بیدرضلع بیدر سے

عورت معمارِ دین ہے اور پاسبانِ دین کے فر یضہ کیلئے کمربستہ ہوجائیں: تشکیلہ خانم

بیدر: 19/جنوری (پی آر)  یہ وقت بڑا ہی نازک وقت اور فتنوں کا دور دورہ ہے،  ہر طرف فحاشی اور برائیاں عام ہوتی جا رہی ہیں،  مسلم گھرانوں میں بھی آج موبائل کا غلط استعمال ہو رہا ہے، بچے، بڑے بوڑھے، نوجوان اور نئی نسل سب کے سب اس کے چنگل میں پھنستے جا رہے ہیں۔  غلط میگزینس، اور تنہائی میں کی جانیوالی گفتگو اوردیکھے جانیوالے ویڈیوزاور ملاقاتیں جس کے ذریعے سے انسان کے دلوں میں جنسی ہوس پیدا ہوتی ہے، وہ انسانیت سے درندگی کی طرف جاتے ہیں۔  ایسی چیزیں آج عام ہو رہی ہیں۔ اس کے بہت زیادہ نقصانات ہمارے سامنے آرہے ہیں،  چھوٹے بچوں کو اتنی عادت ہو گئی ہے کہ دماغی کمزور یاوران کی زندگیوں پرمنفی اثر پڑ رہا ہے۔ لیکن ہم مطمئن ہیں۔  یہ بہت ہی خطرے کی گھنٹی بجانے والی بات ہے اس پر ہمیں فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ موبائل ایک صحیح ایجاد ہے لیکن ہمیں اسے کس طرح سے استعمال کرنا ہے؟ اس پر سنجیدہ اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف آئے دن اسلام اورمسلمانوں پر حملے ہو رہے ہیں، کئی نت نئے قوانین سے اسلام کو دبانے کی کوشش اور سازشیں کی جا رہی ہیں۔ ایک طرف صہیونیت،جو یہودیوں کی تحریک ہے جو دنیا بھر میں مادہ پرستی،  خدا سبے زاری، احسان  فراموشی، مال و زر کی ہوس، مادہ پرستی ظلم و زیادتی کرنے پر جنسی اوارگی پر آمادہ کرنا چاہتی ہے۔  اس کا سب سے بڑا فوکس ہندوستان اور دنیا بھر کے مسلمانوں کا خاندانی نظام ہے،  اس خاندانی نظام کو توڑنا اسے منتشر کرنا چاہتے ہیں۔ ہم کدھر جا رہے ہیں؟ معاشرہ اور حالات کدھر جا رہے ہیں؟ ایسے حالات میں ایک مسلمان ایک ایمان والے کیسے خاموش رہ سکتے ہیں؟ اس کی کیا ذمہ داریاں ہو سکتی ہیں؟ جسے آج ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔چونکہ عورت معمارِ دین ہے اور پاسبانِ دین کے فریضہ کیلئے کمربستہ ہوجائیں۔ان خیالات کا اظہار تشکیلہ خانم صاحبہ،  ریاستی سکریٹری شعبہ خواتین جماعت اسلامی ہند حلقہ کر ناٹک (بنگلور) نے  ”مسلم خواتین:  مقام اور ذمہ داریاں“ مرکزی موضوع پر شہر بیدر میں منعقد ایک عظیم الشان اجتماعِ عام برائے خواتین میں صدارتی خطاب میں کیا۔

انہوں نے کہا کہ  ہم بحیثیت مسلمان اور امت مسلمہ ہمارا ایک مقام ہے،  ہماراکام کرنا، پہچان اور مقام قرآن ہمیں واضح بتاتاہے کہ تمہیں اس دنیا کی بھلائی کے لیے وجود میں لایا گیا ہے،تمہارا کام یہ ہے کہ نیکیوں کی دعوت دیتے ہو برائیوں سے روکتے ہو۔  ہم داعی امت ہیں، ہم اللہ کی زمین پر اللہ کے خلیفہ اوراس کے دین کے داعی ہیں۔  خلافت اور داعی کے فرائض کی ادائیگی میں غفلت اور کوتاہی مجرمانہ فعل ہوگا۔  اپنے صدارتی خطاب میں انہوں نے کہا کہ دین میں جو کچھ بھی عبادتیں ہم پر لازم کی گئی ہے وہ انسان کی تربیت کے لیے ہے۔  تقوی کی بلندی،خدا کے خوف،ہمارے اندر کے انسان کو صالح بنانے کے لیے ہے ایک بہتر انسان کو اپنے اپ کو بنانے کے لیے عبادت ہم پر لازم کی گئی ہے تاکہ ہم اس کو لے کر اس کے ذریعے سے اپنے آپ کی تربیت کر یں اور اس اہم کام یعنی دین کی سربلندی کے لیے لگ جائیں۔  

