شخصیاتمضامین

احمد فرازؔ

احمد فرازؔ،
پیدائش
سید احمد شاہ علی
12 جنوری 1931ء
کوہاٹ، خیبر پختونخوا، پاکستان
وفات: اگست 25، 2008 (عمر 77 سال)
اسلام آباد، پاکستان
قلمی نام: فرازؔ
پیشہ: اردو شاعر، لیکچرر
قومیت: پاکستانی
نسل: پشتون سید
شہریت: پاکستانی
تعلیم: ایم اے اردو، ایم اے فارسی
مادر علمی: پشاور ماڈل اسکول
جامعہ پشاور
دور: 1950–2008
اصناف: اردو غزل
موضوع: عشق ، تحریک مزاحمت
ادبی تحریک: پروگریسو رائٹرز موومنٹ/ڈیموکریٹک موومنٹ
اہم اعزازات: ہلال امتیاز، ستارہ امتیاز نگار ایوارڈ
اولاد: 3 بیٹے: سعدی، شبلی اور سرمد فراز
رشتہ دار: سید محمد شاہ برق (والد)
سید مسعود کوثر (بھائی)

حالات زندگی

احمد فراز ( یوم پیدائش 12 جنوری، 1931ء – یوم وفات 25 اگست، 2008ء) میں کوہاٹ پاکستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید احمد شاہ ‘ تھا۔ اردو اور فارسی میں ایم اے کیا۔ ایڈورڈ کالج ( پشاور ) میں تعلیم کے دوران ریڈیو پاکستان کے لیے فیچر لکھنے شروع کیے۔ جب ان کا پہلا شعری مجموعہ “” تنہا تنہا “” شائع ہوا تو وہ بی اے میں تھے۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد ریڈیو سے علاحدہ ہو گئے اور یونیورسٹی میں لیکچر شپ اختیار کر لی۔ اسی ملازمت کے دوران ان کا دوسرا مجموعہ “” درد آشوب “”چھپا جس کو پاکستان رائٹرزگلڈ کی جانب سے ” آدم جی ادبی ایوارڈ “” عطا کیا گیا۔ یونیورسٹی کی ملازمت کے بعد پاکستان نیشنل سینٹر (پشاور) کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ انہیں 1976 ء میں اکادمی ادبیات پاکستان کا پہلا سربراہ بنایا گیا۔ بعد ازاں جنرل ضیاء کے دور میں انہیں مجبوراً جلا وطنی اختیار کرنی پڑی ۔1989 سے 1990 چیرمین اکادمی پاکستان،1991 سے 1993 تک لوک ورثہ اور 1993 سے 2006ء تک “” نیشنل بک فاؤنڈیشن “”کے سربراہ رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹی وی انٹرویو کی پاداش میں انہیں “” نیشنل بک فاؤنڈیش “” کی ملازمت سے فارغ کر دیا گیا۔ احمد فراز نے 1966 ء میں “” آدم جی ادبی ایوارڈ “” اور 1990ء میں “” اباسین ایوارڈ “” حاصل کیا۔ 1988 ء میں انہیں بھارت میں “” فراق گورکھ پوری ایوارڈ “” سے نوازا گیا۔ اکیڈمی آف اردو لٹریچر ( کینڈا ) نے بھی انہیں 1991ء میں ایوارڈ دیا، جب کہ بھارت میں انہیں 1992 ء میں “”ٹاٹا ایوارڈ “” ملا۔

انہوں نے متعدد ممالک کے دورے کیے۔ ان کا کلام علی گڑھ یونیورسٹی اور پشاور یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہے۔ جامعہ ملیہ (بھارت ) میں ان پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا گیا جس کا موضوع “” احمد فراز کی غزل “” ہے۔ بہاولپور میں بھی “” احمد فراز۔ فن اور شخصیت “” کے عنوان سے پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا گیا۔ ان کی شاعری کے انگریزی ،فرانسیسی،ہندی،یوگوسلاوی،روسی، جرمن اور پنجابی میں تراجم ہو چکے ہیں۔ احمد فراز جنہوں نے ایک زمانے میں فوج میں ملازمت کی کوشش کی تھی، اپنی شاعری کے زمانۂ عروج میں فوج میں آمرانہ روش اور اس کے سیاسی کردار کے خلاف شعر کہنے کے سبب کافی شہرت پائی۔ انہوں نے ضیاالحق کے مارشل لا کے دور کے خلاف نظمیں لکھیں جنہیں بہت شہرت ملی۔ مشاعروں میں کلام پڑھنے پر انہیں ملٹری حکومت نے حراست میں لیے جس کے بعد احمد فراز کوخود ساختہ جلاوطنی بھی برداشت کرنی پڑی۔

