ٹاپ اسٹوری

ایک حیران کن سروے رپورٹ: 35 فیصد پولیس اہلکار مانتے ہیں کہ گئوکشی کے معاملے میں اگر بھیڑ کسی ملزم کو سزا دیتی ہے تو یہ فطری عمل ہے۔

اسلاموفوبیا کوئی نئی چیز نہیں ہے اور دنیا کے کچھ ممالک میں یہ بیماری کچھ زیادہ ہی پھیلی ہوئی نظر آتی ہے۔ لیکن اب ایک ایسی رپورٹ سامنے آئی ہے جس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ ہندوستان میں پولس محکمہ بھی کم ’اسلاموفوبیا‘ کا شکار نہیں ہے۔ ایک سروے رپورٹ نے یہ حیران کرنے والا پہلو ظاہر کیا ہے کہ ملک میں 50 فیصد پولس اہلکار مانتے ہیں کہ مسلمانوں کا جرم کی طرف فطری طور پر جھکاؤ ہوتا ہے۔ یہ سروے رپورٹ این جی او ’کامن کاز‘ کے ذریعہ کیا گیا ہے جس نے حکومت کے لوک نیتی پروگرام کے ساتھ مل کر ملک کی ترقی یافتہ سوسائٹی کے بارے میں پتہ لگانے کے لیے تیار کیا ہے۔

منگل کے روز یہ سروے رپورٹ سپریم کورٹ کے سابق جج جے. چیلامیشور کے ذریعہ ریلیز کی گئی جس میں کئی ایسی باتیں سامنے آئی ہیں جو حیران کرتی ہیں۔ اس رپورٹ میں 35 فیصد اہلکار یہ بھی مانتے ہیں کہ اگر بھیڑ کسی گئوکشی کے معاملے میں ملزم کو سزا دیتی ہے تو یہ فطری عمل ہے۔ پولس کے ذریعہ یہ سوچنا واقعی حیران کرتا ہے کیونکہ موب لنچنگ کے بڑھتے واقعات کے مدنظر پولس کا ایسا سوچنا موب لنچنگ کو فروغ ہی دے گا۔

یہ سروے ملک کی 21 ریاستوں اور 11000 پولس اسٹیشن کے 12000 پولس اہلکاروں اور ان کے گھر والوں سے بات چیت کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے۔ سروے میں شامل پولس اہلکاروں میں سے 37 فیصد کا یہ بھی ماننا ہے کہ چھوٹے موٹے جرائم کے لیے سزا دینے کا اختیار پولس کو ملنا چاہیے اور اس کے لیے قانونی ٹرائل نہیں ہونا چاہیے۔ گویا کہ پولس اہلکار چاہتے ہیں کہ انھیں سزا سنانے کا حق حاصل ہو جائے جو کہ فی الحال ان کے پاس نہیں ہے۔

بہر حال، اس سروے رپورٹ میں گئوکشی کی طرح ہی عصمت دری کے ملزمین سے متعلق بھی ایک سوال پولس اہلکاروں سے پوچھا گیا تھا۔ اس کے جواب میں 43 فیصد پولس اہلکاروں کا ماننا ہے کہ کسی عصمت دری کے ملزم کو بھی بھیڑ کے ذریعہ سزا دینا فطری عمل ہے۔ جواب سے ظاہر ہے کہ پولس یہ سمجھتی ہے کہ اگر کوئی شخص قانون توڑتا ہے اور پبلک پر اس کا اثر پڑتا ہے تو پکڑے جانے پر پبلک کے ذریعہ پیٹا جانا یا پھر اسے ہلاک کر دینا فطری عمل ہے۔

اس سروے رپورٹ میں ایک بہت اہم بات نکل کر سامنے یہ آئی ہے کہ کئی معاملوں میں پولس پر سیاسی دباؤ کچھ زیادہ ہی بنایا جاتا ہے۔ سروے میں شامل تقریباً 72 فیصد پولس اہلکاروں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ بااثر لوگوں سے جڑے معاملوں کی جانچ میں انھیں ’سیاسی دباؤ‘ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مطلب صاف ہے کہ اثر و رسوخ رکھنے والے لوگ پولس کیسز میں اپنے سیاسی تعلقات کا بھرپور استعمال کرتے ہیں۔(بشکریہ: )

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!