تازہ خبریںخبریںقومی

ایودھیا میں مسجد کے ثبوت تو ہیں لیکن مندر کے کہیں نہیں ہیں، عدالت میں ثبوت پر فیصلے ہوتے ہیں: سپریم کورٹ میں مسلم فریقوں کی بحث

نئی دہلی: آج ایودھیا تنازعہ کیس میں مسلم پرسنل لا بورڈ اور جمعیت علما ہند کے وکیل ڈاکٹر راجیو دھون نے 5 رکنی بنچ کے سامنے اپنی بحث کا آغاز پہلے ان تصورات اور غلط فہمیوں کے ازالے سے کیا جو ہندو فریقوں کے وکلا نے اپنی بحث سے پیدا کی تھی۔ سب سے پہلے انھوں نے ایڈوکیٹ ہری شنکر جین کے اس موقف پر ضرب لگائی کہ معاملہ کا فیصلہ صرف ہندو لا ء کی بنیاد پر ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ حکومت تبدیل ہو جانے کے بعد اس ملک اورحکومت کا قانون ہی بنیاد بنے گا،جس کے دوران تنازعہ پیدا کیا گیا۔

انہوں نے کہا ایڈوکیٹ ہرا سرنی نے اپنی بحث میں یہ بنیاد رکھی کہ زمین ہی (Diety) خدا ہے۔ حالانکہ اس پورے کیس میں یہ موقف کبھی نہیں رہا۔ اس تنازعہ میں پہلا کیس گوپال وشارد کی طرف سے 1950میں داخل کیا گیا، اس وقت یہ مسئلہ نہیں تھا۔ 1959میں نرموہی اکھاڑا کا کیس آیا، اس میں بھی یہ مسئلہ نہیں تھا۔ 1961 میں ہمارا کیس یعنی یوپی سنٹرل وقف بورڈ کا کیس آیا۔انہوں نے اس کا جواب دیا اس میں بھی یہ مسئلہ نہیں اٹھا۔ پہلی بار یہ معاملہ 1989میں اٹھایا گیا۔
فریق مخالف نے یہ ثابت کرنے کے لئے کہ زمین خود ہی بھگوان ہے کہا کہ یہاں لوگ پوجا کرتے تھے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ زمین خود ہی بھگوان(مقدس) ہے۔
ڈاکٹر راجیو دھون نے کہا کہ پریکر ما کوئی ثبوت نہیں ہے وہ تو پوجا کا ایک طریقہ ہے۔

فریق مخالف نے اپنے دعوے کے ثبوت میں حکم چند کیس کو پیش تھا،لیکن وہ بات کو گول کر گئے کہ جس کورٹ نے پہاڑ پر موجود مسجد کو مسجد مانا تھا۔ اس کو چھوڑ کر باقی زمین کو Dietyتسلیم کیا گیا۔
اس کے بعد انہوں نے سیاحوں کے سفر ناموں کے بارے میں کہا کہ یہ کوئی ثبوت نہیں ہیں۔ کسی سیاح نے کوئی بات کسی بنیاد پر لکھی، کس سے پوچھ کر لکھی، ان من گھڑت باتوں کو بطور ثبوت نہیں مانا جا سکتا۔ہمارے پاس اس معاملہ میں 1528سے متواتر ثبوت ہیں کہ یہاں پر صرف مسجد تھی جہاں متواتر نماز ہوتی رہی ہے۔
انھوں نے کرناٹک وقف بورڈ (2004) کیس کا ذکر کرتے ہوئے کی زمین کو استعمال نہیں کیا جا رہا ہو تو بھی اس ملکیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

انہوں نے کہا کہ ویدک دور میں مورتی پوجا نہیں ہوتی تھی۔ اگر بابر حملہ آور تھا تو آرین بھی حملہ آور تھے۔ اگر بابر کا قانون نہیں چلے گا تو آرین کا قانون بھی نہیں چلے گا۔آرین کے دور کے بعد گیتا دور میں مورتی پوجا شروع ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ رامائن صرف ایک افسانہ ہے ہاں مہابھارت تاریخ ہے۔

ہندو قانون کے اعتبار سے مورتی کے نابالغ کا تصور صرف اتنا ہے کہ وہ کود اپنا مقدمہ نہیں لڑ سکتا۔ جائیداد کی رکھوالی کون کرے اس کے لئے ولی کا تصور ہے۔ نابالغ ہونے سے حقیقت نہیں ثابت ہوتی۔

Paren Petriae کو بنیاد بنا کر جو بات کہی گئی کہ اگر کوئی وارث نہ ہو تو سرکار یا کورٹ اس کا وارث ہوگا۔ یہاں اس کیس میں اس کو بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔ اگر کھدائی میں کہیں مور یا کنول کے پھول کا کوئی ٹکڑا ملا تو اس سے یہ کہاں سے ثابت ہو جاتا ہے کہ وہاں کوئی بڑا اسٹرکچر موجود تھا۔

الہ آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس اگروال نے اپنے فیصلہ کی بنیاد قیاسات اور مفروضوں پر قائم کی تھی۔ اگر ہم سیب اور سنترے میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کریں گے تو ہمارے پورے سیکولر دستور کی ہوا نکل جائے گی۔
کل بھی ڈاکٹر راجیو دھون کی بحث جاری رہے گی اور وہ سوٹ نمبر 3 پر اپنی بحث کریں گے۔ آج کی ڈاکٹر راجیو دھون کی بحث پر بورڈ کے جنرل سیکریٹری مولانا محمدولی رحمانی نے اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ انشا اللہ ہمارہ بحث مدل اور حقائق پر مبنی ہوگی۔

آج عدالت میں مسلم فریقوں (مسلم پرسنل لا بورڈ اور جمعیت علما ہند) کے مشترکہ وکیل سینئر ایڈوکیٹ ڈاکٹر راجیو دھون کے علاوہ مسلم پرسنل لا بورڈ کے وکلاسینئر ایڈوکیٹ میناکشی اروڑا، ایڈوکیٹ ظفر یاب جیلانی (سیکریٹری مسلم پرسنل لا بورڈ) موجود تھے۔

ان کے علاوہ عدالت میں مسلم پرسنل لا بورڈ کے دیگر وکلاایڈوکیٹ آن رکارڈ، شکیل احمد سید، ایڈوکیٹ ایم آر شمشاد، ایڈوکیٹ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ ارشاد احمد، ایڈوکیٹ فضیل احمد ایوبی موجود تھے۔ جونئیر وکلا میں ایڈوکیٹ آکریتی چوبے، ایڈوکیٹ قرۃ العین، ایڈوکیٹ پرویز دباز، ایڈوکیٹ تانیا شری، ایڈوکیٹ عظمی جمیل، ایڈوکیٹ دانش احمد سید، ایڈوکیٹ سارہ حق اور ایڈوکیٹ ادتیا سماوار بھی موجود تھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!