ملک کے بدلتے حالات اور ملت اسلامیہ کا لائحہ عمل
ساجد محمود شیخ
اس وقت وطن عزیز کے حا لات بہت تیزی سے بدل رہے ہیں اور مسلمانوں کو سخت آزماٸشوں کا سامنا ہے۔ ملک میں ایسی جماعت حکمران ہے جسے مسلمانوں سے تھوڑی سی بھی مروت نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ پریشان کرنا ہی اس کا محبوب مشغلہ ہے تاکہ اکثریتی ووٹوں کا ارتکاز ہو اور شدت پسند ووٹ بینک کو خوش کیا جاۓ۔ مسلمانوں کو معاشی سیاسی اور سماجی سطح پر کمزور کرکے انتہائی پسماندہ بنانا ان کا خفیہ ایجنڈا ہے ۔
طلاق ثلاثہ کی آڑمیں شریعت میں مداخلت کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے ۔آگے کیا حالات درپیش ہوں گے اور حکومت کے اقدامات کیا ہوں گے یہ کوٸی نہیں جانتا ۔مگر ایک بات تو سب کی سمجھ میں آرہی ہے کہ آگے کا سفر آسان نہیں ہے انتہائی دشوار گزار ہے ۔ اس وقت مسلمانوں کو خوفزدہ یا مشتعل ہونے کے بجاۓ انتہائی صبروتحمل اور باریک بینی سے حالات کا جاٸزہ لینا چاہیئے اور ان مشکلات سے نمٹنے کے لۓ کوٸی لاٸحہ عمل طے کرنا ہوگا۔
راقم الحروف کے ذہن میں دس ایسے کام ہیں جن کی بدولت ہم ان حالات کا مقابلہ کرسکتے ہیں ۔
ہمارا پہلا بڑا مسٸلہ خود اپنی جان و مال کا تحفظ ہے ۔آۓ دن ملک کے کسی نہ کسی کونے میں ہجومی تشدد کا کوٸی نہ کوٸی واقعہ رونما ہو رہا ہے فرقہ پرست یہ چاہتے ہیں کہ مسلمان روز روز کے واقعات سے خوف و ہراس کی زندگی گزر بسر کریں یا پھر مشتعل ہو کر جوابی کارواٸی کریں اور ان فرقہ پرستوں فساد برپا کرکے بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا جانی و مالی نقصان کرنے کاموقع ملے ۔اس معاملے میں تحمل سے کام لینے ضرورت ہے اور قانونی طریقہ سے اس کاحل نکالنا ہوگا ۔ ملک گیر سطح پر ریاستی سطح پر ایک ایسی ٹیم تیار ہونا چاہیئے جب بھی کوٸی واردات ہو یہ ٹیم فوراً متاثرین سے ملاقات کرکے قانونی کارواٸیوں میں ان کی مدد کرے اور ہر حسب ضرورت ہر قسم کا تعاون دے ۔
دوسری اہم بات دستاویزات کی تیاری پر بھی مسلمانوں کو دھیان دینے کی ضرورت ہے ۔ابھی حال ہی مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ میں بیان دیا کہ پورے ملک میں این آر سی کو نافذکیا جاۓ گا جو کہ اس سے پہلے آسام تک محدود تھا اور آسام میں اس کی وجہ سے مسلمانوں کو بہت پریشانیوں سے گذرنا پڑا یہاں تک برسوں تک فوج میں ملازمت کرنے والے انعام یافتہ فوجی کو بھی غیر ملکی قرار دے کر جیل میں ڈالا گیا ۔ اب یہی این آر سی پورے میں نافذکرنے کی بات ہورہی ہے اس مطلب اب پورے ملک کےمسلمانوں کو ایک نٸی آزمائش سے دوچار ہونا ہے ۔اس لۓ ہم کو ابھی سے اس کی تیاری شروع کردینا چاہیئے اور اپنے بنیادی دستاویزات مثلاً پیدائش سرٹیفکیٹ رہائشی ثبوت اور دیگر بنیادی دستاویزات کو تیار کرنا اور اس موجود غلطیوں کو درست کرنا ہوگا مسلم قیادت اور ملی تنظیموں کو چاہیئے کہ اپنے دفاتر میں رہنمائی کے مراکز قاٸم ل کریں جہاں تربیت یافتہ افراد لوگوں کی رہنمائی کے لۓ ہمہ وقت دستیاب ہوں ۔
