تاریخ: فتوحات گِنتی ہے، ٹیبل پر پڑی کتابیں نہیں
مراسلہ: ذوالقرنین احمد
یہ 1973ء کی بات ھے عربوں اور اسرائیل کے درمیان جنگ چھڑنے کو تھی ایسے میں ایک امریکی سنیٹر ایک اھم کام کے سلسلے میں اسرائیل آیا ، وہ اسلحہ کمیٹی کا سربراہ تھا اسے فوراً اسرائیل کی وزیراعظم “گولڈہ مائیر” کے پاس لے جایا گیا ، گولڈہ مائیر نے ایک گھریلو عورت کی مانند سنیٹر کا استقبال کِیا اور اسے اپنے کچن میں لے گئی ، یہاں اس نے امریکی سنیٹر کو ایک چھوٹی سی ڈائننگ ٹیبل کے پاس کُرسی پر بِٹھا کر چولہے پر چائے کے لِئے پانی رکھ دِیا اور خود بھی وھیں آ بیٹھی اس کے ساتھ اس نے طیاروں ، میزائلوں اور توپوں کا سودا شروع کر دیا..
ابھی بھاؤ تاؤ جاری تھا کہ اسے چائے پکنے کی خوشبو آئی ، وہ خاموشی سے اُٹھی اور چائے دو پیالیوں میں انڈیلی ، ایک پیالی سنیٹر کے سامنے رکھ دی اور دوسری گیٹ پر کھڑے امریکی گارڈ کو تھما دی پھر دوبارہ میز پر آ بیٹھی اور امریکی سنیٹر سے محوِ کلام ھو گئی..
چند لمحوں کی گُفت و شنید اور بھاؤ تاؤ کے بعد شرائط طے پا گئیں اس دوران گولڈہ مائیر اُٹھی ، پیالیاں سمیٹیں اور انہیں دھو کر واپس سنیٹر کی طرف پلٹی اور بولی “مجھے یہ سودا منظور ھے آپ تحریری معاھدے کے لئے اپنا سیکرٹری میرے سیکرٹری کے پاس بھجوا دیجئے”..
یاد رھے کہ اسرائیل اس وقت اقتصادی بحران کا شکار تھا مگر گولڈہ مائیر نے کتنی “سادگی” سے اسرائیل کی تاریخ میں اسلحے کی خریداری کا اِتنا بڑا سودا کر ڈالا حیرت کی بات یہ ھے کہ خود اسرائیلی کابینہ نے اس بھاری سودے کو رد کر دیا اس کا موقف تھا اس خریداری کے بعد اسرائیلی قوم کو برسوں تک دن میں ایک وقت کھانے پر اِکتفا کرنا پڑے گا.
گولڈہ مائیر نے ارکانِ کابینہ کا موقف سُنا اور کہا “آپ کا خدشہ درست ھے لیکن اگر ھم یہ جنگ جیت گئے اور ھم نے عربوں کو پسپائی پر مجبور کر دیا تو تاریخ ھمیں فاتح قرار دیگی اور جب تاریخ کسی قوم کو فاتح قرار دیتی ھے تو وہ بھول جاتی ھے کہ جنگ کے دوران فاتح قوم نے کتنے انڈے کھائے تھے اور روزانہ کتنی بار کھانا کھایا تھا اسکے دسترخوان پر شہد ، مکھن ، جیم تھا یا نہیں اور ان کے جوتوں میں کتنے سوراخ تھے یا ان کی تلواروں کے نیام پھٹے پرانے تھے ، فاتح صرف فاتح ھوتا ھے”۔
گولڈہ مائیر کی دلیل میں وزن تھا لہٰذا اسرائیلی کابینہ کو اس سودے کی منظوری دینا پڑی ، آنے والے وقت نے ثابت کر دیا کہ گولڈہ مائیر کا اقدام درست تھا اور پھر دنیا نے دیکھا اسی اسلحے اور جہازوں سے یہودی عربوں کے دروازوں پر دستک دے رھے تھے جنگ کے ایک عرصہ بعد واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے نے گولڈہ مائیر کا انٹرویو لِیا اور سوال کِیا “امریکی اسلحہ خریدنے کے لئے آپ کے ذھن میں جو دلیل تھی وہ فوراً آپ کے ذھن میں آئی تھی یا پہلے سے حکمتِ عملی تیار کر رکھی تھی؟” گولڈہ مائیر نے جو جواب دیا وہ چونکا دینے والا تھا وہ بولی “میں نے یہ استدلال اپنے دشمنوں (مسلمانوں) کے نبی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) سے لِیا تھا ، میں جب طالبہ تھی تو مذاھب کا موازنہ میرا پسندیدہ موضوع تھا اُنہی دِنوں میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح حیات پڑھی اِس کتاب میں مصنف نے ایک جگہ لکھا تھا کہ جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ھوا تو ان کے گھر میں اتنی رقم نہیں تھی کہ چراغ جلانے کے لئے تیل خریدا جا سکے لہٰذا ان کی اہلیہ (حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا) نے ان کی زرہِ بکتر رہن رکھ کر تیل خریدا لیکن اس وقت بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے کی دیواروں پر نو تلواریں لٹک رھی تھیں.
