مذہبیمضامین

حاجیوں کے نام: انا کے قبرستان

سید شجاعت حسینی
shujathusaini@gmail.com

باذوق و نامور شاعر مصطفی خان شیفتہ نے تقریباً 180 سال پہلے حج بیت اللہ کی سعادت پائی تھی۔
دو سال چھ دن طویل! جی ہاں پورے دو سال اور چھ دن کے لمبے عرصے پر پھیلے سفر حج پر مشتمل روداد ( شیفتہ کا سفر نامہ حج) آج اگر پڑھ لیں تو مجھے یقین ہے کہ منیٰ و عرفات کی جن تکالیف کا رونا کچھ نازک مزاج عازمین روتے ہیں وہ تمام مشکلیں یکایک انھیں مائکرو اسکوپک نظر آئیں گی۔

شیفتہ کے سفر کی کچھ دلچسپ تصویریں ( تلخیص) آئیے اپنے الفاظ میں بیان کرتا چلوں۔ سفر بمبئی کے لیے براہ گجرات تاپتی ندی سر کرنی ہے، نرمدا میں طوفان مچا ہے ، خشکی کا راستہ ہلاکت خیز دلدل بن کر بند پڑا ہے ۔ مصائب کے انبار سے گذر کر جیسے تیسے بمبئی آمد ہوئی۔

بمبئی سے روانہ ہوکر چالیس دن سے سمند ر میں مسلسل سفر جاری ہے ۔ ماہ رمضان کے صوم و سحر سمندر کے بلند ہچکولوں میں بیت گئے ۔ کل عید ہے ۔ تیس رمضان کی اندھیری رات چھائی ہے یکایک چٹان سے ٹکرا کر جہاز میں سوراخ نمودرا ہوا۔ اندھیری چاند رات میں سوائےرب سے دعاؤں کے کوئی چارہ نہ تھا ۔ رات امید و مایوسی کے بیچ ہچکولے کھاتی بیت گئی ۔ صبح کی کرنوں نے یہ ممکن بنایا کہ ایمرجنسی کشتی اتار کر اس میں سبھی لوگ ٹھنس ٹھنسا کر بیٹھ جائیں اور یہ چھوٹی کشتی ہوا کے رحم اور موجوں کے دوش پر پتہ کی مانند جھولتی بس اپنی مرضی سے دو سو بے سہاروں کو لے کر یوں بھٹکتی چلی کہ کبھی کشتی پانی پر اور کبھی پانی کشتی پر۔

کسی کا کوئی بس نہیں سوائے پھنسے پھنسائے خدا کو یاد کرتے رہیں ۔ رب کی مرضی سے یہ پتہ نما جھومتی کشتی بالآخر ایسے گمنام جزیرے پر ٹکی جسکے سائز کا یہ عالم تھا کہ بقول شیفتہ چشم حاسد بھی زیادہ فراخ ہوتی ۔ اور جزیرہ بھی وہ جہاں کسی درخت کا کوئی وجود نہیں ۔ اس خیال کے ساتھ یہاں لوگ اتر پڑے کے سمندر میں غرق ہوکر مرنے کے بجائے اس جزیرے پر اجل مقدر کا انتظار کرلیں۔

پانی کے کل آٹھ پیپے دو سو لوگوں کی زندگی کی امیدوں کا مرکز تھے ۔ اس گمنام جزیرے پر نو باہمت لوگوں نے عزم باندھا کہ اسی پتہ نما کشتی پر سوار ہوکر نامعلوم سہارے کی تلاش میں نکل جائیں ۔ یعنی کچھ لوگ کشتی میں موت کا سامنا کریں اور باقی جزیرہ پر ۔ بے سہارہ جزیرہ پر بھوک پیاس کے مارے سیکڑوں بے بس سخت کوش ساحل کے ہر سمت امید بھری نظریں گاڑے صبح تا شام کٹھن دن بتاتے کے سمندر کے افق سے کوئی غیبی سہار ا نمودار ہو ۔ بارھویں دن بارگاہ رب میں ان سخت جان عازمین کی دعا قبول ہوئی اور اور ہلال عید کی مانند افق کے پرے امیدوں کا ہیولا نمودار ہوا۔ سمندر کی غضبناکی کے مقابل ویران جزیرہ زندگی کا سہارہ محسوس ہوا تھا ، اور جب یہی ویرانی کاٹ کھانے لگی تو دوبارہ سمندر کی غضبناکی میں بے خطر اتر آنا آسان لگا ۔

