ملک کے اداروں پر قبضہ کرنے کا آرایس ایس کا اعلانیہ ہدف پورا ہوچکا، کمزورپڑی جمہوریت، انتخابات اب محض رسم ادائیگی ہوں گے: راہول گاندھی
کانگریس پارٹی کی خدمت کرنا میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔ کانگریس وہ پارٹی ہے جس کے اصول اور اقدار ہمارے ملک کی رگوں میں خون کی طرح شامل ہے۔ مجھے جو پیار اور عزت ملی ہے، اس کے لیے میں اپنی پارٹی اور ملک کا قرض دار ہوں۔
کانگریس صدر کے ناطے 2019 کے انتخابات میں شکست کی ذمہ داری میری ہے۔ پارٹی کی ترقی اور مستقبل کے لیے جواب دہی بہت اہم ہے۔ اور یہی سبب ہے کہ میں نے صدر کے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا ہے۔
پارٹی کو دوبارہ مضبوط کرنے کے لیے سخت فیصلے لینے ہوں گے اور کئی لوگوں کو 2019 کی ناکامی کے لیے جواب دہ ہونا ہوگا۔ اس ناکامی کے لیے صرف دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرانا اور بطور صدر اپنی ذمہ داری قبول نہ کرنا، مناسب نہیں ہوگا۔
میرے کئی ساتھیوں نے مجھ سے گزارش کی کہ میں پارٹی کے آئندہ صدر کا نام طے کر دوں۔ حالانکہ پارٹی کے لیے نیا صدر ہونا بہت اہم ہے، لیکن میرے ذریعہ اس کا انتخاب ہونا بالکل درست نہیں ہوگا۔ ہماری پارٹی کی ایک تاریخ ہے، ایک وراثت ہے، یہ جدوجہد کے بعد کھڑی ہوئی پارٹی ہے جس کا مجھے فخر ہے۔ یہ ہندوستان کے تانے بانے کا حصہ ہے اور مجھے امید ہے کہ جو بھی پارٹی کا صدر بنے گا وہ ہمت، محبت اور مضبوطی کے ساتھ پارٹی کی قیادت کرے گا۔
استعفیٰ دینے کے فوراً بعد میں نے کانگریس ورکنگ کمیٹی کے اراکین کو مشورہ دیا تھا کہ نیا کانگریس صدر طے کرنے کے لیے ایک کمیٹی بنا دی جائے۔ اس کمیٹی کو سارے اختیار دے دیئے گئے ہیں اور اس عمل کے مکمل ہونے میں پورا ساتھ دینے کے لیے میں پرعزم ہوں۔
میری لڑائی کبھی بھی ایک عام سیاسی اقتدار حاصل کرنے کی نہیں رہی۔ مجھے بی جے پی سے کوئی نفرت یا غصہ نہیں ہے، لیکن ہندوستان کو لے کر ان کے نظریہ کا میں سخت مخالف ہوں۔ میری مخالفت اس لیے ہے کیونکہ ہندوستان کے تئیں ان کا نظریہ اور میرے نظریہ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ یہ کوئی نئی لڑائی نہیں ہے بلکہ ہزاروں سال سے ہماری زمین پر لڑی جا رہی ہے۔ انھیں اس میں نااتفاقی اور فرق نظر آتا ہے، مجھے برابری نظر آتی ہے۔ جہاں انھیں نفرت نظر آتی ہے، مجھے محبت دکھائی دیتی ہے۔ انھیں جس سے خوف لگتا ہے، میں اسے گلے لگاتا ہوں۔
ہندوستان کا اصل نظریہ ملک کے کروڑوں کروڑوں لوگوں کے دل میں دھڑکتا ہے اور اسی نظریہ کی حفاظت اب ہمیں مضبوطی کے ساتھ کرنی ہے۔
ملک پر اور آئین پر جو حملے ہو رہے ہیں، وہ ملک کے تانے بانے کو تباہ اور برباد کرنے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ میں کسی بھی طرح، کسی بھی طریقے سے اس لڑائی سے پیچھے نہیں ہٹ رہا ہوں۔ میں کانگریس پارٹی کا خود سپرد کارکن ہوں، اور اس ملک کا بیٹا ہوں، اور اپنی آخری سانس تک اس ملک کی حفاظت اور خدمت کرتا رہوں گا۔
ہم نے مضبوطی اور معزز طریقے سے انتخاب لڑا۔ ہماری انتخابی مہم بھائی چارے، محبت، صبر اور ملک کے سبھی شہریوں، سبھی مذاہب اور طبقات کے وقار والی مہم تھی۔ میں ذاتی طور پر وزیر اعظم، آر ایس ایس اور ان اداروں سے لڑتا رہا جس پر انھوں نے قبضہ کر لیا ہے۔ میں لڑا، کیونکہ میں ہندوستان سے محبت کرتا ہوں۔ میں ان قدروں کو بچانے، ان کی حفاظت کرنے کے لیے لڑا جن کی بنیاد پر ہندوستان کی تعمیر ہوئی ہے۔ کئی بار میں نے خود کو بالکل تنہا کھڑا پایا، اور مجھے اس کا فخر بھی ہے۔ میں نے اپنے پارٹی کارکنان، اراکین اور ان سبھی مرد و خواتین سے بہت کچھ سیکھا جو محبت اور قدروں کی بات کرتے تھے۔