محترمہ ساجدہ النساء رکن شوری جماعت اسلامی ہند کر ناٹک (ہبلی) نے”مثالی خواتین قرآن و سنت کی روشنی میں“  موضوع پرخطاب کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالی نے عورت کا مقام و مرتبہ خصوصی طور پر بلند کیا ہے اورعو رت کو فرش سے اٹھا کر عرش پہ بٹھایا۔  ماں باپ کو اس اولاد کی صحیح پرورش پر جنت کی ضمانت دی۔ عورت کو بہترین سرمایہ اور متاع کہا اور ماں کے روپ میں اس کے قدموں کے نیچے جنت کا اعلان کیا اور باپ سے بھی تین گنا زیادہ اسے حسن سلوک کے مستحق قرار دیا۔  عورت مرد کی غلام نہیں ہے،باپ اس کا سرپرست، شوہر اس کا پاسبان ہے بھائی اس کا مددگار ہے اور بیٹا اس کا تابعدار ہے۔  اللہ تعالی نے اس طرح سے عورت کو وہ عظیم مرتبہ ادا کیا ہے لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ آج اتنے بلند و بالا مقام سے وہ گرتی چلی جا رہی ہے۔  

انہوں نے مزید کہا کہ جدید دور میں ترقی نسواں کے نام پر جو اسے جھانسا دیا گیا جس کے فریب میں آ کر وہ اپنا گھر چھوڑ رہی ہے، رشتے ناطوں سے دور ہو رہی ہے اولاد کو تک بھول گئی ہے۔  صرف چمکتے نوٹ اور کھنکتے سکے کمانے کے لیے اگر عورت کا کردار بے وزن ہو جائے یا عالی شان بنگلوں کی تعمیر کرنے کے لیے اس کی روح کھنڈر بن جائے تو اسے ترقی نہیں کہتے دراصل یہ دور جدید میں استحصال نسواں ہے۔  آج کی جدید جو ترقی ہے وہ آپ کو دنیا کے لیے مس یونیورس اورمس ورلڈ دے سکتی ہے لیکن ایک مثالی ماں،بہن، بیوی اور بیٹی نہیں دے سکتی۔  اسی لیے آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے مقام و مرتبے اور اپنی قدر و قیمت کو پہچانیں۔

انہوں نے کہا کہ مثالی بیوی وہ ہوتی ہے جو  شوہر کی شکر گز اراوراس کی رضا جوئی کی طالب ہو اور اگرعورت اپنے حقوق اور فرائض کو ادا کریں گی تو وہ ایک مثالی خاتون بنیں گی۔  ہم ایسی خاتون بنیں کہ لوگ ہمیں مرنے کے بعد بھی یادکریں، ایسا کردار بنائیں۔  اپنے شوہر کی اطاعت کریں،رُک کر سوچیے اُن ماں باپ کے دلوں پہ کیا بیتتاہوگا جن کے ہاں بیٹیاں بن بیاہی بیٹھی ہیں۔اللہ کا شکراو رمرد  کے احسانات کو یاد  یاد کریں، جس سے یہ شکر کا جذبہ  پیدا ہوتا ہے۔  یاد کریں جب ہم اپنے گھروں میں بن بیاہی بیٹھی ہوئی تھیں یہ آئے اور ہمیں بیاہ کر لے گئے،  ہماری سر پر ایک سائبان دیا،  ہمیں عزت کا مقام دیا،، اب انسان ہے بہت ساری بشری کمزوریاں ہوتی ہیں، انہیں نظر انداز کریں، لیکن جب تک ہم درگزر کا معاملہ نہیں کریں گے زندگی کی گاڑی آگے نہیں چل سکتی، ہم تھوڑا سا فراغ دلی کا مظاہرہ کریں اگر کبھی کچھ سخت سست ہم کو سننا پڑے تو بہت ہی سکون سے اس کو سہہ لیں، بعد میں اس کی صفائی پیش کریں۔  جب غصہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے تب بتائیں کہ ایسے نہیں معاملہ ایسے تھا۔  اگر وہ غصے میں ہے آپ بھی غصے میں ہیں دونوں میں جب جھگڑا شروع ہو جاتا ہے تو ظاہری بات ہے وہ اختتام یا تو خلع یا طلاق میں پہنچتا ہے، اسی لیے بہتر ہے کہ ہم صبر کا مظاہرہ کریں اور پھر اس رشتے کو بچانے کی ہم کوشش کریں۔ عفو و درگزر کا معاملہ آ جائے تو کوئی خاندان اورازدواجی رشتہ نہیں ٹوٹے گا۔  

