علاقہ کلیان کرناٹککرناٹک کے اضلاع سے

میلکم ایکس: حیات،خدمات اورپیغام نوجوانوں کے نام موضوع پر ایس آئی او بیدر کے اجتماع سے محمد رفیق کا خطاب

بیدر میں مقامی یونٹ کے اجتماع سے برادر محمد رفیق سابق ریاستی صدر ایس آئی او، کرناٹکا کا خطاب

میلکم ایکس (پیدائشی نام میلکم لٹل) جو الحاج ملک الشہباز کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں ایک سیاہ فام مسلمان اور نیشن آف اسلام کے قومی ترجمان تھے۔ وہ 19 مئی 1925ء کوامریکہ کی ریاست نیبراسکا میں پیدا ہوئے اور 21 فروری 1965ء کو نیو یارک شہر میں ایک قاتلانہ حملے میں جاں بحق ہوئے۔ وہ مسلم مسجد اور آرگنائزیشن آف ایفرو امریکن کمیونٹی کے بانی بھی تھے۔

ان کی زندگی میں کئی موڑ آئے اور وہ ایک منشیات فروش اور ڈاکو بننے کے بعد گرفتار ہوئے اور رہائی کے بعد امریکا میں سیاہ فاموں کے حقوق کا علم بلند کیا اور دنیا بھر میں سیاہ فاموں کے سب سے مشہور رہنما بن گئے۔ بعد ازاں انہیں شہید اسلام اور نسلی برابری کے رہنما کہا گیا۔ وہ نسلی امتیاز کے خلاف دنیا کے سب سے بڑے انسانی حقوق کے کارکن کے طور پر ابھرے۔

ان خیالات کا اظہار برادر محمد رفیق سابق ریاستی صدر اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا، کرناٹکا نے آج بیدرکی مسجد ابراہیم میں منعقدہ مقامی یونٹ کے ایک اجتماع کو مخاطب کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہاکہ1964ء میں حج بیت اللہ کے بعد انہوں نے نیشن آف اسلام کو خیر باد کہہ دیا اور عام مسلمان کی حیثیت اختیار کر لی۔ اس کے بعد ایک سال سے بھی کم عرصے میں نیو یارک میں قتل کردیے گئے۔ نیشن آف اسلام کے تین کارکنوں کو ان کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا لیکن کہا جاتا ہے۔ امریکی حکومت بھی ان کے قتل کی سازش میں ملوث تھی۔

بیسویں صدی کے آغاز اور انیسویں صدی کے اواخر میں امریکا میں غلامی غیر قانونی قرار دے دی گئی لیکن سیاہ فاموں کو پھر بھی کوئی ان کی قومی شناخت نہ لوٹا سکا انھیں نفرت اور حقارت سے دیکھا جاتا تھا۔ اس معاشی اور معاشرتی استحصال کے بعد ایک طرف سیاہ فاموں کے اندر مزاحمت پیدا ہوئی تو دوسری طرف ان کی معاشی اور معاشرتی حالت بڑی حد تک گر گئی۔ معاشرے کی تمام برائیاں ان کے اندر موجود تھیں، ڈکیتیاں، نشے، قمار بازی، قحبہ گری اور دیگر ان کے پیشے تھے۔

انہوں نے ان کی سوانح حیات کے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ میلکم لٹل 19 مئی 1925ء کو امریکی ریاست نیبراسکا میں پیدا ہوا۔ والد ان اس کے بچپن میں ہی ایک حادثے میں ہلاک ہو گئے۔ اس کے بعد وہ اور اس کے دیگر سات بہن بھائی کچھ عرصہ اپنی ماں کے ساتھ پلے بڑھے۔ اس کی والدہ کا تعلق گریناڈا سے تھا۔ بہن بھائیوں میں میلکم کا نمبر پانچواں تھا۔ باپ کے مرنے کے بعد ماں نے ان کی پرورش کرنے کی کوشش کی مگر جلد ہی اخراجات حد سے باہر نکلنے لگے۔ انہوں نے قرض لے کر گزارہ کیا لیکن آہستہ آہستہ معاملات حد سے باہر نکلنے لگے اور ریاست کی فلاح سے متعلق ادارے کے لوگ ان کے گھر آنے جانے لگے انہوں نے نفسیاتی تشدد کر کرکے ان کی ماں کو بالآخر پاگل کر دیا۔ اب بچوں کے مختلف مخیر لوگوں میں تقسیم کر دیا گیا اسے بھی، جو اپنے سرخ بالوں کی وجہ سے ریڈ پکارا جاتا تھا، ایک مخیر گھرانے میں دے دیا گیا۔ وہاں اس نے آٹھ درجوں تک تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد سب چھوڑ چھاڑ دیا۔

