تعلیمیمضامین

مجبور اساتذہ کی مزدوری، مزدور سے کم، کیا یہ پرائیویٹ اسکول مینجمنٹ کا استحصال نہیں!

ابوفہد

صرف مساجد، مدارس اور اردو اخبارات ورسائل سے وابستہ حضرات ہی کا یہ حال نہیں ہے کہ انہیں آٹھ نو گھنٹوں کی جاب کے محض چار پانچ ہزار روپئے ماہانہ دیئے جاتے ہیں ، ہندوستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں کے تمام چھوٹے بڑے پرائیویٹ اسکولوں کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے ۔ یہاں دہلی میں جو ملک کی راجدھانی ہے اور جہاں مہنگائی ملک کے دوسرے تمام شہروں سےزیادہ ہے، یہاں کئی محلے ہیں جہاں زیادہ ترمسلمان ہی رہتے ہیں ، ان محلوں کی ہر گلی کے ہر موڑ پر ایک چھوٹا یا بڑا سکول ہے۔ آپ کبھی ان اسکولوں میں جاکر دیکھ لیں۔ یہاں دنیا بھر کے خرچے ہیں، ہزاروں روپئے ماہانہ کی فیس ہے، تین تین ڈریسیں ہیں، گرمیوں کی الگ، سردیوں کی الگ اور جمعہ کی الگ۔ پکنک ہے اور پارٹی شارٹی ہیں،مگر جو چیز یہاں بھی نایاب ہے وہ اساتذہ کی تنخواہیں ہیں۔

ان اسکولوں کے ذمہ داروں نے زیادہ تر نو عمرلڑکیوں کو رکھا ہوا ہے ، جن میں سے زیادہ تر غریب گھرانوں سے ہیں اورمحض اپنے جیب خرچ کے لیے ٹیچر بن گئی ہیں یا پھر اس نیت سے کہ ان کا کچھ علمی فائدہ بھی ہوجائے گا۔ اور یہ ان سے بیگار لیتے ہیں، اور تنخواہ کے نام پر محض چار پانچ ہزار روپئے دیتے ہیں۔ حتی کہ جن اسکولوں میں ہزاروں کی تعداد میں طلبہ پڑھتے ہیں اور ہزاروں روپئے ماہانہ فیس اداکرتے ہیں، ان اسکولوں میں بھی ٹیچرس کی تنخواہیں محض پانچ چھے ہزار ہی ہیں ۔ اس پر طرفہ یہ ہے کہ غیر حاضری کی صورت میں تنخواہ بھی منہا کر لی جاتی ہے ۔

ان ٹیچرس سے تعلیم کے علاوہ دیگر کام بھی لئے جاتے ہیں ، ماہانہ ٹیسٹ، سالانہ اورششماہی امتحان کی ساری ذمہ داریاں انہی ٹیچرس کے ذمے ہیں۔ اسی طرح بچوں کی دیکھ بھال ،سالانہ پروگروامز اور سائنس ایگزیبشن کی تمام ذمہ داریاں بھی یہی بے چاری نو عمر استادنیاں ہی اٹھاتی ہیں ۔ان اسکولوں کی ایک بڑی بیماری یہ بھی ہے کہ یہ ان لڑکیوں کو مستقل نہیں رکھتے، ان پر اتنا پریشر بناتے ہیں کہ وہ خود سال دو سال میں اسکول چھوڑ دیتی ہیں، نہیں تو یہ خود انہیں نکال دیتے ہیں۔ اگر کوئی ٹیچر انتظامیہ کا کوئی مطالبہ نہیں مانتی اور تیزی دکھاتی ہے تو پرنسپل اسے اپنی دراز سے موٹی فائل نکال کر دکھاتی ہے جس میں جاب کی اپیلی کیشن اوربائیو ڈاٹا محفوظ ہوتے ہیں ۔اور اس طرح اس ٹیچر کو ڈرایا جاتا ہے ،اسے بتایا جاتا ہے کہ اسکول میں جاب کے لیے آنے والی لڑکیوں کی لائن لگی ہوئی ہے ، اسکول اس کے اوپر ٹکا ہوا نہیں ہے۔ اور اس کے پیچھے اسکول کے مالکان کی منطق یہ ہے کہ اس طرح وہ تنخواہ میں اضافے کی مانگ اور مار سے بچ جائیں گے۔ اور جانے والی ٹیچرس کے عوض جو نئی ٹیچرس آئیں گی وہ کم تنخواہ پر رکھی جائیں گی۔اس اسکیم سے اسکول کے مالکان کا فائدہ ہوتا ہے مگر طلبہ کا نقصان ہوجاتا ہے کیونکہ ایک ٹیچر کے جانے کے بعد دوسری آنے تک بعض اوقات مہینے بھی لگ جاتے ہیں اور اس عرصے میں بچے خالی پیریڈ میں موج مستی کرتے رہتے ہیں۔