ان جفاکش عازمین نے افق سے نمودار ہوتی امید کی اس ٹمٹماتی کرن تک کیسے رسائی پائی ، تپتے جزیرے کی بارہ روزہ قید سے کیسے رہائی پائی یہ ایک طویل بیان ہے ۔ موسم او رحالات کی ستم ظریفی کے باوجود ابتلا کے پردے میں رب کے فضل کی انتہا ، اسکے بعد منیٰ اور عرفات کی سختیاں اور شیفتہ سے یکے بعد دیگرے ماں اور نانی کا جدا ہوکر سوئے عدم روانہ ہونا، پھر وبا کے چلتے مسلسل کئی ساتھیوں کا اس طرح وفات پاجانا کہ ایک کی نمازہ جنازہ جاری ہے دوسراغسل پارہا ہے اور تیسرا عالم نزع میں اپنے غمگساروں سے رخصت او ررب سے ملاقات کے لئیے تیار ! واپسی میں گرداب میں پھنستے پھنساتے ساحلی پہاڑوں سے بچتے بالآخر دو سال بعد وطن پہنچے۔ یہ ایک بڑی دلچسپ اور حیرت انگیز روداد ہے ۔

ذرا سوچئیے ان مراحل سے گذر کر بالآخر جومرکز نگاہ و عشق یعنی بیت اللہ تک رسائی پالے اس شیدائے حرم کی کیفیت کو سمجھنا آج ہم جیسے ان زائرین حرم کے بس کی بات کیسے ہوسکتی ہے جو ہواؤں کے دوش پر بس قیلولہ مکمل ہونے سے پہلے پہلے حدود حرم میں نازل ہوجائیں ۔ اسکے باوجود منیٰ کی بستی میں جب کوئی نازک اندام بیڈ کی چوڑائی پر شکایت کرتا نظر آئے ، مزدلفہ میں آسمان تلے رات بتانے پر چیں بہ جبیں ہوا جائے اور عرفات کی گرمی میں عقل اور صبر کھودے اوررہ رہ کر حج پیکیج اور پیمنٹس کی دہائی دینے لگے تو مان لیجئیے کہ انا کی تدفین میں اب بھی کچھ کسر رہ گئی۔

حجاج کے قافلے سوئے حجاز روانہ ہیں ۔ اس موقع پر سوچا کہ شیفتہ کی یہ روداد بھی شائد منٰی و عرفات میں کہیں کہیں اور کبھی کبھی سر اٹھاتی ایسی نامعقول نزاکتوں کی بروقت تدفین کا سبب بن سکے ۔
جان لیجئیے کہ منٰی کی بستی ، شیطانی انا کا قبرستان ہے۔ یہاں داخل ہوتے ہی ہمیں نفس کے کونے کھدر میں چھپے بیٹھے نازک مزاجی ، تن آسانی ، مردم بیزاری ، شکم پروری ، مادہ پرستی ، خود نمائی اور انا جیسے ہلاکت خیز جراثیموں کو کو یہاں کی اڑتی خاک تلے گہرائی میں دفنانا ہے ۔ جس نے کوتاہی کی اسے اس مشقت میں لڑھکتے ، ڈھلکتے اور ہارتے دیکھا۔
منیٰ و عرفات کیا کچھ ہے ؟ آئیے ایام حج سے وابستہ دو عظیم بستیوں کو انکی تاریخی سچائیوں کے حوالے سے سمجھتے ہیں ۔

منیٰ کیا ہے؟

1)منیٰ دنیا کا سب سے بڑا عارضی شہر ہے۔
یہ وہ شہر ہے جوبس چند دنوں کے لئیے بستا ہے اور پھر ایک سال کے لئیے سیل کردیا جاتا ہے ۔ بس چند دنوں کا ساتھ ہوتا ہے لیکن یوں لگتا ہے جیسے اس چھوٹی سی وادی نے ” گرین کارڈ ” سے نواز دیا ۔ ہر مکین یہاں چند دن گذار کر اپنا بدن تو اٹھا لیجاتا ہے لیکن دل یہیں چھوڑجاتا ہے ۔ جب وقت وداع ہوتا ہے تو ہرفرد بوجھل نظر آتا ہے ۔ بھلا ان مکینوں کا زمین کے اس چھوٹے سے خطہ سے کونسا جغرافیائی تعلق ؟ اس شہر نے انھیں کونسے چکا چوند “کیریر” سے نوازا؟ کیا، انھیں موٹی تنخواہوں اور فارن ایکسچینج کے چھوٹ جانے کا غم کھائے جارہا ہے۔ ۔ کچھ نہیں۔
پھر یہ مکین اتنے بوجھل کیوں ہیں ؟؟ کیوں ان کی نگاہیں ان خیموں کو ٹٹولتی ہیں ؟ کیوں انھیں یہ عارضی ٹینٹ اپنے ہوٹلوں کےعالیشان کمروں سے زیادہ عزیز ہوگئے۔ کیوں یہاں کی سخت گرمی جھیلنا۔ دیوانہ وار چل کر اپنے تلووں کی جلد کھرچ دینا اور خاک آلود کپڑوں میں شب وروز بتانا سب کچھ انھیں گوارہ ہی نہیں بلکہ شوق تمنا بن جائے گا۔
اس لئے کہ یہ بستی انھیں بس چند دنوں میں دو جہاں کی دولت سے نوازنے جارہی ہے۔ یہ ایک عظیم تر احساس کی دولت ہے۔ یہ وہ دولت ہے جسے نہ کرنسی مشینیں کاؤنٹ کرسکتی ہیں نہ ویئنگ مشین اسکے وزن کو سنبھال سکتی ہیں۔