تیسرا مشورہ یہ ہیکہ مساجد کو سماجی تبدیلی کا مرکز بنایا جاۓ ۔نساجد صرف نماز پڑھنے کی جگہ نہ ہو بلکہ اسلامی کمیونٹی سینٹر کی طرز پر وہاں فلاحی کام بھی شروع کۓ جاٸیں وہاں غریبوں کے کھانے کا انتظام ہو خاندانی تنازعات اور ڈپریشن میں الجھے لوگوں کی کاٶنسلنگ ہو ۔
چوتھا مشورہ فلاحی کاموں سے متعلق ہے اب مسلمان فلاحی کاموں پر بھی دھیان دیں بہت ہو چکا مساجد کی درودیوار کے رنگ و روغن ،بیت الخلاء کے سنگ مرمر قمقموں فانوس و جھومر اٸیرکنڈیشن اور نفیس قالینوں پر کروڑوں روپیۓ خرچ کرنے کے ۔وہ بھی مناسب حد تک کرتے رہیں مگر اب وقت آگیا کہ اپنی رجیحات بدل کر کچھ ضروری جگہوں پر بھی دھیان دینےکی ۔مدد مانگنے والوں کی مناسب تحقیق کے بعد اجتمائی اور انفرادی مدد کی جاۓ ۔اپنے ٹرسٹوں کے شاندار اسپتال ، اسکول اور کالج قاٸم کریں ۔ضرورت ہیکہ ایک بار پھر سر سید پیدا ہو۔
پانچويں بات یہ کہ ہم اپنے خانگی تنازعات کو دارالقضاء کے ذريعے نمٹاۓ ۔ عدالتوں میں وقت اور پیسوں کی بربادی ہوتی ہے اور یہ معاملات میڈیا کے توسط سے جگ ہنساٸی کا سبب بھی بنتے ہیں۔
چھٹی توجہ اس جانب دلانا ہیکہ منشيات مسلم معاشرے کا ناسور بنتا جارہا ہے اس کی وجہ سے نوجوان نسل تباہ ہورہی ہے ۔جن کے کاندھوں پر ملت کے تحفظ کا دارومدار تھا اب وہی نوجوان باعث شرمندگی بنے ہوۓ ہیں ۔اسکول کے زمانے سے ہی ان کی نگرانی اور کاٶنسلنگ کی ضرورت ہے۔
سات واں معاملہ مسلم دوشیزاٶں کے ارتداد کی جانب بڑھتے قدم ہیں ۔باقاعدہ ایک سازش کے تحت مسلم لڑکیوں کو محبت کے دلفريب جال میں پھنسانا کر ان کی عزت کی دھجیاں اڑانا پھر انھیں بے سہارا چھوڑدينا اب ایک فیشن بنتاطجا رہا ہے ۔ان کاٶنسلنگ کرکے ان کو ان خطرات سے آگاہ کرنےکی ضرورت ہے ۔
آٹھویں تجویز انتخابی فہرست سے متعلق ہے ۔ہماری سیاسی بے وزنی کی ایک وجہ انتخابات میں راۓ دہی میں کم شرح بھی ہے ۔ اول تو نصف سے زاٸد مسلمانوں کے نام انتخابی فہرست میں نہیں ہوتے اور جن کے نام ہوتے ہیں وہ بھی غلط طریقہ سے لکھے ہوتے ہیں اور غلط پتے پر ہوتے ہیں ۔ہر سال ماہ ستمبر سے نومبر کے درمیان انتخابی فہرست کی درستی کا کام ہوتا ہے اس کے علاوہ سال بھر آن لاٸن سہولت میسر ہوتی ہے ہمیں چاہیئے کہ ہم پہلی فرصت میں اس کام کو انجام دیا جاۓ ۔
نویں تجویز سوشل میڈیا کے بارے میں ہے ۔سوشل میڈیا خبروں کی ترسیل کا سب سے آسان اور سستا ذریعہ ہے اور کم و بیش آج کے زمانے میں ہر فرد کے پاس دستیاب بھی ہے ۔اس کا فاٸدہ فرقہ پرست اٹھا رہے ہیں اور لگاتار نفرت پھیلانے والا مواد واٸرل کر رہے ہیں ۔ہمیں غلط فہمیوں کے ازالہ کے لۓ ان کا مدلل جواب دینا چاہیئے ۔ہمارے میں کچھ لوگ اس کام کے لۓ فارغ ہوں۔
دسویں گفتگو سماجی روبط پر ہے ۔ہم سماج سے کٹتے جارہے ہیں جس کی وجہ سے دوریاں بڑھتی جارہی ہیں ۔ہم لوگوں سےملنا شروع کریں ۔سماجی تقریبات میں شریک ہوں ۔اس طرح دونوں فرقوں کےدرمیان نفرت کی جو دیوار حاٸل ہے وہ گر جاۓ گی اور فرقہ پرستوں کی سازشیں ناکام ہو جاۓگی۔
اگر ہم تسلسل کے ساتھ کوششیں کرتے رہیں تو بعید نہیں کہ ہم ان آزماٸشوں میں بھی ثابت قدم رہیں گے اور قدرت بھی ہماری خطاٶں کو درگذر کرکے ہماری نصرت کرے گی۔ ورنہ۔۔۔۔
تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں