سماجیمضامین

کون ہے؟ غدارِ وطن…!

مفتی افسر علی نعیمی ندوی

وطن سے محبت ایک فطری بات ہے اور ہر انسان کو اپنے وطن سے بے حد محبت ہو تی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اپنی عزت و آبرو اور مال و دولت کی حفاظت میں قتل کر دیا جائے وہ شہید ہے (جامع الترمذی، کتاب الدیات، ۱/ ۰۷۱) 1799 میں ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد گویا پورا ہندوستان انگریزوں کا غلام ہو گیا تھا، سب سے پہلے شاہ محدث دہلوی نے جہاد کا فتوی ٰ دیا تو ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ انگریزوں سے بغاوت کے جرم میں بہادر شاہ ظفر کو جزیرہ انڈمان میں جلا وطن کر دیا گیا، ستم بالائے ستم یہ کہ ان کے بیٹے اور پوتے کا سر قلم کر کے خوان میں رکھ کر ان کے سامنے پیش کیا گیا، مرنے کے بعد انہیں خاک ِ وطن بھی نصیب نہ ہوا۔

کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں

فتویٰ جہاد کے بعد ہزاروں ہندوستانیوں نے انگریزوں کے خلاف محاذ آرائی کی؛ لیکن افسوس کہ مسلمانوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔1857 کی بغاوت کو کچلنے میں انگریزوں نے کوئی کسر نہ اٹھا رکھی، بغاوت کی ساری ذمہ داری مسلمانوں کے سر پر تھوپ دیا۔ کتنی خواتین تو اپنی عفت و عصمت بچانے کے لیے ڈوب کر مر گئی۔ کتنی تو چند ٹکوں میں فروخت کر دی گئیں۔ ہزراروں عورتیں اپنے ماں باپ اور بھائی بہن سے جدا کر دی گئیں۔

زمین کے حال پہ اب آسمان روتا ہے
ہر ایک فراق مکیں میں مکان روتا ہے
کہ طفل و عورت و پیر جوان روتا ہے
غرض یہاں کے لیے ایک جہان روتا ہے

علامہ فضل حق خیر آبادی، مولانا یحییٰ علی، مولانا جعفر علی تھانیسری، مولانا لاہوری، مولانا محمود الحسن گنگوہی، مولانا قاسم نانوتوی، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی، مولوی عبد الحق، علامہ صدر الدین آزردہ دہلوی، علامہ فیض احمد، سید کفایت علی کافی، مولانا احمد اللہ شاہ مدراسی، مولانا رحمت اللہ کیرانوی، سید احمد شہید، سر سید احمد خان، ڈاکٹر ذاکر حسین، ڈاکٹر مختار انصاری، بیگم حضرت محل اور لاکھوں مسلمانوں نے اپنے خون جگر سے وطن عزیز کو انگریزوں کے قبضہ سے آزاد کرایا۔

جب گلستاں کو خون کی ضرورت پڑی
سب سے پہلے ہماری ہی گردن کٹی

1857 کی جنگ آزادی میں مجاہدوں کی کوششوں سے ہندوستان آزادی کے کنارے تک پہنچ چکا تھا لیکن مہاراجا پٹیالا اور مہا راجا گوالیار نے انگریزوں کی مدد کر کے پانسا پلٹ دیا۔ یہ دونوں خاندان ہی دیش کے سب سے بڑے غدار کہے جا سکتے ہیں۔مان سنگھ، جواہر سنگھ، مگھراج، ہر چند گوسائیں، پربھو، گوپال، شوکی، رام جی داس، شیر دل سنگھ، مان راج، ہر گوبند، راجن گوجر، گوری شنکر، گنگا رام زمیندار، دھنا جاٹ، ہریچن گوجر، داتا رام کلوا اور موہن اور ان کے ہمنوا دیش کو آزاد کرانے والے لیڈروں کے راز کو انگریزوں تک پہنچانے میں مصروف تھے۔

”ونایک دامودر ساورکر 1910تک ہی دیش کے لیے وفادار ی کاثبوت دیا۔ جب انہیں 1910 میں گرفتار کر کے عمر قید کی سزا سنا کر جزیرہ انڈمان بھیج دیا گیا تو انہوں نے انگریزوں کو ایک معافی نامہ لکھا کہ

آپ بڑے رحم دل ہیں، مجھے معاف کر دیجیے، میں انگریزی حکومت کے حق میں ہمیشہ وفاداری کا ثبوت دوں گا، یہ ترقی کی پہلی شرط ہے، جب ہم جیل میں ہیں تو سیکڑوں ہزراوں لوگ اپنے گھروں میں آرام سے نہیں ہیں، اگر مجھے رہا کر دیا گیا تو لوگ سرکار کے حق میں یہ نعرہ لگائیں گے کہ یہ سر کار بدلہ لینے سے زیادہ معاف کرنا اور سدھارنا جانتی ہے۔