عام سیاہ فاموں کی طرح وہ بھی اس کریز میں مبتلا ہو گیا کہ گوروں کی طرح اس کی بھی معاشرے میں عزت ہو۔ اس نے کلب میں بوٹ پالش کرنے کی نوکری کی۔

دوستوں کے مشورے اور حالات کا رخ دیکھ کر وہ نیویارک چلا آیا۔ اس دوران وہ دوسرے ایک دو شہروں میں بھی جوتے پالش کرنے اور بیرہ گیری کا کام کرچکا تھا۔ نیویارک آکر اس نے ہارلم کے علاقے کو رہائش اور کام کے لیے چنا جو ان دنوں کالوں کا مرکز بن رہا تھا۔ یہاں کے کئی کلبوں میں اس نے کام کیا، آہستہ آہستہ وہ نشے کی طرف متوجہ ہوا اور ماریجوانا استعمال کرنے اور بیچنے لگا۔ اس نے طوائفوں کے دلال تک کا کام کیا۔ آہستہ آہستہ وہ غنڈہ گردی اور جعل سازی کی طرف متوجہ ہوا اور بیس سال سے بھی کم عمر میں یہ کام کرنے لگا۔ بٹوا چھین لینا، نقلی چیزیں اصلی کہہ کے بیچ دینا، نشہ آور اشیا بیچنا، چوری کرنا، نقب زنی کرنا غرض اس نے ہر غلط کام کیا۔ آخری زمانے میں اس نے اپنا ایک گروہ بھی بنا لیا جس میں اس کا ایک دوست، ایک گوری لڑکی، جو اس کی محبوبہ بھی تھی اور اس کی بہن شامل تھے۔

لڑکیاں مکان میں جاسوسی کے لیے جاتیں اور یہ رات کو نقب زنی کرتے۔ اس دور میں اس نے بے تحاشا نشہ استعمال کیا۔ اس نے خود اپنی آپ بیتی میں کہا کہ وہ کام کے وقت غیر معمولی طور پر چست رہنے کے لیے بے تحاشا نشہ استعمال کرتا تھا۔ اسی دوران پولیس نے اسے گرفتار کر لیا اس کے اپارٹمنٹکی تلاشی کے بعد نقب زنی کے شواہد بھی ملے جس کے بعد اسے دس سال قید کی سزا ہو گئی۔ میلکم کی سزا صرف دوسال بنتی تھی مگر وہ خود بتاتاہے کہ اس کا اصل جرم گوری لڑکیوں سے دوستی تھا جس کی اسے یہ سزا ملی۔

ان دس سالوں نے میلکم کی زندگی کو بدل دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ اپنے بہن بھائیوں اور دوستوں کے کہنے پر اس نے جیل میں اپنے آپ کو سنوارنے کی کوشش شروع کردی۔ اسے ایک اصلاحی جیل میں منتقل کر دیا گیا جہاں کتب خانے کی سہولت بھی موجود تھی۔ وہاں اس نے انگریزی سیکھی، وہ خود بتاتا ہے کہ اس کا ذخیرہ الفاظ چند الفاظ تھے جو غنڈہ گردی میں مستعمل عام اصطلاحات تھیں۔ اس نے لغت کے ذریعے اپنی انگریزی بہتر کی اس کے بعد کتب خانے سے استفادہ کرنا شروع کر دیا۔ اس پر گوروں کے مظالم واضح ہونے لگے۔ اس دوران اس نے اپنے اندر مباحثے کی صلاحیت پیدا کی۔ جیل میں بحث مباحثے ہوتے اور میلکم ان میں حصہ لیتا اس چیز نے آئندہ زندگی میں اس کی بڑی مدد کی۔ پھر ایک دن میلکم سے اس کا بھائی ملا اور اسے علیجاہ محمد کے بارے میں بتایا جس کی تعلیمات کا وہ پیرو ہو گیا تھا۔ اس نے میلکم کو بھی نیشن آف اسلام میں شمولیت کی دعوت دی۔ میلکم بتاتا ہے کہ میں حیران رہ گیا کہ میرا بھائی صاف ستھرے لباس میں ملبوس تھا اور مجھے بتاتا تھا کہ میں جھوٹ نہیں بولتا اور شراب نہیں پیتا سؤر بھی نہیں کھاتا کیونکہ مسلمان یہ سب نہیں کرتے۔ اس کے بعد میلکم نے جیل سے علیجاہ محمد سے خط کتابت شروع کردی۔

