مذہبیمضامین

بہار ہو کہ خزاں، لا الہ الا اللہ۔۔۔

حسین شہباز، نظام آباد

تمام تعریفیں اس پروردگار عالم کے لئے ہیں جس کی مدعت تک بولنے والوں کی تکلم کی رسائی نہیں ہے اس کو گننے والے شمار نہیں کرسکتے ،نہ ہمتوں کی بلندیاں اس کا ادراک کرسکتی ہیں، نہ ذہنتوں کی گہرائیاں اس کی تہہ تک پہنچ سکتی ہیں، بے شک اللہ ہر شہ پر قدرت رکھتا ہے ۔ یہ وہ بادشاہ ہے جس کا کوئی شریک نہیں، ہر تشبیہ سے پاک ہے۔ اس کے جیسا کوئی نہیں ہے، یہ خیال کی پرواز سے بھی بلند ہے حادثات اس پر اثر انداز نہیں ہوتے ،زمانے کے انقلابات کا اس کو کوئی خوف نہیں ہے، اس کے جیسا کوئی نہیں ہے۔ اس کے جیسا کوئی معبود نہیں ہے ،اس کے جیسا کوئی پالنہار نہیں ہے ، اس کا کوئی وزیر نہیں ہے،اسکا کوئی مشیر نہیں ہے ،اسکا کوئی دربان نہیں ہے جسے رشوت دی جائے اس تک پہنچنے کے لئے ۔ اس کے لیے کوئی عورت نہیں ہے ، اس کا کوئی فرزند نہیں۔

لیکن یاد رہے کی وہ ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے، ہاں وہ ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔۔۔۔لیکن شرط یہ ہے کہ اللہ الہ الا اللہ ہماری زبانوں تک محدود نہ ہو بلکہ وہ ہمارے سینوں میں محفوظ ہو وہ اس کی صرف قولی نہیں بلکہ عملی شہادت بھی دیتے ہو۔۔۔۔کسی شاعر نے اس کو بہت اچھے انداز میں سمجھایا ہے۔۔

"زبان نے کہہ بھی دیا لا الہ الا اللہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں”.

دوستوں دراصل انسانی زندگی ایک کشمکش کا نام ہے جو انسان کے اس دنیا میں قدم رکھنے سے لے کر اس کی رخصتی تک اسے کرنا ہے۔

انسان اپنی زندگی میں کئی چیزوں سے گزرتا ہے۔ کبھی اسے غم گھیرلیتے ہیں، تو کبھی خوشی اس کا ہاتھ تھام لیتی ہے، کبھی ناکامی کبھی کامیابی، کبھی خوشحالی توکبھی تنگدستی، کبھی غلبہ تو کبھی مغلوبیت اور یہی معاملات میں انسان الٹ پھیر ہو جاتا ہے۔ اور یہی معاملات دنوں مہینوں اور سالوں کے ترجمان بن جاتے ہیں۔ اور ایسے حالات میں انسان اگر چاہے تو خوشی اور غم دونوں حالتوں میں اپنے رب کا شکر ادا کر سکتا ہے یا صرف نا امیدی کا شکار ہوکر مایوسی میں اپنے تعلقات رب زلجلال سے کمزور کر لیتا ہے آخر کا سب انسان کے اختیار میں ہیں جیسا عمل وہ چاہے کرسکتا ہے۔

ہاں یہ بات درست ہے کہ انسانی زندگی کشمکش کا نام ہیں ، لیکن کامیاب وہ ہے جو ہر حال میں اپنے رب کو یاد رکھتے ہیں اسی کی فرمانبرداری کرتے ہیں اسی سے ہی مناجات کرتے ہیں ، ایمان اور توحید کے ان تقاضوں کو پورا کرتے جن کا ایک مومن کو پاس رکھنا چاہیے ، اور ہمیشہ اللہ ہی سے لو لگاتے ہیں اور اس کے احکامات بجا لاتے ہیں چاہے ان کی انفرادی اور اجتماعی حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں۔
قرآن ان لوگوں کی تصویر اس انداز میں پیش کرتا ہے۔

