ریاستوں سےمہاراشٹرا

پارلیمانی انتخابات اور SIO کا طلبائی منشور: تعلیم، روزگار اور سماجی انصاف پر توجہ کا مطالبہ

نئی دہلی: 3/مارچ (پی آر) ناگپور کے تِلک پترکار بھون میں اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا نے طلبائی منشور کا اجراء کیا، جس کا مقصد ہندوستان میں تعلیمی، اقلیتوں اور سماجی بہبود سے جڑے مسائل کو حل کرنا ہے۔

اس موقعہ پر جنرل سیکرٹری برادر سلمان مبین خان اور برادر سیّد ضیا۶الرحمن(صدرِ حلقہ ایس آئی او مہاراشٹر شمال) نے میڈیا کو مخاطب کیا اور منشور کی تفصیلات بیان کیں۔

طلبائی منشور، طلباء کے ان مطالبات پر مشتمل ہے جسے ایس آئی او 2024ء کے پارلیمانی انتخابات میں توجہ کا مرکز بنانا چاہتی ہے۔ طلبائی منشور میں درج ذیل امور کو نمایاں کیا گیا ہے۔

مساویانہ ریزرویشن: ایک بہتر اور منصفانہ ریزویشن کے نظام کی تائید تاکہ تمام کے لئے مواقع کو یقینی بنایا جاسکے۔

سماجی-معاشی طور پر پسماندہ اضلاع پر خصوصی توجہ: متوازن ترقی کے لیے حاشیہ زدہ علاقوں کی ترقی پر توجہ

روہت ایکٹ کا نفاذ: طلباء کے تحفظ اور انصاف کو یقینی بنانے کے لیے روہت ایکٹ کا نفاذ۔

مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ (MANF) کی بحالی اور اقلیتوں کی اسکالرشپ میں اضافہ: تعلیم تک مساوی رسائی کے لیے اقلیتی طلباء کو مالی امداد کی فراہمی۔

امتیازی مخالف قانون: ( Anti discriminatry Law) امتیازی سلوک اور عصبیت سے پاک سماج کے لیے جدوجہد۔

پرسنل ڈاٹا پروٹیکشن قانون اور پرائیویسی چارٹر: افراد کی رازداری اور ڈاٹا کی محافظت ۔

ماحولیات اور استدامی فنڈ: ماحولیاتی اقدامات اور استدامی سرگرمیوں کے لیے 100 کروڑ وقف کیے جائیں۔

ملک بھر میں نوجوانوں کے لیے صحت اور ذہنی تندرستی کے مراکز: نوجوانوں کی ہمہ جہتی صحت کو ترجیح بنانا

ابتدائی تعلیم سے یونیورسٹی کی سطح تک مفت اور لازمی تعلیم کو یقینی بنانا: تمام کے لیے قابل رسائی تعلیم کا عزم۔

نوجوانوں کے لیے روزگار ضمانت قانون: ملک کے نوجوانوں کے لیے روزگار کی ضمانت اور مواقع کو ہموار کرنا۔

پریس میٹ میں ایس آئی او کی قیادت نے ملک کے تعلیمی منظرنامے کے پریشان کن رجحان پر بات کی۔ مجموعی خواندگی کی شرح %74.04 ہونے کے باوجود ، جو کہ %86.3 کے عالمی اوسط سے کافی کم ہے، کئی ریاستیں بہ مشکل ہی ملکی سطح کو عبور کرپاتی ہیں۔

برادر سلمان نے مرکز کی جانب سے مذہبی اقلیتوں کے لیے کلیدی تعلیمی اسکیموں کو بند کرنے، دوسروں کے لیے دائرہ کار کو محدودکرنے، وزارت برائے اقلیتی امور کےماتحت پروگراموں پر اخراجات کو گھٹانے اور جی ڈی پی میں تعلیمی بجٹ کے حصہ کو 2.9 فیصد تک کم کرنے ، جو قومی تعلیمی پالیسی 2020 میں 6 فیصد کے متعینہ ہدف سے کافی کم ہے(جیسے اقدامات پر) تشویش کا اظہار کیا۔

انہوں نے اس صریح تضاد کی جانب توجہ مبذول کروائی جو ہندوستان اور دیگر ممالک جیسے جاپان، کینیڈا اور فرانس کے جی ڈی پی میں مختص عوامی صحت کے حصوں میں پائی جاتی ہے۔ بھارت کے 2.1% کے بالمقابل مؤخر الذکر ممالک تقریباً 10 فیصد حصہ مختص کرتے ہیں۔
بے روزگاری اس وقت ہندوستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ پارلیمنٹ میں پوچھے گئے ایک سوال کے تحریری جواب میں، وزیر اعظم کے دفتر نے کہا کہ یکم مارچ 2023 تک تمام وزارتوں میں تقریباً 10 لاکھ اسامیاں خالی تھیں۔جبکہ حکومت یونیورسٹیوں اور وزارتوں میں خالی اسامیوں کو پر کرنے کے سلسلے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ امتحان اور تقرری کے عمل میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی اور دھاندلی پائی جاتی ہے۔

مسلم طلباء میں ڈراپ آؤٹ کی تشویش ناک شرح کو موضوع بحث بناتے ہوئے، برادر سلمان نے اس بات پر زور دیا کہ انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز نے 23.1% ڈراپ آؤٹ ریٹ کی نشاندہی کی ہے ، جو کہ 18.96% کے قومی اوسط سے متجاوز ہے۔ مسلم طلباء کا داخلہ 2019-20 میں 5.5% سے کم ہوکر تعلیمی سال 2020-21 میں 4.6% ہوکر رہ گیا ہے۔ روشن نے علمی آزادی کےروبہ زوال ہونے پر بھی روشنی ڈالی، جو کہ V-Dem انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے تیار کردہ علمی آزادی کے اشاریہ میں 179 ممالک کی فہرست میں بھارت کا مقام نچلے 30 فیصد میں ہونے سے ظاہر ہوتا ہے۔

انہوں نے ذہنی صحت کے بحران پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 15 سے 30 سال کی عمر کے لوگوں میں موت کی سب سے بڑی وجہ خودکشی ہے، ہر 42 منٹ میں اوسطاً 34 طلباء اپنی جانیں لے رہے ہیں۔

برادر سید ضیا الرحمن نے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور DOTO ڈیٹا بیس کا حوالہ دیتے ہوئے، نفرت پر مبنی جرائم میں تیزی سے اضافے کی جانب توجہ مبذول کروائی۔ انہوں نے انسانی جانوں کے تحفظ اور مذہبی امتیاز کے سدباب کے لیے فوری توجہ دینے پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ طلباء اور نوجوان اس ملک کا سب سے بڑا حلقہ ہیں اور سیاسی جماعتوں کو ووٹ مانگتے وقت ان کی ضروریات کو بطورخاص طور پیش نظر رکھنا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ منشور سیاسی جماعتوں سے تقاضا کررہا ہے کہ وہ ملک کے مستقبل میں سرمایہ کاری کریں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ طلباء اور نوجوان نِرے وعدوں یا تفرقہ انگیز سیاسی ایجنڈوں سے بھٹکنے والے نہیں ہیں۔ اس کے بجائے وہ ٹھوس انتخابی منشور کا مطالبہ کرتے ہیں جو قابل رسائی اور معیاری تعلیم، روزگار، امن اور محفوظ ماحول کی ضمانت دے سکے۔


جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!