اس خط کتابت کے ذریعے اسے اسلام کی تعلیمات کا پتہ چلا اور جب 1952ء کے موسم بہار میں وہ جیل سے باہر آیا تو سب سے پہلا کام جواس نے کیا وہ علیجاہ محمد کی تعلیمات قبول کرنے کا اعلان تھا۔

میلکم جب نیشن آف اسلام میں شامل ہوا تو اس وقت تک یہ تنظیم بڑے پیمانے پر نہیں پھیلی تھی۔ میلکم نے تنظیم میں شمولیت کے بعد اس میں ایک نئی روح‌پھونک دی۔ یہاں آکر اسے پتا چلا کہ زندگی کیا ہے۔

بنیادی طور پر میلکم ایک غیر معمولی انسان تھا،ایک پیچھے نہ ہٹنے والا شخص، علیجاہ محمد نے اس کی تربیت کی اور میلکم اس کی تعلیمات کو پھیلانے لگا۔ وہ عام سیاہ فام شخص کی نفسیات سے واقف تھا اس لیے انھیں باآسانی قائل کرلیتا کہ فلاح‌صرف علیجاہ محمد کی تعلیمات میں ہی ہے۔ اس کی عمر اس زمانے میں تیس برس کے قریب تھی۔ اب وہ میلکم لٹل سے میلکم ایکس بن گیا۔ ایکس نام رکھنے کی وجہ اس نے یہ بتائی کہ وہ غلامی کی ہر نشانی کو مٹادینا چاہتا ہے اور اسے غلامی میں ملا ہوا نام بھی پسند نہیں اور اس نے اپنے لیے انگریزی حرف ایکس کو پسند کیا۔

1956ء میں اسے تنظیم کی طرف سے ایک کار ملی اس کی لگن کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ اس نے صرف 5 ماہ کے عرصے میں اس پر 30 ہزار میل کا سفر کر لیا۔ علیجاہ محمد کی نیشن آف اسلام کو اس نے پورے امریکا میں پھیلانے کا عزم کیااور اس کے لیے کام بھی کیا۔ اسی دوران نیویارک میں ایک جھگڑے کی وجہ سے یہ تنظیم ذرائع ابلاغ کی نظروں میں آگئی جس کے بعد نیشن آف اسلام کو پریس میں بھی جگہ ملنے لگی۔ اس کے بعد میلکم ایکس “ناراض میلکم ایکس” کے نام سے مشہور ہو گیا کیونکہ وہ ہر مباحثے اور تقریر میں گوروں کو برملابرا بھلا کہتا اور سیاہ فاموں کی موجودہ حالت کا ذمہ دار انھیں ٹھہراتا۔

اسی طرح‌تقریباً بارہ سال کام کرنے کے بعد ایک دن اس کی ساری خدمات کو نظر انداز کرکے اسے بودا سا بہانہ کرکے تنظیم سے علاحدہ کر دیاگیا۔ اس دوران میلکم ایکس شادی بھی کرچکا تھا۔ اس کی اہلیہ بیٹی ایکس ایک نرس تھی جس کے بطن سے اس کی چار بیٹیاں پیدا ہوئیں۔

پھر اسی دوران وہ تاریخی لمحہ آیا جب ایک سیاہ فام نے ایک سفیدفام کو باکسنگ کے میدان میں شکست دی اور اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کیا۔ کیسئیس کلے سے محمد علی کلے بننے والا یہ شخص جب مقابلہ کر رہا تھا تو اس کی حوصلہ افزائی کے لیے میلکم ایکس وہاں موجود تھا۔

