قیادت نے پھر کیا مایوس! قوم کرے فیصلہ کہ محمود مدنی یا مفتی رئیس قاسمی؟
عاطف سہیل صدیقی
پچھلے کئی برسوں سے جاری منظم ہجومی تشدد (Mob lynching) نے متعدد مسلمانوں کی جان لے لی۔ اس ظلم اور بربریت کے خلاف برسراقتدار بی جے پی سے تو کسی کاروائی کی کوئی امید تھی ہی نہیں لیکن مسلمانوں کی ملی تنظیموں نے بھی مسلمانوں کی اس تکلیف پر کوئی ایسی بات تک نہ کہی جس سے مسلمانوں کے زخموں پر مرہم رکھا جا سکے۔ ہر سو مسلمانوں میں مایوسی پھیلتی چلی گئی اور مسلم قوم اپنے آپ کو بے یار و مددگار سمجھنے لگی۔ جب صبر کا پیمانہ لبریز ہونے لگا تو ایک نوجوان قیادت ابھری اور اس نے وہ جرات اور بے باکی کا مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے سنگھی میڈیا بلبلاتی دکھائی دینے لگی۔
دہرہ دون کے مفتی رئیس احمد قاسمی جو کہ اتراکھنڈ کے جمیعت کے صدر بھی ہیں اور وقف بورڈ کے رکن بھی انہوں نے قوم کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے سنگھی ہجومی دہشتگردوں کی سخت الفاظ میں مذمت کی، اور قوم نے انکے اس بیان کو خوب داد بھی دی۔ لیکن وہ بی جے پی سنگھی حکومت ہی کیا جو ناانصافیوں کی ساری حدیں پار نہ کر دے ؟
ہجومی تشدد اور دہشت گردی کرنے والے قاتلوں کے خلاف کاروائی نہ کرنے والی اس حکومت نے مفتی صاحب پر متعدد دفعات میں مقدمات درج کر دئے۔ قوم میں بے چینی پھیل گئی اور سوشل میڈیا پر مفتی صاحب کی حمایت میں لوگ کھڑے ہوگئے۔ لوگ مفتی صاحب کی حمایت میں اپنے تاثرات پیش کرنے لگے۔ لیکن ایک بار پھر اعلی قیادت نے قوم کو مایوس کر دیا۔ اس بات کی امید تھی کہ مفتی صاحب کی حمایت میں کم سے کم جمیعت علمائے ہند جس کے وہ علاقائی صدر ہیں کچھ تو بیان جاری کریگی ۔
لیکن آج جمیعت کے جنرل سیکریٹری محمود مدنی صاحب کا ایک بیان وارد ہوگیا ہے جس میں انہوں نے نہ صرف مفتی صاحب کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا بلکہ انکی مذمت بھی کردی۔ کاش! محمود صاحب اپنے مصلحت کے لبادے سے باہر نکل کر تھوڑی سی جرات اور ہمت کا مظاہرہ کرکے صرف اتنا ہی کہہ دیتے کہ مفتی صاحب جمیعت کے علاقائی صدر ہیں انہیں مکمل قانونی مدد فراہم کی جائیگی۔ لیکن محمود صاحب تو اتنی جرات اور ہمت بھی نہ دکھا سکے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ محمود صاحب کوئی جرات مند قائد ابھرنے ہی نہیں دینا چاہتے اور ہر جری نوجوان چاہے وہ جمیعت سے ہی وابسطہ کیوں نہ ہو کو مایوسی کے دلدل میں دھکیل دینا چاہتے ہیں ۔ انہیں ہر جرات مند اور بہادر نوجوان اور قائد سے ڈر لگتا ہے۔
محمود صاحب نے اپنے بیان میں دلیل دی کہ مفتی صاحب کا بیان سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ ہے کہ ظالم کے سامنے کلمہ حق بھی نہ کہو؟ کیا مفتی صاحب نے اپنے بیان میں کسی بے قصور کو مارنے یا پیٹنے کی دھمکی دی؟ کیا مفتی صاحب نے یہ کہا کہ وہ آئین اور قانون کی بالادستی کے مخالف ہیں؟ اگر دیکھا جائے تو مفتی صاحب کا بیان عین کتاب و سنت کے مطابق ہے۔ کیا مفتی صاحب کا بیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی أفضل الجهاد كلمة حق عند سلطان جائر کی اتباع نہیں ہے؟ جب آپ کو انصاف نہ مل رہا ہو اور آپکے نوجوانوں کو تنہا پاکر اور گھات لگا کر قتل کیا جا رہا ہو اور اس نہ تھمنے والے ظلم کی کہیں کوئی سنوائی نہ ہو تو مفتی صاحب کا بیان وَالَّذِينَ إِذَا أَصَابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنتَصِرُونَ کی صدا نہیں ہے؟ کیا انکا بیان لَّا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَن ظُلِمَ ۚ وَكَانَ اللَّهُ سَمِيعًا عَلِيمًا کے مطابق نہیں ہے؟
میرا سوال ان تمام حضرات سے ہے جو قیادت پر تنقید کے لیے لکھی جانے والی میری پوسٹس پر آ کر مجھے طعنہ مار کر کہتے ہیں کہ آپ آئیں اور قیادت کریں ہم آپ کی اتباع کریں گے، کیا یہی لوگ اب ایک ابھرتی جری اور نوجوان قیادت مفتی رئیس قاسمی کی اتباع کریں گے؟ کیا یہ حضرات محمود صاحب سے اپنی بیعت توڑ کر مفتی صاحب کے ہاتھ پر بیعت کریں گے؟ کیا ان لوگوں کو محمود صاحب سے یہ سوال نہیں کرنا چاہیے کہ اب جمیعت کی ذمہ داری جوشیلے اور باہمت نوجوان قائد کے سپرد کرنے کا وقت آ گیا ہے؟ کیا اس ابھرتی نوجوان قیادت کو محمود صاحب کی مصلحت پسندی کی بھینٹ چڑھا دیا جائیگا؟
میرا یہ سوال ان تمام حضرات سے ہے جو ہر وقت قیادت کے فقدان کا رونا روتے ہیں اور اس مصلحت پسند اور بزدل قیادت کو غنیمت جانتے ہیں۔ انکی عقیدت ان سے للہ ہے یا مودی بھگتی کی طرح ہے؟ اگر للہ ہے تو محمود صاحب سے سوال ہونا ہی چاہیے اور مفتی رئیس قاسمی کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہونا ہی للہیت کی دلیل ہے ورنہ یہ صرف مفادپرستی اور اندھ بھگتی ہے اور اسکے علاوہ اور کچھ نہیں ۔ اگر اب بھی اس نوجوان قیادت کی حمایت کے لیے اس بزدل قیادت کا گرہبان نہیں پکڑا گیا تو مسلمان بی جے پی اور آر ایس ایس سے شکایت کرنا چھوڑ دیں اور انکے ہاتھوں مار کھاتے رہیں۔