ذرا غور تو کریں کہ ان اساتذہ کی یومیہ تنخواہ ، دوسو یا ڈھائی سو روپئے بنتی ہے جبکہ ایک مزدور کی یومیہ مزدوری 500-350 روپئے ہے۔ تو اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پرائیویٹ اسکول کی لیڈی ٹیچرز کی یومیہ تنخواہ گلی میں چھاڑو لگانے والے اور کھیت پر کام کرنے والے مزدور سے بھی کم ہے۔

کیا یہ اساتذہ کے ساتھ ہونے والی زیادتی نہیں خانگی مدارس کے انتظامیہ کی جانب سے ہونے والا استحصال تصور نہیں کیا جائے گا؟ اسکول انتظامیہ کی طرف سے ہزاروں لاکھوں روپیے فیس کے نام پر اصولی ہونے والی موٹی موٹی رقم انتظامیہ اپنی حلال کمائی کا ذریعہ بتاتا ہے، تو کیا اساتذہ کی محنت لگن جستجو اور کوششوں کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ معمولی سی ایک مزدور سے کم کی مزدوری پر راضی ہو کر اپنی خدمات انجام دیں اور مستقبل کے لیے کوشاں رہیں۔ طرفہ تماشہ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ مسلم تعلیمی اداروں کے انتظامیہ جو کہ اپنے آپ کو مزدور کو مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دینے کی بات حدیث کے حوالے سے کرتے ہیں، لیکن جب عملی میدان آتا ہے تو یہی افراد اپنی تنگدستی کا رونا روتے ہیں اوران کایہ بخیل پن نمایاں طور پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ حیلے بہانے تراشتے ہوئے اپنے قولی اور عملی طور پر متضاد آئینہ سماج کے سامنے ظاہر ہوتے ہیں۔

اس جانب اساتذہ تنظیموں کو بالخصوص خانگی مدارس میں پڑھانے والے اساتذہ کومتحدہ طور پر اور اپنےحقوق کے لیے لڑائی لڑنے کی ضرورت ہے ورنہ وہ دن دور نہیں کہ اساتذہ سے ہر وہ کام لیا جائے گا لیکن ان کے حقوق و تنخواہ دینے کی بات آتی ہے توبہت سارے مسائل اور اخراجات کی جھوٹی اور زبانی ایک لمبی فہرست تیار کرکے بتائی جاتی ہے۔

ماہ کے اختتام کے بعد تنخواہ کی جب بات آئے گی تو انہیں حقارت بھری نظروں سے دیکھ کر ہزار خامیوں کو گناتے، دل دکھانے والے اور مایوس کردینے والے ہزار کمنٹس کے ساتھ اوربڑا احسان جتاکر ان کی تنخواہ دی جاتی ہے۔ ان متکبر اداروں کے ذمہ داران کو سبق سکھانے کے لیے اساتذہ کا متحدہ طور پر جدوجہد کرنا لازمی بن جاتا ہے۔ورنہ آج انہیں تو کل کسی اور کو اسکول انتظامیہ استحصال کا شکار بنایا جائے گا، اور یہ مجبور اساتذہ استحصال کا شکار بنتے رہیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!