میلکم ایکس کو اس دوران پتا چلا کہ اس کے قتل کی سازشیں ہو رہی ہیں۔ اس کے بہی خواہوں نے اسے خبردار کیا مگر اس نے پروا نہ کی۔ پھر اس کی ملاقات ڈاکٹر یوسف شورال سے ہوئی۔ جنہوں نے اسے اسلام کی حقیقی تعلیمات سے روشناس کرایا۔ اس کے بعد میلکم ایکس نے حج کا ارادہ کیا اور براستہ قاہرہ جدہ کو روانہ ہوا۔ قاہرہ میں اس کی ملاقات ڈاکٹر محمد شورابی سے ہوئی جنہوں نے اس کے تصور اسلام کی مزید تطہیر کی۔ آخر اس نے جدہ کا قصد کیا مگر اسے نو مسلم اور امریکی پاسپورٹ ہونے کی وجہ سے ہوائی اڈے پر ہی روک لیا گیا۔ آخر میلکم نے ڈاکٹر عمر عزام کو فون کرکے اپنے مسئلے کے بارے میں بتایا۔ جس کے بعد اسے سرکاری مہمان کا درجہ مل گیا اور بعد ازاں اس نے حج ادا کیا۔ حج کے دوران اس کے گورا مخالف جذبات پر مثبت اثر پڑا اور اسلام کی عالمی اخوت کا تصور مضبوط ہوا۔ دوران حج اس نے امریکا خطوط لکھے جنہیں ذرائع ابلاغ نے بھی کوریج دی۔ اس کے خطوط سے اس کے رجحانات کی تبدیلی کا واضح پتہ چلتا تھا۔ اس دوران نیشن آف اسلام نے اس پر کئی مقدمات قائم کردیے تھے جو ان کی بدنیتی کا ثبوت تھے۔

حج کے دوران اس کی ملاقات شاہ فیصل سے بھی ہوئی جو اس وقت ولی عہد تھے۔ اس کے بعد اس نے کئی افریقی اور مسلم ممالک کا دورہ کیا۔ جہاں سیاہ فاموں کو درپیش مسائل کے بارے میں تبادلۂ خیال کیا گیا۔

آخر میلکم ایکس واپس امریکہ پہنچ گیا۔ وہاں جانے کے بعد اس نے اسلام کے صحیح تصور کو پھیلانا شروع کر دیا۔ مگر دشمنوں کو یہ بات پسند نہ آئی اور یہ گوہر نایاب نہ جانے کتنے دلوں کو روتا چھوڑ کر آخرت کے سفر پر روانہ ہو گیا۔ وہ خود کہا کرتا تھا کہ مجھے ہر وقت جان کا خطرہ رہتا ہے مگر میں اس کی پروا نہیں کروںگا۔ 21 فروری 1965ء کو نیویارک میں لیکچر کے دوران اگلی قطار میں موجود تین آدمیوں نے ریوالور اور شاٹ گن سے اس پر بے دریغ فائرنگ کردی۔ میلکم ایکس موقع پر ہی جاں بحق ہو گیا۔

بوقت مرگ میلکم ایکس کی عمر تقریباً 40 سال تھی۔ اس کا جنازہ شیخ الحاج ہشام جابر نے پڑھایا۔ اس کے پرستاروں نے گورے گورکنوں کو اس کی قبر کھودنے نہیں دی اور اپنے ہاتھوں سے سارا کام کیا۔

اس موقع پر سید جمیل احمد ہاشمی صاحب نے بھی نوجوانوں سے خطاب کیا۔ اجتماع کا آغاز عبدالعلیم کی تلاوت قرآن مع ترجمہ سے ہوا۔ جبکہ نظامت کے فرائض سید انور الحق نے انجام دیا۔ محمد عاقب حسین صدر مقامی نے اعلانات کیے۔ دعا پر اجتماع اختتام کو پہنچا۔


One thought on “میلکم ایکس: حیات،خدمات اورپیغام نوجوانوں کے نام موضوع پر ایس آئی او بیدر کے اجتماع سے محمد رفیق کا خطاب

  • محمد یوسف رحیم بیدری

    سید جمیل احمد ہاشمی

    سید انور الحق

    Reply

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!