میں نے جب یہ واقعہ پڑھا تو میں نے سوچا کہ دنیا میں کتنے لوگ ھوں گے جو مسلمانوں کی پہلی ریاست کی کمزور اقتصادی حالت کے بارے میں جانتے ھوں گے لیکن مسلمان آدھی دنیا کے فاتح ھیں یہ بات پوری دنیا جانتی ھے لہٰذا میں نے فیصلہ کِیا کہ اگر مجھے اور میری قوم کو برسوں بھوکا رھنا پڑے ، پختہ مکانوں کی بجائے خیموں میں زندگی بسر کرنا پڑے ، تو بھی اسلحہ خریدیں گے خود کو مضبوط ثابت کریں گے اور فاتح کا اعزاز پائیں گے”..
گولڈہ مائیر نے اس حقیقت سے تو پردہ اٹھایا مگر ساتھ ھی انٹرویو نگار سے درخواست کی اسے “آف دی ریکارڈ” رکھا جائے اور شائع نہ کِیا جائے وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں کے نبی کا نام لینے سے جہاں اس کی قوم اس کے خلاف ھو سکتی ھے وھاں دنیا میں مسلمانوں کے موقف کو تقویت مِلے گی چنانچہ واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے نے یہ واقعہ حذف کر دِیا ، وقت دھیرے دھیرے گزرتا رھا یہاں تک کہ گولڈہ مائیر انتقال کر گئی اور وہ انٹرویو نگار بھی عملی صحافت سے الگ ھو گیا.
اس دوران ایک اور نامہ نگار ، امریکہ کے بیس بڑے نامہ نگاروں کے انٹرویو لینے میں مصروف تھا اس سلسلے میں وہ اسی نامہ نگار کا انٹرویو لینے لگا جس نے واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے کی حیثیت سے گولڈہ مائیر کا انٹرویو لِیا تھا اس انٹرویو میں اس نے گولڈہ مائیر کا واقعہ بیان کر دیا جو سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق تھا اس نے کہا کہ اب یہ واقعہ بیان کرنے میں اسے کوئی شرمندگی محسوس نہیں ھو رھی ھے.
گولڈہ مائیر کا انٹرویو کرنے والے نے مزید کہا “میں نے اس واقعے کے بعد جب تاریخ اسلام کا مطالعہ کِیا تو میں عرب بدوؤں کی جنگی حکمتِ عملیاں دیکھ کر حیران رہ گیا کیونکہ مجھے معلوم ھوا کہ وہ طارق بن زیاد جس نے جبرالٹر (جبل الطارق) کے راستے اسپین فتح کِیا تھا اس کی فوج کے آدھے سے زیادہ مجاھدوں کے پاس پورا لباس نہیں تھا وہ بہترّ بہترّ گھنٹے ایک چھاگل پانی اور سوکھی روٹی کے چند ٹکڑوں پر گزارا کرتے تھے یہ وہ موقع تھا جب گولڈہ مائیر کا انٹرویو نگار قائل ھو گیا کہ.
“تاریخ ، فتوحات گِنتی ھے ، ٹیبل پر پڑی کتابیں نہیں”.
گولڈہ مائیر کے انٹرویو نگار کا اپنا انٹرویو جب کتابی شکل میں شائع ھوا تو دنیا اس ساری داستان سے آگاہ ھوئی یہ حیرت انگیز واقعہ تاریخ کے دریچوں سے جھانک جھانک کر مسلمانانِ عالم کو جھنجھوڑ رھا ھے ، بیداری کا درس دے رھا ھے ، ھمیں سمجھا رھا ھے کہ ادھڑی عباؤں اور پھٹے جوتوں والے گلہ بان ، چودہ سو برس قبل کس طرح جہاں بان بن گئے؟.
ان کی ننگی تلوار نے کس طرح چار برِاعظم فتح کر لِئے؟ اگر پُرشکوہ محلات ، عالی شان باغات ، زرق برق لباس ، ریشم و کمخواب سے آراستہ و پیراستہ آرام گاھیں ، سونے چاندی ، ھیرے اور جواھرات سے بھری تجوریاں ، خوش ذائقہ کھانوں کے انبار اور کھنکھناتے سکوں کی جھنکار ھمیں بچا سکتی تو تاتاریوں کی ٹڈی دل افواج بغداد کو روندتی ھوئی معتصم باللہ کے محل تک نہ پہنچتی.