سنہ دوہزار چار میں جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دورِ صدارت میں انہیں ہلالِ امتیاز سے نوازا گیا لیکن دو برس بعد انھوں نے یہ تمغا سرکاری پالیسیوں پر احتجاج کرتے ہوئے واپس کر دیا۔ احمد فراز نے کئی نظمیں لکھیں جنہیں عالمی سطح پر سراہا گیا۔ ان کی غزلیات کو بھی بہت شہرت ملی۔

مجموعہ کلام

تنہا تنہا
دردِ آشوب
شب خون
نایافت
میرے خواب ریزہ ریزہ
بے آواز گلی کوچوں میں
نابینا شہر میں آئینہ
پسِ اندازِ موسم
سب آوازیں میری ہیں
خوابِ گُل پریشاں ہے
بودلک
غزل بہانہ کروں
جاناں جاناں
اے عشق جنوں پیشہ

مرے غنیم نے مجھ کو پیام بھیجا ہے
کہ حلقہ زن ہیں مرے گرد لشکری اس کے
فصیل شہر کے ہر برج ہر منارے پر
کماں بہ دست ستادہ ہیں عسکری اس کے
وہ برق لہر بجھا دی گئی ہے جس کی تپش
وجود خاک میں آتش فشاں جگاتی تھی
بچھا دیا گیا بارود اس کے پانی میں
وہ جوئے آب جو میری گلی کو آتی تھی
سبھی دریدہ دہن اب بدن دریدہ ہوئے
سپرد دار و رسن سارے سر کشیدہ ہوئے
تمام صوفی و سالک سبھی شیوخ و امام
امید لطف پہ ایوان کج کلاہ میں ہیں
معززین عدالت بھی حلف اٹھانے کو
مثال سائل مبرم نشستہ راہ میں ہیں
تم اہل حرف کہ پندار کے ثناگر تھے
وہ آسمان ہنر کے نجوم سامنے ہیں
بس اک مصاحب دربار کے اشارے پر
گداگران سخن کے ہجوم سامنے ہیں
قلندران وفا کی اساس تو دیکھو
تمہارے ساتھ ہے کون آس پاس تو دیکھو
سو شرط یہ ہے جو جاں کی امان چاہتے ہو
تو اپنے لوح و قلم قتل گاہ میں رکھ دو
وگرنہ اب کے نشانہ کمان داروں کا
بس ایک تم ہو سو غیرت کو راہ میں رکھ دو
یہ شرط نامہ جو دیکھا تو ایلچی سے کہا
اسے خبر نہیں تاریخ کیا سکھاتی ہے
کہ رات جب کسی خورشید کو شہید کرے
تو صبح اک نیا سورج تراش لاتی ہے
سو یہ جواب ہے میرا مرے عدو کے لیے
کہ مجھ کو حرص کرم ہے نہ خوف خمیازہ
اسے ہے سطوت شمشیر پر گھمنڈ بہت
اسے شکوہ قلم کا نہیں ہے اندازہ
مرا قلم نہیں کردار اس محافظ کا
جو اپنے شہر کو محصور کر کے ناز کرے
مرا قلم نہیں کاسہ کسی سبک سر کا
جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے
مرا قلم نہیں اوزار اس نقب زن کا
جو اپنے گھر کی ہی چھت میں شگاف ڈالتا ہے
مرا قلم نہیں اس دزد نیم شب کا رفیق
جو بے چراغ گھروں پر کمند اچھالتا ہے
مرا قلم نہیں تسبیح اس مبلغ کی
جو بندگی کا بھی ہر دم حساب رکھتا ہے
مرا قلم نہیں میزان ایسے عادل کی
جو اپنے چہرے پہ دہرا نقاب رکھتا ہے
مرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی
مرا قلم تو عدالت مرے ضمیر کی ہے
اسی لیے تو جو لکھا تپاک جاں سے لکھا
جبھی تو لوچ کماں کا زبان تیر کی ہے
میں کٹ گروں کہ سلامت رہوں یقیں ہے مجھے
کہ یہ حصار ستم کوئی تو گرائے گا
تمام عمر کی ایذا نصیبیوں کی قسم
مرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!