محترمہ نے اسلامی تاریخ کے مختلف واقعات پر روشنی ڈالتے ہوئے حضرت ہاجرہ علیہ السلام کی استقامت، توکل علی اللہ،فرمابردار بیوی کا کردارنمایاں کیا،حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کی ذمہ داریوں سے بری کر دیا تھا، اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ مکہ کی بہترین مالدار خاتون لیکن اس کے باوجود  اطاعت اور خدمت کا عالم یہ تھاکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کچھ سامان لے جا کر غار کے باہر بیٹھی رہتی ہیں،  اپنے شوہر کی خدمت کا اگر ایسا جذبہ اور اطاعت شعاری اور شوہر کی دلجوئی کرنا ہمارے اندر آ جائے، آج چھوٹی چھوٹی باتوں پر رشتے ٹوٹ اور خاندان بکھر رہے ہیں،ان کو بچانے کے لیے اس قرآنی نمونے کو ہمیں سامنے رکھنا ہے۔ ایسے کئی نمونے اسلامی تاریخ میں درج ہیں شرط یہ ہے کہ ہم اسلامی معلومات حاصل کریں ہم قران اور دین کا مطالعہ کریں۔

محترمہ کو ثر فاطمہ ضلعی ذمہ دار شعبہ خواتین جماعت اسلامی ہند، گلبرگہ نے”عورت خوشگوار زندگی کی ضامن“ موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ  عورت خوشگوار خاندان کی ضامن ہے۔ جس سے گھر بنتا ہے،  معاشرے کی تشکیل کا لازمی جز ہے، خوشگوار خاندان کیلئے عورت کو اپنے حقوق سے زیادہ فرائض کا احساس ہو،  اپنے حدود سے آشنا ہو، اپنے شوہر کی شکر گزار ہوں۔  جہاں ہم اپنے والد ین کا احترام کرتے ہیں اپنے شوہر کے والد ین کا بھی احترام کریں۔ اپنے گھر کے معاملات افراد خانہ سے ہی ڈسکس کر یں، گھر کی باتیں گھر کے باہر جانے نہ دیں، جس سے صرف آپ کی بدنامی اور گھر کی بربادی ہی ہوگی۔ اپنے اوقات اور اپنی صلاحیت کو اللہ کی امانت سمجھیں غیر ضروری کاموں میں اپنے وقت اور صلاحیت کو ضائع مت کیجیے۔ اپنے گھروں کی طرف پورا ذہن کو مبذول کیجئے، ہم عہد کر یں کہ اپنے گھر کو ایسا خوشگوار اور مثالی گھر بنائیں گے جس میں ہمارے والدین ہمارے ساس سسر اپنے  مرنے کی دعائیں نہیں بلکہ جینے کی تمنائیں کریں اور ہمارے شوہر ہمارے اپنے گھر کو آنے اپنی بیوی بچے اور ماں باپ سے ملنے کے لیے بے چین ہوں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ گھر کا ماحول ایسا ہے آدمی گھرسے زیادہ وقت گھر کے باہر گزارنا چاہتاہے تاکہ گھر کے اندرکے جھگڑوں سے دور رہے۔ معاشرے میں ایک صحت مند تبدیلی کیلئے خوشگوار خاندان ناگزیرہے۔ ہماری کل کائنات ہمارااپنا گھرہے۔  اپنی محبت سے اپنی کائنات کو حسین اور تر وتازہ رکھیں۔

محترمہ توحیدہ سندھے ضلعی ذمہ دار شعبہ خواتین جماعت اسلامی ہند ضلع بیدرنیافتتاحی کلمات اور استقبالیہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ اس اجتماع کے مقاصد پر روشنی ڈالی۔ جس میں خوشگوار خاندان کی تشکیل نو کے لئے خواتین کو تیار کرنا،  اولاد کی اسلامی خطوط پر تربیت کے لئے خواتین کو آمادہ کرنا،اجتماعی زندگی گزار نے اور اقامت دین کی جد وہ جہد کرنے کے لئے بہتر ماحول فراہم کرنا،قرآن حکیم اور ہماری زندگی بہتر سماج کی تشکیل کے لئے عملی جد وجہد کرنے کے لئے خواتین وطالبات کو تیار کرنا، آخرت کی جو ابد ہی کا احساس پیدا کرنا، تمام اخلاقی برائیوں سے دور رہنے کی تلقین کرنا۔ جیسے نکات شامل تھے۔  

اجتماع کا آغاز محترمہ شائستہ نازکی تذکیر بالقرآن سے ہوا۔محترمہ سیدہ نوشابہ ضلعی ذمہ دار جی آئی او بیدر نے جی آئی او کا تعارف پیش کیا۔  جی آئی او بیدرکی ممبران کے ایک گروپ نے ترآنہ پڑھا۔ نظامت کی ذمہ داری نجمہ فریس معاون ناظمہ شعبہ خواتین جماعتِ اسلامی ہند، شہر بیدر نے بحسنِ خوبی انجام دیا۔ محترمہ سیدہ اُم حبیبہ صاحبہ ناظمہ شعبہ خواتین جماعت اسلامی ہند،شہر بیدر کے اظہارِ تشکر پر اجتماع اپنے اختتام کو پہنچا۔  واضح رہے کہ توقع سے کہیں زیادہ خواتین کی کثیر تعداد میں شرکت سے وسیع و عریض فنکشن ہال اپنی تنگ دامنی کا شکوہ کر رہا تھا۔ ارکان وکارکنانِ جماعت اور جی آئی او کی طالبات انتظامات میں مصروف رہے۔ 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!