آہ ، وہ تاریخِ اسلام کا کتنا عبرت ناک منظر تھا جب معتصم باللہ ، آھنی زنجیروں اور بیڑیوں میں جکڑا ، چنگیز خان کے پوتے ھلاکو خان کے سامنے کھڑا تھا ، کھانے کا وقت آیا تو ھلاکو خان نے خود سادہ برتن میں کھانا کھایا اور خلیفہ کے سامنے سونے کی طشتریوں میں ھیرے اور جواھرات رکھ دئیے پھر معتصم سے کہا “جو سونا چاندی تم جمع کرتے تھے اُسے کھاؤ” بغداد کا تاج دار بےچارگی و بےبسی کی تصویر بنا کھڑا تھا بولا “میں سونا کیسے کھاؤں؟” ھلاکو نے فوراً کہا “پھر تم نے یہ سونا چاندی جمع کیوں کیا تھا؟”..
وہ مسلمان جسے اُسکا دین ھتھیار بنانے اور گھوڑے پالنے کیلئے ترغیب دیتا تھا کچھ جواب نہ دے سکا ھلاکو خان نے نظریں گھما کر محل کی جالیاں اور مضبوط دروازے دیکھے اور سوال کِیا “تم نے اِن جالیوں کو پگھلا کر آھنی تیر کیوں نہ بنائے؟ تم نے یہ جواھرات جمع کرنے کی بجائے اپنے سپاھیوں کو رقم کیوں نہ دی تاکہ وہ جانبازی اور دلیری سے میری افواج کا مقابلہ کرتے؟” خلیفہ نے تاسف سے جواب دیا “اللہ کی یہی مرضی تھی” ھلاکو نے کڑک دار لہجے میں کہا “پھر جو تمہارے ساتھ ھونیوالا ھے وہ بھی خدا کی مرضی ھو گی”..
پھر ھلاکو خان نے معتصم باللہ کو مخصوص لبادے میں لپیٹ کر گھوڑوں کی ٹاپوں تلے روند ڈالا ، بغداد کو قبرستان بنا ڈالا ، ھلاکو نے کہا “آج میں نے بغداد کو صفحہِ ھستی سے مِٹا ڈالا ھے اور اَب دُنیا کی کوئی طاقت اسے پہلے والا بغداد نہیں بنا سکتی”.
تاریخ تو فتوحات گِنتی ھے ٹیبل پر پڑی کتابیں نہیں، اگر ھم ذرا سی بھی عقل و شعور سے کام لیتے تو برصغیر میں مغلیہ سلطنت کا آفتاب کبھی غروب نہ ھوتا ، اندازہ کرو جب یورپ کے چپے چپے پر تجربہ گاھیں اور تحقیقی مراکز قائم ھو رھے تھے تب یہاں ایک شہنشاہ دولت کا سہارا لیکر اپنی محبت کی یاد میں تاج محل تعمیر کروا رھا تھا ، جب مغرب میں علوم و فنون کے بم پھٹ رھے تھے تب یہاں تان سین جیسے گویے نئے نئے راگ ایجاد کر رھے تھے ، جب انگریزوں ، فرانسیسیوں اور پرنگالیوں کے بحری بیڑے برِصغیر کے دروازوں پر دستک دے رھے تھے ، ھمارے اَرباب و اختیار شراب و کباب اور چنگ و رباب سے مدھوش پڑے تھے ، تن آسانی ، عیش کُشی اور عیش پسندی نے ھمیں کہیں کا نہیں چھوڑا.
ھمارا بوسیدہ اور دیمک زدہ نظام بِکھر گیا کیونکہ تاریخ کو اِس بات سے کوئی غرض نہیں ھوتی کہ حکمرانوں کی تجوریاں بھری ھیں یا خالی؟ شہنشاہوں کے تاج میں ھیرے جڑے ھیں یا نہیں؟ درباروں میں خوشآمدیوں ، مراثیوں ، طبلہ نوازوں اور وظیفہ خوار شاعروں کا جھرمٹ ھے یا نہیں؟ یاد رکھیے ، تاریخ کو صرف کامیابیوں سے غرض ھوتی ھے اور تاریخ عُذر قبول نہیں کرتی.
افسوس صد افسوس، سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک یہودی عورت نے تو سبق حاصل کر لِیا مگر مسلمان اِس پہلو سے ناآشنا رھے ، سائنس و ٹیکنالوجی ، علوم و فنون پر دسترس رکھنے کی بجائے لاحاصل بحثوں اور غیرضرروی کام میں مگن رھے چنانچہ زوال ھمارا مقدر ٹھہرا ، تاریخ بڑی بےرحم ھوتی ھے.