2)منٰی دنیا کا سب سے گنجان آباد شہر ہے
یہاں آپ کو قریبا 12اسکوائر فٹ کی جگہ نصیب ہوتی ہے اور یہی آپ کا کل اسپیس ہوگا ۔ مگر اس مختصر بیڈ کے مقابل ہوٹلوں کے ماسٹر بیڈس ہیچ ۔۔۔ ماسٹر بیڈرومس کے کشادہ ماحول میں جنکی آنکھ نیند سے ہمکنار ہوتی ہے انکے لئے عین اتنا ہی اسپیس موجود ہے جتنا قبر کی صورت میں انکے مقدر میں لکھا ہے۔ بس اسی کشادگی کے ساتھ کئی لاکھ لوگ اس مختصر رقبہ میں قیام فرماتے ہیں ۔ اس وقت جب چند ہزار لوگ منیٰ پہنچتے تھے تب بھی منیٰ کی وادیاں کشادہ تھیں اور آج جب یہ تعداد ملینز سے تجاوز کرگئی منیٰ اپنی تنگ دامنی کے باوجود ہنوز کشادہ ہے۔

3) منٰی ایک حقیقی انٹرنیشنل سٹی ہے
کاسموپالیٹین ، انٹرنیشنل ، اور بین تہذیبی سماج کے دعویدار تو بے شمار شہر ہے لیکن ایسی مثال شائد نہ ملے کہ کرہ ارض کے ہر خطے ، رنگ، نسل اور زبان کی نمائندگی یکجا ہو لیکن اس اسپرٹ کے ساتھ کہ ۔۔
بتان رنگ و بو کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا ۔
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نا افغانی

4) منیٰ شیطانی انا کا قبرستان بھی ہے
یہاں داخل ہوتے ہی ہر شخص اپنی انا کو یہاں کی اڑتی خاک تلے گہرائ میں دفناتا ہے ۔ جس نے کوتاہی کی اسے اس مشقت میں ہارتے بھی دیکھا۔ کبھی کبھی انھیں خاک آلود احرام میں ملبوس کوئ فرد بیڈ کی چوڑائ پر شکایت کرتا نظر آئے، مزدلفہ میں آسمان تلے رات بتانے پر چیں بہ جبیں ہوا جائے اور، رہ رہ کر حج پیکیج اور پیمنٹس کی دہائی دینے لگے تو یوں لگتا ہے کہ شائد انا کی تدفین میں اب بھی کچھ کسر رہ گئ۔ ۔

5) منیٰ اطاعت ، سادگی اور وقار کی درسگاہ ہے
جنکے تن برینڈس سے سجے ہوتے ہیں آج پسینہ کی بو اوراسی بستی کی خاک وگرد سے اٹے احرام انکا پیرہن ہیں۔ جنھیں شوز کے پسندیدہ برینڈ کی معمولی تبدیلی سے پیروں کے پھٹے جانے کاڈر ہوتا ہے ان پر لازم ہے کہ دو پٹی چپل کی حد نہ پھلانگیں۔
جنکی موجودگی محفل کو پیرس کے پرفیومس کی مہک سے مہکانے کے لئیے کافی ہے، آج بہتے پسینے کے ریلے انکے لئے مشک و عنبر ہیں۔
جی ہاں،منی سادگی و اطاعت کی صرف درسگاہ نہیں بلکہ باوقار عمل گاہ بھی ہے ۔

6) منیٰ مساوات واتحاد کا ماڈل سٹی ہے۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم آپ کے لیے منیٰ میں گھر نہ بنا دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، منیٰ اس کی جائے قیام ہے جو پہلے پہنچ جائے“۔(ترمذی، ابن ماجہ)
رسول اکرم نے اپنے لئیے بھی کوئی ممتاز رہائش پسند نہیں فرمائی کجا کہ کوئی اور اونچ نیچ کی مصنوعی دراڑ ڈالے۔

