کیا ہم واقعی آزاد ہیں۔۔۔!
حا فظہ فا ریحہ مریم بنت خوا جہ سرتاج الدین، بسواکلیان
میرے وطن کے اداس لوگو!
نہ خود کو اتنا حقیر سمجھو
کہ کو ئی تم سے حساب مانگے
نہ خود کو اتنا قلیل سمجھو
کہ کوئی اٹھ کر کہے تم سے
وفا ئیں اپنی ہمیں تھمادو
اٹھو اور اٹھ کر بتا دو ان کو
کہ ہم ہیں اہل ایمان سارے،
ہمارے دل میں بس ایک خدا ہے۔
جھکے سروں کو اٹھا کے دیکھو
قدم کوآگے بڑ ھا کے دیکھو
ہے ایک طاقت تمہارے سر پر
قدم قدم پر جو ساتھ دے گی
اگر گرے تو سنبھال لے گی
اٹھو چلو اور وطن سنبھالو
ہمارا ہے یہ ہندوستان
ہم سب ہیں اسکی شان
15اگست 1947کو ہمارا ملک ایک طویل عرصے کے بعد بر طا نوی حکومت سے آزاد ی حا صل ہو ئی اور اب ہم نے آزادی کے 72سال مکمل کر لئے ہیں ہم سب کو بڑا فخر محسوس ہوتا ہے کہ ہم ہندوستان جیسے ایک جمہوری ملک کے شہری ہیں،جسکی گنگا جمنی تہذیب پر ساری دنیا رشک کرتی ہے ہمیں اس ملک میں ہمارے اپنے طر یقے سے رہنے کے حقوق بھی حا صل ہیں لیکن کیا ہم اس ملک میں آزاد ہیں؟
1947سے پہلے ہندوستان پر برطا نوی حکومت تھی اور ہندوستانی ان کی غلام بن گئے تھے،آج ہندوستان ایسی پارٹیوں یا ایسے برائیوں کے زیر حکو مت ہے جو ہم پر حکو مت کر رہی ہے ہمارے حقوق کو ٹکرے ٹکرے کر رہی ہے۔اگر ہم گذ شتہ کچھ سا لوں میں اپنی نظر ڈوڑا تے ہیں تو کچھ باتیں کھل کر سا منے آتی ہیں۔
خاص کر مسلما نو ں کے تعلق سے با بری مسجد سے لے کر تبریز انصاری تک۔ جے این یو سے ایک مسلمان نجیب کا اچا نک غا ئب ہو جانااور نجیب کی والدہ کو انصا ف ملنے سے پہلے کیس کو بند کیا گیا،چھوٹے چھوٹے معصوم لڑکیوں جیسے آصفہ جو گھر سے کچھ دیر کے لئے با ہر آئی تھی عصمت دری کا واقعہ،طلاق ثلاثہ کے نام پر مذ ہب میں مدا خلت،گاؤ کشا ئی کے نام پر قتل،مد ھیہ پر دیش،گرو گرام اور حال ہی میں دلی میں جئے شری رام کے نارے نہ لگوا نے پر انتہائی حیوا نیت کے ساتھ قتل عام
ان تمام مجرمانہ حا دثات اور مجرمین کی نشاند ہی ہو جانے کے بعد بھی کو ئی معقول کا روا ئی نہیں ہو ئی یہ وہ واقعات ہیں جو منظر عام پر ہیں اس کے علا وہ ایسے بہت سے حا دثا ت ہیں جو مسلمانوں کے سا تھ پیش آرہے ہیں۔
اس کے برعکس اگر کوئی حا دثہ رونما ہو تو مسلمانوں کو بنا کوئی ثبوت دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔ آخر یہ سب کیا ہے؟ یہ حا دثا ت اس جمہوری ملک میں ہو رہے ہیں جس کے دستور میں ہر شہری کو سیا سی،معا شی اور مذہنی حقوق حا صل ہیں۔ کن مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دے رہے ہیں یہ لوگ جن سے آزادی کی لڑائی شروع ہوئی،جس مسلمان کے ہاتھوں سے بنا ترنگا اس ملک کی پہچان ہے۔
آزادی کی لڑا ئی دو چار یا بیس لوگوں کی قر با نیوں کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ آج ملک کو اس مقام تک لانے کے لئے بے شمار لو گوں نے اپنی جان سے ہاتھ دھو ئے ہیں،جن کا ہم نام تک نہیں جا نتے۔مسلمانوں نے انگر یزوں کے خلاف جو جنگ لڑی وہ ایک مثال کی حیثیت رکھتی ہے۔یہاں آج جو بھی رہتا ہے وہ برابر کا حصہ دار ہے ہر فر قے نے آزادی کی لڑا ئی لڑی۔
لیکن افسوس کہ جن مسلمانوں نے ملک کو آزادی دلانے کے لئے نہ صرف اپنا خون بہایا بلکہ اپنا سب کچھ قربان کردیا افسوس کے آج ان ہی مسلما نوں کو کبھی د ہشت گردی کے نام پر،کبھی گا ئے کے نام پر پریشان کیا جا رہا ہے اور ہماری قربا نیوں کو نظر انداز کیا جا تا ہے۔ ہما رے حقوق اب ٹو ٹتے بکھیر تے نظر آرہے ہیں اور یوں محسوس ہو تا ہے کہ اس ملک کی گنگا جمنی تہذیب خطرے میں ہے۔
کچھ برا ئیاں اس وطن کو بر باد کرنا چا ہتے ہیں۔ آزادی کے71برسوں میں مسلمان ووٹ بینک کا حصہ تو بنے لیکن سیا سی سطح پر مضبوطی کی علا مت نہیں بن سکے۔ افسوس!ہم پر خود کو دھوکہ دے رہے ہیں کہ ہم آزاد ہیں۔ یہ آزادی ہمیں بھیک میں تھوڑی ملی ہے ہمارے بزرگوں نے اپنی جانیں قربان کرکےاس کی قیمت ادا کی ہے۔
میرے وطن کے اداس لوگو!
نہ خود کو اتنا حقیر سمجھو کہ کو ئی تم سے حساب مانگے،نہ خود کو اتنا قلیل سمجھو کہ کوئی اٹھ کر کہے یہ تم سے وفا ئیں اپنی ہمیں تھما دو اٹھو اور اٹھ کر بتا دو ان کو کہ ہم ہیں اہل ایمان سارے،ہمارے دل میں بس ایک خدا ہے،جھکے سروں کو اٹھا کے دیکھو قدم کوآگے بڑ ھا کے دیکھو،ہے ایک طاقت تمہارے سر پر،قدم قدم پر جو ساتھ دیگی،اگر گرے تو سنبھال لے گی ،اٹھو چلو اور وطن سنبھالو۔
ہم مسلمانوں کو ایک ہو نے کی ضرورت ہے۔ ہمیں خوف کے دا ئرے سے باہر نکلنا ہو گا، ہمیں ظلم و زیا دتی کے خلاف اپنی آواز بلند کرتے رہنا پڑ یگا اور یہ لڑا ئی جا ری رکھنی ہو گی، جو کام نفر ت نے نہیں کیا وہ کام محبت بھی کر سکتی ہے۔ ہر صورت کا سا منا مسلما نوں کو تحمل اور اتحاد سے کر نا ہوگا، اس وقت تک معا شرتی برا ئیوں اور شر پسندعنا صر سے آزادی حا صل کرنی ہوگی جب تک کہ اس ملک کی زمین پاک نہ ہو جائے۔
ورنہ صرف 15اگست کو جھنڈا لہرا کر اور موم بتیا ں سلگا کر خود کو دھو کہ دے لیا کیجئے کہ ہم آزاد ہیں۔