صحافیوں کے مسائل حل کرناحکومت اور صحافیوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے
کرناٹک اسٹیٹ اردوورکنگ جرنلسٹس فیڈریشن، بھالکی کے زیراہتمام ”یوم ِ صحافت“سے اردو اور کنڑاصحافیوں کاخطاب
بیدر: 31/جولائی (وائی آر) اردو رپورٹرس نے کنڑا والوں کو دعو ت د ے کر انھیں تہنیت پیش کی ہو، میں نے ایسا منظرآج سے قبل نہیں دیکھا۔بھالکی مین کیاگیاقابل تقلید کام پوری ریاست میں ہوناچاہیے۔ یہ بات مسٹر جے راج دھابشٹی رپورٹر کنڑا روزنامہ اودئے وانی نے اپنے خطاب میں کہی۔ وہ آج31/جولائی چہارشنبہ کو حسینی مسجدکے فنکشن ہال متصل بس اسٹائنڈ بھالکی میں کرناٹک اسٹیٹ اردو ورکنگ جرنلسٹس فیڈریشن (KSUWJF)شاخ بھالکی کی جانب سے منعقدہ ”یومِ صحافت“میں مہمان کی حیثیت سے خطاب کررہے تھے۔
اس تقریب کی صدارت جناب سیدیداللہ حسینی صدر KSUWJFبیدر نے کی۔ جبکہ مہمان خصوصی میں ٍاشوک راجولے صدر بھالکی پریس، سلیم الدین چودھری صدر کالی مسجد، جناب عبدالسلیم سابق کونسلراور صدر عیدگاہ بھالکی، جناب نصیرالدین (مبصر، ظہیرآباد) شامل تھے۔
جناب محمدیوسف رحیم بیدری سکریڑی یاران ادب بیدر نے اپنے خصوصی خطاب میں تفصیل سے اردو صحافت کی تاریخ بتائی اور کہاکہ اردو صحافت کا آغاز جام جہاں نما اخبار سے ہواجو کلکتہ سے شائع ہوا۔ اس کے مالک ہری ہر دت تھے جبکہ اس اخبار کے مالک منشی سداسکھ تھے۔ گویا ہندودانشوروں نے اردو صحافت کا آغاز کیا۔ اس وقت مسلمانوں کی زبان فارسی تھی۔ آزادی تک بھی ہندوحضرات اردوزبان وادب سے وابستہ رہے۔ اس کے بعد کی ملکی سیاست نے ہندواورمسلمانوں کو ہندی اور اردو دوزبانوں میں بانٹ دیا۔اورایک دوسرے سے دور کردیا۔
موصوف نے صحافیوں کے مسائل پر بات کرتے ہوئے کہاکہ آج کچھ صحافیوں کی مایوسی اور کچھ حدتک حکومت کی لاپروائی کے سبب صحافیوں کو وہ سہولتیں میسرنہیں ہیں جو صحافیوں کے لئے ضروری ہیں۔ ایکریڈیشن کارڈ، بس پاس، ہیلتھ کارڈ اور رہائش کے لئے مکانات کانہ دیا جانا یہ وہ مسائل ہیں جنھیں حل کرنا حکومت کی اور صحافیوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اس ضمن میں کنڑا صحافیوں کاساتھ اردو صحافیوں کے لئے ضروری ہے۔
موصوف نے نہایت ہی افسوس کے ساتھ کہاکہ میں نے کسی ورکنگ جرنلسٹس کاذاتی مکان نہیں دیکھا۔ کیونکہ صحافت ایک خدمت ہے لیکن خدمت کا یہ مطلب بھی نہیں کہ خدمت کرنے والے کے پاس اس کا اپنا ذاتی مکان بھی نہ ہو۔اس بات پر بھی انھوں نے زوردیاکہ صحافی آزاد ہوتاہے اس کو کارپوریٹ دنیا یا حکومت اپنے نیچے دبا کرنہیں رکھ سکتی۔ مسٹر وجے کمار پرما ایڈیٹر کنڑی روزنامہ ”وشوابھارت“ بیدرکے پرمغز خطاب کالب لباب یہ تھاکہ صحافی کی جیب خالی ہوتی ہے لیکن اس کامرتبہ بڑا ہوتاہے۔
اسی مرتبہ کی لاج رکھنا صحافی کاکام ہے۔ مسٹر چندرکانت پاٹل ایڈیٹر ”درشٹی“ بھالکی نے اپنے طویل خطاب کاآغاز سلام سے کیا۔ اور کہاکہ یوسف رحیم بیدری نے جو کچھ کہاہے اب اور کچھ کہنے کی ہمیں ضرورت نہیں ہے۔ صحافی کی حالت کا بیان انھوں نے جوکچھ کیاہے۔وہ حقیقت ہے۔ میڈیا والوں کو بس پاس اور ریل پاس ملناچاہیے۔ پہلے ملتا تھالیکن اب وہ سہولت اس لئے نہیں ہے کہ ہم خود اپنے مسائل کے حل کے لئے حکومت سے رجوع نہیں ہوتے۔
موصوف نے کنڑا، ہندی یااردو صحافیوں میں کوئی فرق نہیں بتاتے ہوئے کہاکہ ہم سب ایک سمان ہیں۔ بیدرکے محکمہ اطلاعات وتعلقات عامہ کے آفیسر، تعلقہ جات کے ایم ایل اے سے مل کر اگر ہم متحدہ طورپرکام کرتے ہیں تو تمام سہولتیں ایک دن ضرورملیں گی۔ پہلی دفعہ بھالکی کی کالی مسجد کے احاطہ میں کنڑا کے صحافیوں کو تہنیت پیش کی گئی ہے ہم اس کے لئے مبین بھائی (محمدنبی) کے شکرگذار ہیں۔
اس موقع پر بھالکی، بید ر، یادگیر اور بسواکلیان سے تشریف لائے تمام مذکورہ صحافیوں کے علاوہ سنتوش ہڑپد،دلیپ جوڑدابکے،جناب محمدنعیم الدین چابکسوار، جناب میر اقبال علی، جناب خواجہ سرتاج الدین،جناب سید اکبر علی اور محمدکیف کی شالپوشی اورگلپوشی محمدیوسف رحیم بیدری، محمد عبدالصمد منجووالا، جناب محمدنبی، جناب عبدالسلیم، جناب سیدیداللہ حسینی، جناب سلیم الدین چودھری کے ہاتھوں عمل میں آئی۔
بعدازاں پروگرام کے داعی جناب محمدنبی کی شالپوشی اور گلپوشی خصوصی طورپر کی گئی۔اور کنڑی داں صحافیوں نے ان کی جانب سے کئے گئے اس پروگرام کو بے حد سراہا۔ پروگرام کاآغاز مدرسہ کے طالب علم کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ پروگرام کے داعی صحافی جناب محمدنبی کے اظہار تشکر اور ریفرشمنٹ کے بعد ”یومِ صحافت“ اپنے اختتام کوپہنچا۔