منیٰ ایسی جگہ ہے جہاں کوئ بڑا یا چھوٹا نہیں۔ دولت، رتبہ، دستار فضیلت اور بزرگی کے عماموں کی بنیاد پر خیموں کو بانٹنے کی یہاں کوئی اجازت نہیں۔ جو یہاں پہنچنے میں سبقت لے جائے منی کی وادیاں بس اسی کا مسکن ہیں۔
مگر اس حوالے سے شائد ہم پیچھے رہ گئے ۔افسوس کہ محسن اعظم (ص) کی اس نصیحت کا پاس رکھنے میں ہم ناکام ہوئے جارہے ہیں ۔ منیٰ کے خیموں کو بھی مادی اونچ نیچ میں بانٹ دیا گیا ۔علم و فضیلت کی دستاریں بھی جب اونچ نیچ کی کسوٹیاں بن جائیں تو دکھ بڑھ جاتا ہےکڑوی سچائی یہ ہے کہ یہ ہورہا ہے ۔ دوسری طرف ٹراویل ایجنسیاں اور ٹورآپریٹرس نے جونہی حج کی آڑ میں بزنس ڈھونڈھ لیا، ڈیلیکس، پریمیم اور اکانومی پیکیجس کے نام پر اس خوبصورت بستی کو بھی اونچ نیچ میں بانٹ کر رکھ دیا۔ کسے فکر کہ رحمت عالم (ص) کی بیش قیمت نصیحت کو بھی یاد رکھے۔
ہمیں تمھاری غلامی پہ فخر ہے لیکن
بھلادیا کہ غلامی کا مدعا کیا ہے
وفا کو ایک تخیل بنالیا ہم نے
ہمیں شعور نہیں مقصد وفا کیا ہے۔

7) منیٰ تعاؤن کے جذبات کا سمندر ہے
نفسا نفسی کے ماروں کی بات چھوڑئیے ، لیکن بالعموم یہاں تعاؤن اور ہمدردی کا سیلاب بہتا ہے ۔ منیٰ کے چپے چپے میں بے شمار حاتم بھی ہیں ایدھی بھی ہیں اور خضر بھی ۔
بالخصوص خضران راہ کا کوئی ثانی نہیں ، جنکی اکثریت ملیالی احباب کی ہے ۔ انکی خوش مزاجی اور جذبہ تعاؤن نے دنیا بھر میں انکے لئیے نیک نامی سمیٹی ، آج جب وہ سیلاب کا کرب جھیل رہے ہیں تو ہم سے پہلے سمندر پار والوں نے ان کے لئیے اپنی جیبیں کھول دیں ۔ ملکی تاریخ میں ایسا منظر ہم نے پہلے کبھی نہ دیکھا ۔

8) شیطان کی ذلت کا مقام ہے
منٰی کے راستوں پر شیطان کو ذلیل کرنے کے جذبہ سے معمور انٹرنیشنل قافلے دوڑتے ہیں ۔ اسی بستی کے ایک کوچہ میں وہ مقام بھی ہے جہاں شیطان نے خلیل اللہ اور انکے کنبہ کو ورغلانے کی ناکام کوشش کی جس کی پاداش میں مسلسل ذلیل ہوئے جارہا ہے ۔شیطان کی پیہم رسوائی کا مقام ہے منی۔
اسی بستی میں اس پانچ روزہ کشمکش کا آغاز ہوتا ہے جب بندہ احرام کی ڈھال باندھے شیطان کے ہر حربے کو مات دینے کا عزم کرتا ہے ۔ ممکن ہے کچھ لوگ پست بھی ہوجائیں لیکن ایک کثیر اکثریت شیطان پر غالب ہوکر رہتی ہے۔

9) منیٰ انبیا اکرام کی سجدہ گاہ ہے۔
اسی منیٰ میں مسجد خیف ہے جہاں 70 انبیائے کرام ؑ نے نماز پڑھی۔ ۔یہ اعزاز منیٰ کی وادی کو دھرتی کے بیشتر حصوں سے ممتاز کرتا ہے ۔ کون نہیں چاہے گا کہ اس کی پیشانی وہاں سجدہ ریز ہو جہاں نبیوں نے اپنی جبینیں رب کے حضور جھکائی تھیں ۔