آزاد اور غیر جانبدارانہ انتخاب کے لیے ملک کے اداروں کو غیر جانبدار ہونا بہت ضروری ہے۔ انتخاب سے جڑے اداروں کی آزادی کے بغیر انتخاب غیر جانبدار نہیں ہو سکتے۔ ان میں آزاد میڈیا، آزاد عدلیہ اور شفاف انتخابی کمیشن اہمیت کے حامل ہیں۔ انتخابات غیر جانبدارانہ ہو ہی نہیں سکتے اگر کسی ایک پارٹی کا قبضہ دولت کے سبھی وسائل پر ہو۔
2019 کے انتخاب میں ہماری لڑائی کسی سیاسی پارٹی سے نہیں تھی، بلکہ ہماری لڑائی پوری کی پوری سرکاری مشینری سے تھی۔ ہر اس ادارہ سے تھی جسے اپوزیشن کے خلاف کھڑا کر دیا گیا تھا۔ اس سے واضح ہو چکا ہے کہ ہمارے ملک کے اداروں کی غیر جانبداری ختم ہو چکی ہے۔
ملک کے اداروں پر قبضہ کرنے کا آر ایس ایس کا جو اعلانیہ ہدف تھا، وہ پورا ہو چکا ہے۔ ہماری جمہوریت کو بنیادی طور پر کمزور کیا جا چکا ہے۔ اوراب یہ خطرہ کھڑا ہو گیا ہے کہ ملک کی جمہوریت کے لیے ہونے والے انتخاب اب محض رسم ادائیگی ہو کر رہ جائیں گے۔
اقتدار پر قبضہ کے بعد اب ملک کو زبردست تشدد اور تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کسان، بے روزگار نوجوان، اقلیت، خواتین، دلتوں اور قبائلیوں کو سب سے زیادہ تکلیف اٹھانی پڑے گی۔ ملک کی معیشت اور وقار پر زبردست اثر پڑے گا۔ وزیر اعظم کی فتح کے بعد بھی ان پر لگے بدعنوانی کے الزامات ختم نہیں ہوئے ہیں، بھلے ہی کتنا پیسہ خرچ کر دیا جائے یا تشہیر کر لی جائے، لیکن سچ پوشیدہ نہیں ہو سکتا۔
ہندوستان کو متحد ہو کر اپنے اداروں کو دوبارہ زندہ کرنا ہوگا، اور اداروں کو دوبارہ زندہ کرنے کے عمل کی قیادت کانگریس پارٹی کو کرنی ہوگی۔ اس اہم کام کو کرنے کے لیے کانگریس پارٹی کو اوپر سے نیچے تک بدلنا ہوگا۔ آج بی جے پی ملک کے عوام کی آواز کو منظم طریقے سے کچل رہی ہے۔ یہ کانگریس پارٹی کی ذمہ داری ہے کہ وہ عام لوگوں کی آواز کی حفاظت کرے۔ ہندوستان کبھی بھی صرف ایک آواز پر نہیں چلا ہے۔ یہ ہمیشہ اجتماعی آوازوں کو سننے اور ماننے والا ملک رہا ہے۔ بھارت ماتا کی اصل روح یہی ہے۔
ہزاروں ہندوستانیوں کا شکریہ، ملک میں اور ملک کے باہر رہنے والے ان سبھی کا شکریہ جنھوں نے مجھے تمام خط لکھے، تمام پیغام بھیجے۔ میں اپنی پوری اہلیت اور طاقت سے کانگریس کے اصولوں کے لیے لڑتا رہوں گا۔ جب جب پارٹی کو میری ضرورت ہوگی، میں پارٹی کو اپنی خدمات، صلاح اور مشوروں سے نوازنے کے لیے تیار رہوں گا۔ جن لوگوں نے کانگریس کے اصولوں کی حمایت کی ہے، خصوصاً ہمارے پیارے مخلص کارکنان، مجھے ان پر پورا بھروسہ ہے کہ وہ مستقبل میں کامیاب ہوں گے، ان کے لیے ڈھیر سارا پیار۔
ہندوستان میں یہ ایک عام بات ہے کہ طاقتور لوگوں کو ہی اقتدار ملتا رہے، کوئی اقتدار کی قربانی نہیں دیتا ہے۔ لیکن جب تک ہم اقتدار کی خواہش کی قربانی نہیں دیں گے، اصولوں کے لیے لڑائی نہیں لڑیں گے، ہم اپنے مخالفین کو نہیں ہرا پائیں گے۔ میں پیدائشی کانگریسی ہوں، پارٹی ہمیشہ میرے ساتھ رہی ہے اور یہ میرے خون میں ہے، اور ہمیشہ رہے گی۔
جے ہند
راہل گاندھی