آگے لکھتے ہیں کہ

” میں بھٹکے ہوئے نوجوانوں کو بھارت سرکار کے حق میں کام کرنے کی طرف متوجہ کروں گا۔ بھارت سرکار جیسا چاہے گی میں اس طرح کی خدمت کرنے لیے تیار ہوں، یہ میرے دل کی آواز ہے، آئندہ بھی میرا سلوک ایسا ہی رہے گا۔ مجھے جیل میں رکھنے سے جتنا فائدہ ہوگا،رِہا ہونے کے بعد جتنے فائدے ہوں گے اس کے مقابلہ میں یہ کچھ بھی نہیں ہے، جو طاقتور ہے وہی رحم دل ہو سکتا ہے، ایک ہونہار بیٹا سر کار کے دروازے کے علاوہ اور کہاں لوٹ سکتا ہے، امید ہے کہ حضور میری اس درخواست پر ہمدردانہ غور فرمائیں گے۔“

اس کے نتیجہ میں انگریز نے اسے رِہا کر دیا۔ وہ جب تک حیات رہے انگریزوں سے افاداری کا ثبوت دیے۔ انہوں نے سبھاش چندر بوس کے خلاف ہندوستانیوں کو انگریزی فوج میں بھرتی کرنے میں مدد کی۔

ساورکر کا یوگدان یہی ہے کہ انہوں نے ہندوستان میں ہندوتوا کی وہ سوچ دی جو یہاں کی جمہوریت کے خلاف ہے۔ جب کانگریس نے 1924 میں ”بھارت چھوڑو“ تحریک شروع کی تو ساورکر نے اس کی مخالفت کی اور ہندؤں کو انگریزی فوج میں بھرتی ہوکر جنگی مہارت حاصل کرنے کے لیے کہا۔ کیا اس کے باوجود ساورکر عزت کی نگاہ سے دیکھے جانے کے قابل ہے؟ انہیں مجاہد آزادی کہا جانا چاہیے؟ ساورکر کے بارے میں ”ویر“ جیسی بات کیوں؟ وہ تو 1910 کے بعد انگریزوں کے ایجنٹ ہو گئے تھے۔ وہ تو انگریزوں کی سوچ ”بانٹو اور حکومت کرو“ کی سوچ کو بڑھاو ادیتے تھے۔

نو بھارت ٹائم کی رپورٹ کے مطابق راجستھان کی کانگریس سرکارنے اسکولوں کی نصابی کمیٹی کی سفارشات کے بعد ساورکر کے نام سے ”ویر“ کا لفظ ہٹا دیا ہے، یہ بدلاؤ راجستھان کے بارہوں جماعت کے تاریخ کی کتابوں میں کیا گیا ہے۔کتاب میں یہ لکھا ہے کہ ساورکر نے برٹش گورنمنٹ کو تین معافی نامے دئے اور اس میں اپنے آپ کو پرتگال کا بیٹا بتایا ہے اور بھارت چھوڑو تحریک کی مخالفت کی تھی۔

تاریخ کی کتابوں میں بتایا گیا ہے کہ مہاتما گاندھی کے قاتل گوڈسے کے ساتھ ساور کر پر بھی مقدمہ چلایا گیا تھا؛ لیکن انہیں بعد میں بری کر دیا گیا۔ ساورکر کے آیڈیا لوجی کے مطابق کام کرنے والی آر ایس ایس اور بی جے پی کے کارکنان و ارکان جو ٹی وی چینلوں پر غدار وطن اور محب ِ وطن کی سرٹیفکٹ بانٹتے نظر آتے ہیں۔

اس سے یہ بات صاف واضح ہو جاتی ہے کہ وطن کاغدار کون ہے؟
پھر بھی…

کہتے ہیں ہم سے یہ اہل چمن
یہ چمن ہے ہمارا تمہارا نہیں

اگر کوئی شخص کسی دہشت گرد کو اس کے ظلم و ستم سے بچنے کے لیے اپنے گھر میں ایک شب یا ایک روز رہنے کی اجازت دے دیتا ہو تو وہ دہشت گرد سمجھا جاتا ہے۔ اس کو ٹی وی چینلس پرچیخ چیخ کر پورے ملک میں اسے دہشت گرد بنا دیا جاتا ہے۔

کیا بابائے قوم مہاتما گاندھی کے قاتل آزاد ہندوستان کےعظیم دہشت گرد ناتھو رام گوڈسے کی مورتی بنا کر اس کو خراج عقیدت پیش کرنے والاہندو مہا سبھادہشت گرد نہیں ہے؟کیا بی جے پی حکومت کی خاموشی اور اس کے خلاف کوئی کار روائی نہ کرنا اس کی تائید میں شامل نہیں ہے؟
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!