امریکہ کوایران کا دوٹوک جواب، ايران کی عزت کريں، پھر بات چيت ہو گی: ايرانی وزيرخارجہ
ايرانی وزير خارجہ نے کہا ہے کہ ان کا ملک کسی کے دباؤ ميں نہيں آئے گا ليکن اگر واشنگٹن حکام عزت سے پيش آتے ہيں تو اس کے رد عمل ميں ایسے ہی جذبات کا مظاہرہ کيا جائے گا۔ کيا يہ بيان دو روايتی حريف ملکوں کو قريب لا سکتا ہے؟
ايرانی وزير خارجہ محمد جواد ظريف نے کہا ہے کہ ان کا ملک امريکا کے دباؤ ميں نہيں آئے گا۔ سرکاری ٹيلی وژن پر پير يکم جولائی کو نشر کردہ اپنی ايک تقرير ميں ظريف نے کہا، ”اگر امريکا بات چيت کرنا چاہتا ہے، تو اسے ايران کو عزت دينا پڑے گی۔‘‘ ايرانی وزير خارجہ نے مزيد کہا ہے کہ ان کا ملک ہميشہ ہی دباؤ کی صورت ميں مزاحمت کا مظاہرہ کرتا آيا ہے اور جب بھی اس کے ساتھ باعزت رویہ اختیار کیا گيا، ايران نے بھی جواباﹰ ايسا ہی کيا۔
ان دنوں مشرق وسطی ميں شديد کشيدگی جاری ہے۔ آبنائے ہرمز ميں چند آئل ٹينکروں پر حملے کے بعد سے خطے کے چند ممالک ايک طرف کھڑے ہيں، تو ايران دوسری طرف۔ امريکا نے خطے ميں اپنا بحری بيڑا بھی تعينات کر رکھا ہے اور جنگ کی باتيں چل رہی ہيں۔ شديد کشيدگی کی ايک اور وجہ ايران پر عائد سخت امريکی پابندياں اور اس کے ردعمل ميں ايران کا جوہری ڈيل کی شرائط پر عملدرآمد جاری نہ رکھنے کا اعلان ہے۔
ايسے ميں يورپ اور ديگر قوتيں اس مسئلے کے سفارتی حل اور بات چيت پر زور دے رہی ہيں۔ امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ايران کے ساتھ بغير کسی پیشگی شرط کے بات چيت کی پيشکش کی ہے ليکن تہران حکومت نے جوہری ڈيل ميں امريکا کی واپسی کے بغير مذاکرات کو خارج از امکان قرار دے رکھا ہے۔ تہران نے سپريم ليڈر آيت اللہ خامنہ ای پر عائد کردہ تازہ ترين امريکی پابنديوں کو ‘احمقانہ‘ بھی قرار ديا۔
دوسری جانب ايرانی صدر حسن روحانی نے مقابلتاً نرم حکمت عملی اختيار کر رکھی ہے۔ ان کے بقول پابنديوں ميں نرمی کی صورت ميں بات چيت کا امکان موجود ہے۔
اب ديکھنا يہ ہے کہ ايرانی وزير خارجہ جواد ظريف کے پير کو سامنے آنے والے بيان پر امريکا کيا رد عمل ظاہر کرتا ہے۔