10) منی مستحقین کا دستر خوان ہے۔
شائد یہ بات چونکادے کہ منی محروموں اور مستحقین کا دستر خوان بھی ہے۔
جی ہاں اس شہر کے باسی تو بالعموم وہ ہیں جنھیں رب نے نواز رکھا ہے، تبھی وہ یہاں پہنچ پائے ۔ پھر یہ محروموں کا دستر خوان کیسے ہوا؟
واقعہ یہ ہے کہ منی اپنے شہریوں اور محروموں کے بیچ ایک راست کنکشن ہے ۔ ایک سیدھا پل ۔۔
منی میں قدم قدم پر ایسے سلاٹر ہاؤس ہیں جن کے باہر نہ خون و گندگی بہتی ہے اور نہ بدبو ابلتی ہے ۔۔کم و بیش 30 لاکھ جانور یہاں قربان ہوتے ہیں ۔ جنکے گوشت کا بڑا حصہ راست ان تک پہنچتا ہے جنھوں نے سال بھر بمشکل گوشت چکھا۔اسی لئے میں کہتا ہوں، منی ایک غیر مرئ، غریب پرور نرالا دسترخوان ہے ۔

11) منیٰ تاریخ انسانی کی سب سے عظیم قربان گاہ ہے
اسی میدان میں تاریخ انسانی کا وہ حیرت انگیز واقعہ بھی وقوع پذیر ہوا جس پر ایمان سے خالی دل مشکل سے یقین کرپاتے ہیں ۔ بزرگ باپ کا اپنے چہیتے بیٹے سے سوال کہ میں رب کے حکم ورضا کی خاطر تمھاری گردن پر چھری پھیر دوں ، تمھارا کیا خیال ہے ؟؟
یہ سوال ہی عام انسانوں کے ہوش اڑادے ۔
پھر آٹھ سالہ معصوم بچے کا فدویانہ جواب بھی اتنا ہی ناقابل یقیں ۔
’’ اے میرے باپ ! کیجیے جس بات کا آپ کو حکم ہوتا ہے خدا نے چاہا تو قریب ہے کہ آپ مجھے صابر پائیں گے‘‘۔
نہایت مبارک خاندان اور قابل رشک فرزند جو اس عظیم انسان کے مشن اور اقدار کا سچا اور مکمل وارث بن گیا ، اسی منیٰ کے باسی تھے ۔
شہر منی کے ان عظیم سپوتوں کی آپسی گفتگو رب کے حضور اتنی پسندیدہ قرار پائی کہ قرآنی الفاظ کے ذریعے امر ہوگئی ۔
منی کا یہ تاریخ ساز ڈائیلاگ دن کے ہر پل دنیا کے کسی نہ کسی گوشے میں تاقیامت نماز و تلاوت کے ذریے دہرایا جاتا رہے گا۔

12) منیٰ سنجیدگی اور وقار کا مسکن ہے ۔
اسی وادی نے وہ شرمناک مناظر بھی کبھی دیکھے تھے کہ فراغت حج کے نام پر جاہل عرب قبائل ہجوم در ہجوم یہاں امڈ آتے اور اپنے خاندان اور باپ داد ا کے کرتوتوں کی ڈینگ مارتے ۔ اس ڈینگ بازی کی زد کسی نہ کسی حریف گروہ پر پڑتی۔ نتیجتاحماقتوں کا سالانہ تماشہ تکرار ، تلوار بازی، دو چار قتل ، نئی نفرت اور اگلے سال کی ڈینگوں کے نکات و سیناپسس دے جاتا ۔ قبائلی چودھراہٹ کا یہ عالم کہ خاندان صفہ کے لوگ منٰی کے راستہ پر گھیرا ڈالے کنٹرول جمالیتے اور جب تک خود گذر نہ لیتے کسی کو منٰی سے پرے جھانکنے نہ دیتے ۔
نبوی انقلاب نے ان بیہودہ تماشوں کی جڑ کاٹ دی اور منٰی کو پاکیزگی ، وقار اور سنجیدگی کا مسکن بنادیا ۔ اور یہ حکم دیا کہ اس سے باز پرس نہیں جس نے منیٰ کے ایام تقویٰ شعاری میں بتائے ۔لیکن جس نے اس وقار کی قدر نہ کی وہ یاد رکھے کہ اسے رب کے حضور پیش ہونا ہے ۔ (اور جو کچھ دیر زیادہ ٹھیر کر پلٹا تو بھی کوئی حرج نہیں بشر طیکہ یہ دن اس نے تقویٰ کے ساتھ بسر کیے ۔ اللہ کی نافرمانی سے بچو اور خوب جان رکھو کہ ایک روز اس کے حضور میں تمہاری پیشی ہونے والی ہے۔ البقرہ 203 )