رِجَالٌ لا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالأبْصَارُ

اُن میں ایسے لوگ صبح و شام اُس کی تسبیح کرتے ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ کی یاد سے اور اقامت نماز و ادائے زکوٰۃ سے غافل نہیں کر دیتی وہ اُس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جسمیں دل الٹنے اور دیدے پتھرا جانے کی نوبت آ جائے گی۔(النور: 37)

الَّذِينَ يُنْفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ

جو ہر حال میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں خواہ بد حال ہوں یا خوش حال، جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کر دیتے ہیںایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں۔ (آل عمران: 134)

اور ایک وہ جو مطلبی اور موقع پرست ہوتے ہیں ‘جب اچھا ہو تو رب بھی اچھا اور رب سے تعلق بھی اچھا‘ اور اگر برا ہوا تو سب برا،
قرآن مجید اس منفی طرز عمل کو یوں پیش کرتا ہے:

فَأَمَّا الإنْسَانُ إِذَا مَا ابْتَلاهُ رَبُّهُ فَأَكْرَمَهُ وَنَعَّمَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَكْرَمَنِ ۖ وَأَمَّا إِذَا مَا ابْتَلاهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَهَانَنِ

انسان کا حال یہ ہے کہ اس کا رب جب اُس کو آزمائش میں ڈالتا ہے اور اُسے عزت اور نعمت دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت دار بنا دیا۔ اور جب وہ اُس کو آزمائش میں ڈالتا ہے اور اُس کا رزق اُس پر تنگ کر دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے ذلیل کر دیا۔ (الفجر: 15 -16)

دراصل یہ پہلو دور حاضر کے انسانی رویے سے مخاطب ہے کہ کیا یہی وہ انسان ہے جو اللہ عزوجل کی بے شمار نعمتوں سے فائدہ اٹھا رہا ہے ؟ ۔ پھر کیوں اس کا توازن اپنے رب کے معاملات میں خوشی اور غم کے موقع پر بگڑ جاتا ہے ۔ ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ خوشی کے موقع پر ہمارے رویے کیا ہوتے ہیں۔۔۔

حالانکہ اہل ایمان کو اس سلسلے میں واتقواللہ کہہ کر بطور خاص تاکید کی گئی ہیں لیکن کیا کہیں کہ موسم بہار( مسرت و شادمانی) کے وقت پر ان کی خوشی منانے کی حدیں و تمام حدود پار کر جاتی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول نے متعین کی ہیں۔
اورجب ہم ہیں اس سے ہٹ کر پریشانی ؛ مظلومی اور مغلوبیت کی بات کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس وطن عزیز میں ہمارے حالات کچھ مختلف وہ عجیب ہیں کہ ایک طرف اسلام مساوات کا درس دے رہا ہے نبی کی سنتیں یاتحاد و محبت کی طرف اشارہ کر رہی ہیں لیکن اس کے مطابق ہمارے اندر جو مساوات و اتحاد ہونا چاہیے تھا اس کی بڑی کمی محسوس ہو رہی ہے۔

ہمارے قائم کردہ مسالک و مکاتب اور ہمارے ادارے آپس میں باہمی تعاون کے لیے حجاب بنتے نظر آرہے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج چھوٹی چھوٹی برادریاں ریاستی و قومی سطح پر اپنی شناخت بنانے میں کامیاب نظر آتی ہیں لیکن افسوس صد افسوس کہ ہم اس ملک میں کروڑوں کی تعداد میں ہونے کے باوجود بھی نہ ہمارا کوئی سماجی طور پر وزن محسوس کیا جاتا ہے اور نہ ہی سیاسی طور پر اور نہ ہی تعلیمی وہ معاشی نظام کی کوئی کارکردگی ہمارے سامنے آتی ہیں ۔

دراصل یہ سب ہماری لاتعلقی اور دینی احکامات سے کے متعلق بے حسی ہے۔ جس نے ہمیں بہت پیچھے ڈھکیل دیا ہے۔

