاب کے اردو ترجمہ کے لئے جناب سید مقصود مترجم سے 9440836492 پررابطہ کرسکتے ہیں۔