منیٰ کی سنجیدہ و باوقار فضائیں ایک پیغام ہیں انکے لئیے جو ذکر و فکر کے نام پر ہاؤ ہو کا غیر سنجیدہ تماشہ کھڑا کرتے ہیں۔ کہیں گردن توڑ جھٹکے اور کہیں کرتا پھاڑ قلابازیاں !
انکے لئیے بھی پیغام ہے جو عین منی کی متین فضاؤں میں ہر سال بلا ناغہ قصر نمازوں کی بحث اور اور مسلکی سر پھٹول کا تماشہ کھڑا کرنے پر بضد ہوتے ہیں ۔

منیٰ کا پڑوس ایک اور باوقار بستی سے آراستہ ہے۔ یعنی عرفات ! تقریبا 50 مربع کلومیٹر پر پھیلی یہ بستی دلچسپ بھی ہے اور روح پرور بھی۔
کعبتہ اللہ سے 21 کلومیٹر دور، منیٰ سے آگے، مشرقی سمت میں واقع اس میدان کو میدان عرفات یا عرفہ بھی کہا جاتا ہے، جو جبل عرفات ( عرفات کی پہاڑیوں ) سے گھراہے۔ آئیے جانتے ہیں کیا ہے مقام عرفہ۔

عرفات کیا ہے؟

1)عرفہ مقام نعمت ہے۔
اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام دينا۔ آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کوکامل کردیا اورتم پراپناانعام پوراکردیا۔ اورتمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پررضامند ہوگیا۔
عمررضي اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں۔
ہمیں اس دن اورجگہ کا بھی علم ہے، جب یہ آيت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہوئی۔ وہ جمعہ کا دن تھا اورنبی صلی اللہ علیہ عرفہ میں تھے۔
انسانیت پر رب کی نعمتیں تو ان گنت ہیں پر دین حنیف، تاریخ انسانی کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ اور اسکے کامل ہونے کا گواہ ہے میدان عرفات

2) عرفہ جائے عرفان ہے
یہی وہ میدان ہے جہاں آدم (ع) نے قبولیت دعا کا عرفان اور ابراہیم (ع) نے حج اور اسکی حکمتوں کی معرفت پائی۔ اسی لئیے یہ سرزمین میدان معرفت یعنی عرفہ کہلائی ، یہ سرزمین اپنے مشن کی پہچان، زندگی کے مقصد سے آگہی، واقفیت ذات، علم وعرفاں، سیکھنے اور خود کو جاننے وپہچاننے کا مقام ہے۔ یہاں پہنچ کر خود کو ٹٹولنا نہ بھولیں۔ اپنی ذات کی اندرونی تہوں تک جھانکیں، نفس کی کثافتوں کو نچوڑیں۔ یہی درس دیتا ہے عرفات کا روح پرور سکوت۔عرفات پہنچ کر جو اپنے گریبان ٹٹولے، ممکن نہیں کہ وہ خود کو اور خدا کو پہچانے بغیر لوٹ آئے۔

3) عرفہ حقوق انسانی کے اولین چارٹر کا گواہ ہے
عرفہ کی چوٹیاں گواہ ہیں، حقوق انسانی کے مکمل منشور کی جو صدیوں پہلے، اگلی بے شمار صدیوں کے لئے ریلیز کیا گیا تھا۔یہی وہ پہاڑیاں ہیں جہاں سے دنیا نے انسانی وقار، عظمت و حقوق کی پاسداری کادرس، حجۃ الوداع کے بین الاقوامی چارٹر سے سیکھا۔ نبی کی جامع نصیحتوں کا مکمل پیکیج انھیں چوٹیوں سے پورے انسانی سماج کے لئیے نشر ہوا تھا۔
آج بھی عرفات کی چوٹیو ں سے خطبہ حج کئ زبانوں میں نشر ہوتا ہے۔ یہ گویا پوری دنیا کے لئیے عالم اسلام کی جانب سے سالانہ پیغام ہوتا ہے۔ ایک کھلی منادی۔ دنیا اس منادی کی منتظر ہوتی ہے۔ بیشتر زبانوں میں اسکے تراجم کا ٹیکنولوجی کے بھرپور استعمال کے ساتھ نظم ہوتا ہے۔ کئی موبائل ایپس اور ایف ایم چینلس اس کام کے لئیے مختص ہیں۔یہ سالانہ منادی اپنے ساتھ تاریخ ساز وقار پنہاں رکھتی یے۔ کاش یہ خطبہ شاہی ترجمانی کے بجائے نبوی منشور کی باز گشت بن جائے۔