عزیز ساتھیو دراصل ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس ضمن میں میں اپنے ذہن کو دوڑائیں اور اس بات کا جائزہ لیں کہ ہماری جتنی بھی عمر ہے اس میں سے ہم نے کتنے معاملات کا فیصلہ اللہ کے قانون کے حساب سے کیا اور ہم نے کتنی مرتبہ مایوسی کا شکار ہوتے ہوئے غم کے موقع پر اپنے رب سے دوری اور اپنے رب سے تعلقات کو کمزور کر لیااور پھر ایسی کتنی خوشیاں ہم نے منائی ہے جس میں ہم نے اپنے رب کا کوئی شکر ادا نہیں کیا۔۔۔؟ اصل دوستو ہم کئی مرتبہ وسائل کی تلاش اور وسائل کی فکر میں اپنے خدا سے تعلق کو کمزور کر بیٹھتے ہیں۔دراصل تمام وسائل کو پیدا کرنے والا ہی اللہ رب العزت ہی ہیں لیکن ہم اسی سے دوری اختیار کرتے ہیں اور پھر مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔

دوستوں ایک بات یہ کہ بحیثیت مسلمان ہم اپنے رب سے جان و مال کا سودا کر چکے ہے ہمارے رب نے ہمارے جان اور مال جنت کے بدلے خرید لئے ہیں اس کا ظاہری مطلب‌ یہی ہو سکتا ہے کہ ہماری ذات پر ہمارے اس جسم پر ہمارے مال پر ہم سے زیادہ حق اللہ رب العزت کا ہے کیونکہ اس نے ہمیں خرید لیا ہے ، ہم اپنے رب کو بک چکے ہیں اور وہ لوگ جو بک جاتے ہیں ان کی کوئی مرضی یا خواہش اور تمنا نہیں ہوتی بلکہ وہ تو اپنے رب کی پسند کو اور ناپسند کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیتے ہیں ہے اور ہر حال میں صرف اللہ کے رنگ میں رنگنے کی بات کرتے ہیں اور ایسے ہی لوگوں کے لیے قرآن زمین و آسمان جتنی انعامات کی بات کرتا ہے۔۔۔۔۔
اور انہی کی ایمانی و اخلاقی بلندیوں کو قرآن اس طرح سے ظاہر کرتا ہے

….مَا مَکَّنِّیْ فِیہِ رَبِّیْ خَیرٌ….

جو کچھ میرے رب نے مجھے دے رکھا ہے وہ بہت ہے۔ الکھف : ۹۵

… لَّنْ یُّصیبَنَآ اِلاَّ مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَنَا ج ھوَ مَوْلٰنَا….

ہم پر کوئی مصیبت نہیں آتی مگر وہی جو اللہ نے ہمارے مقدر میں لکھ رکھی ہے۔ وہی ہمارا حامی و مددگار ہے۔ التوبۃ : ۵۱

….مَا لَنَآاَلاَّ نَتَوَکَّلَ عَلَی اللّٰہِ وَقَدْ ھَدٰ نَا سُبُلَنَا….

ہم کیوں نہ اللہ پر بھروسہ کریں جب کہ ہماری زندگی کی راہوں میں اس نے ہماری رہنمائی کی ہے۔
ابراھیم : ۱۲

بہار ہو کہ خزاں لاالہ الا اللہ کا نغمہ ایسے ہی بے لوث بندگان خدا سے ممکن ہے کہ جوحالات کی ناسازگی اور سازگاری کو نہیں دیکھتے ، جو فرعون کے سامنے بھی اللہ کے سپاہی بن کر کھڑے ہوتے ہو ،جو اپنی زندگی کے تمام معاملات کو اللہ کے حضور پیش کرتے ہیں،جو کہ لا الہ الا اللہ کی عملی شہادت دینے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں ، جو اپنے اوپر واجب ذمہ دار
پاس رکھتے ہو، ۔۔۔۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے والا بنائے اللہ تعالی ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر قائم ودائم رکھے۔اور ہمارے مسائل کو حل فرمائیں۔اور اللہ کے دین کے نفاذ کے لیے جدوجہد کرنے والا بنائے۔۔۔۔آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!