4) عرفہ جاہلی عصبیت کا مدفن ہے
بعثت نبی (ص) سے قبل جاہلیت نے انسانوں کو قبیلوں اور خاندانوں سے آگے جغرافیائی اور شہری عصبیت میں بھی باندھ رکھاتھا۔ عرب کو عجمی سے بیر، اہل حرم دیگر عربوں سے بلندتر، حرم کے باشندے بھی اہل معلاۃ اور اہل مسفلہ کی اونچ نیچ میں بٹے تھے۔

اسی عصبیت نے حرم کے رہنے والوں میں یہ تکبر پیدا کردیا تھا کہ اہل حرم حدود حرم سے آگے (مزدلفہ کے پرے) کیوں جائیں۔ دیگر مقامات کے قافلے شوق سے عرفات جائیں لیکن ہمارا مقام (حرم) عرفات سے بلند تر ہے۔ اسی جاہلی فکر کے بت کو سرور عالم (ص) نےتوڑا۔ سب کو مقام عرفات میں جمع ہونا لازمی قرار دیا۔ اور یہاں انسانی مساوات کا عظیم چارٹر دیا اور فرمایا کہ “وقوف عرفات ہی حج ہے۔ “جس نے اعراض کیا وہ حج سے محروم ہوگیا۔
معلوم ہوا کہ میدان عرفات ایک پیام ہے انکے لئیے جنھوں نے اپنے عظیم شہروں کے گرد انا کے “حرم ” کھڑے کر رکھے ہیں۔ شہری عظمتوں کی خودساختہ فصیلیں۔ جسکے پرےایک نامعلوم دنیا ہے۔ چھوٹے قرئیے، گاؤں اور اضلاع بس۔ وہاں قدم رکھنا بھی ” اہل حرم ” کی شان نہیں۔
میدان عرفات زندگی کے مشن کو سمجھاتا ہی نہیں بلکہ اس مشن کی خاطرعلاقائی اور جغرافیائی انا کو قربان کرنے کا سبق بھی دیتا ہے۔

5) عرفہ، قبولیت حج کی لازمی شرط ہے
رب کی حکمتیں وہی خوب جانتا ہے، لیکن اسی حکیم کے حکم نے عرفات کو یہ اعزاز بخشا کہ وہ حج کی لازمی شرط ٹھہرا ۔ مقامات حج میں صرف عرفات، حرم کی حدود کے باہر ہے، لیکن پھر بھی حج کاسب سے لازمی جز ہے۔ کوئی لاکھ مشقت اٹھائے لیکن قیام عرفات سے کوتاہی برتے تو وہ بڑا خسارہ میں رہا۔قیام عرفات رات کی ٹھنڈک نہیں ، بلکہ دن کی تپش کا نام ہے۔ جو تھک کر نڈھال ہوگئے، انھیں بھی ایک نئی توانائی بخشتا ہے عرفات کا روح پرور ماحول ! مجال ہے جو لاکھ تھکن کے باوجود عرفات میں کوئی غافل پڑا رہے۔

6) عرفہ نارجہنم سے آزادی کاراستہ ہے
صحیح مسلم میں عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا حديث مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی یوم عرفہ سے زیادہ کسی اوردن میں اپنے بندوں کوآگ سے آزادی نہیں دیتا، اوربلاشبہ اللہ تعالی ان کے قریب ہوتا اورپھرفرشتوں کےسامنے ان سے فخرکرکے فرماتا ہے یہ لوگ کیا چاہتے ہیں؟رب کعبہ ان بندوں کا ذکر بھی ناز سے فرماتا ہے جو نار جہنم سے پناہ کی التجا لئے عرفات میں آج جمع ہیں۔

7) عرفہ رحمت الہی کاجوئے رواں ہے
عرفہ کی پہچان ہے “جبل رحمت”اس سرخ پہاڑی پر رحمتوں کی بارش ہوتی ہے اور یہ جوئے رواں جبل رحمت سے چلکر وادی عرفہ کے چپے چپے میں بہہ نکلتا ہے۔ جبل رحمت ہی وہ پہاڑی ہے جس کے پہلو میں پیغمبر اعظم ﷺ نے وقوف فرمایا تھا۔ اللہ تعالیٰ وقوفِ عرفہ کرنے والوں پر فرشتوں کے سامنے کہتا ہے کہ : ”میرے بندو ں کو دیکھو کہ یہ میرے دربار میں گرد اور غبار آلود ہوکر پہنچے ہوئے ہیں،یہ میری رحمت کے امیدوار ہیں،یہ میرے عذاب سے خائف ہیں میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے انکی مغفرت کردی۔“۔

8) عرفہ سب سے بڑی عارضی بستی ہے۔
منیٰ کی پہچان ایک عارضی شہرہے، لیکن عرفہ، چند گھنٹوں کی عارضی قیام گاہ۔ آسمان تلے ایک یادگار جائے وقوف۔زندگی کی تمام سرگرمیوں سے منھ موڑ کر رب کی طرف لو لگانے کی کھلی معرفت گاہ۔
یہاں زندگی کے آثار صرف یوم عرفہ کو ہی نظر آتے ہیں۔ عرفہ میں بے شمار عارضی خیمے بھی ہیں لیکن لوگ درختوں تلے یا چادریں تان کر ٹھہرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ تاکہ اس وقوف کی یاد تازہ کریں اور خود کو اس قیام سے ہم آہنگ کریں جسے عرفات کی سرزمین نے صدیوں پہلے نبی اور صحابہ کی جمیعت کے وقوف کی صورت میں دیکھا تھا۔

9) عرفات فطرت شناس بستی ہے۔
یہاں پہنچ کرانسان تصنوع کی دنیا سے بہت دوراور مادی لوازمات سے پاک ہو کر خود کو فطرت سے ہم آہنگ پاتا ہے۔ لباس، ٹھکانہ یا سواری، سب کچھ فطرت شناس۔
تن پر بدلتے زمانے اورمصنوعی سرحدوں کی چھاپ نہیں بلکہ بس دو سفید پٹیاں۔ عین وہی فطری لبادہ جسے پہن کر رب کے حضور سب کو رخصت ہونا ہے۔
کنکریٹ کے مصنوعی جنگل اگانے کی یہاں اجازت نہیں۔ مسجد نمرہ اور چند ضروری عمارتوں کے علاوہ یہاں کوئی اور پختہ عمارت نہیں۔ چادروں کے سائبان اور درختوں کے سائے اس بستی کے مکینوں کا ٹھکانہ ہیں۔ دھواں اڑاتی سواریاں عرفات کی شاہراہوں کے لئے نامانوس ہیں۔ ملکہ زبیدہ نے عرفات کی پہاڑیوں سے گذار کر نہرزبیدہ بنائی۔ زنگی وزیر جمال الدین الجاوید نے جبل رحمت پر سیڑھیاں تعمیر کیں۔ لیکن عرفات کی فطرت شناس طبیعت کا احترام باقی رہا۔

10) عرفہ اسلامی اجتماعیت کا بے مثل نمونہ ہے
یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی
اخوت کی جہانگیری محبت کی فراوانی
عرفات اسی رمز مسلمانی کی مجسم تمثیل ہے۔ جہاں رنگ و بو کے بت توڑ کر رب کے بندے صرف رب کے ہوجاتے ہیں۔

یہی اجتماعیت کی روح ہے کہ روزانہ پانچ مرتبہ اپنی بستی میں، ہفتہ میں ایک مرتبہ شہر کی جامع مسجد میں، سال میں دو مرتبہ عید گاہ میں اور سال میں ایک مرتبہ عالمی سطح پر میدان عرفات میں اس عالمگیر اجتاعیت کا روح پرور اہتمام ہو۔

عرفات کا یہ پیغام عرفات کے پرے بسنے والوں کے لئے بھی اتنا ہی اہم ہے، اور یہ کھلا سوال کہ ہم اس پیغام کو یاد رکھتے ہیں یا کل عید سے پہلے بھول جاتے ہیں۔
مجھے یاد ہے اس حوالے سے ہمارے ایک رفیق بڑے اصول پسند تھے، کہتے تھے، یہ کیا تک ہے کہ عید فرقوں میں بٹی امت کے لئے رمزمسلمانی کی صدا لگاتے نمودار ہوتی ہے اور یہ صدا سنکر ہم اپنے اپنے مسلک کی مسجد و میدان کی جانب دوڑ لگائیں۔ یہ نہیں کہ نبوی اسوہ کی قدر کریں اور اس دن سب ملکر عید گاہ آباد کریں۔ اس اسپرٹ کے ساتھ کہ،

” نہ دیوبندی رہے باقی نہ سلفی ہو نہ ملتانی”

بلکہ جب انھیں پتہ چلتا کہ کسی نے مسجد میں نماز عید ادا کرلی تو ازراہ تفنن یہ صلاح دیتے کہ آپ کا کام آسان ہوگیا اب اسی مسجد میں حج بھی نپٹالینا۔
رب کعبہ یوم عرفہ کی مسعود ساعتوں سے ہم سب کو مستفید فرمائے۔
رب کعبہ منی و عرفات کی مقبول دعاؤں میں ہمیں بھی شامل فرمائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!