حالاتِ حاضرہسماجیمضامین

نفرت کے فروغ میں میڈیا اور فلموں کا رول

محمد عبدالحلیم اطہر سہروردی، گلبرگہ

عالمی سطح پر خاص کر ہمارے ملک ہندوستان میں اکیسویں صدی کے آغاز سے ہی اسلام کودہشت گردی سے جوڑ کرمسلمانوں کی شبیہ داغدار کرنے اور انہیں ظالم قرار دینے کی کوشش ہر جانب سے ہونے لگیں اور میڈیا نے ہر پلیٹ فارم سے اس کوشش کا ساتھ دیا۔ دوسری جانب ہمیشہ ہی ہندوستانی مسلمان ملک سے وفاداری کو ثابت کرتے رہے لیکن بے وفائی کا داغ گہرا ہی ہوتا رہا۔مسلمانوں کو ملک کے لیے خطرہ سمجھاگیا، غاصب اور غدار دکھایا گیا، ملک کی اسلامی تاریخ کو نہایت داغدار بنا کر پیش کیا گیا، معماران وطن اور مجاہدین آزادی کو لٹیروں کا لقب دیا گیا، اپنے ہیرو تلاش کیے گئے اور اصل مسلمان ہیروؤں کو غائب کر دیا گیا۔ساتھ ہی انتظامی اور قانونی عہدوں تک اس ذہنیت کو طویل جد وجہد کے بعد پیوست کیا گیا، آزادی کی بعد کی سب سیاسی پارٹیاں جو سیکولرازم کا چولہ اوڑھ کر آئی اس نے بھی سماجی سطح پر غلط فہمیوں کے ذریعہ بھڑکائی گئی نفرت کی آگ برقرا رکھی، دوسری جانب فرقہ پرست طاقتوں کے ذریعہ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے قریب ہونے کے امکانات کو ختم کرنے کی کوششیں جاری رہیں، فسادات کے سبب نفرت کی خلیج بڑھتی رہی۔

پھر اقتدار،دولت اور طاقت کے سہارے باقی بچی کسر پوری کرنے کا کام ہوا، میڈیا کو خرید کر من چاہی فضا ہموار کی گئی، ڈیموکریسی کی دھجیاں اڑاتے ہوئے انتظامی اور قانونی اداروں کو غلام بنا لیا گیا۔ہمارے ملک میں دنیا کا سب سے اعلیٰ جمہوری نظام اور سب سے مستحکم آئین و دستور موجود ہے، جس کی پاکیزہ روح اور صاف شفاف روشنی ہم سب کو اس بات کا مکلف و مجاز بناتی ہیکہ ہم سب مل کر بلا تفریق مذہب و ملت اور علاقائیت اس ملک میں آپسی پیار و محبت کی فضا قائم کر کے ایک ساتھ برسوں پرانی روایات کی پاسداری اور مذہبی رواداری کا پاس ولحاظ اورمشترکہ تہذیب و ثقافت کی رعایت و عملداری کریں جو ہمیں اپنے آباؤ و اجداد سے وراثت میں ملا ہے، یہی نہیں بلکہ معاشرتی بنیادوں کو مضبوط کرنے اور مصیبت و پریشانی کے وقت ایک دوسرے کو مالی مددپہنچا کر ہر ایک کے ساتھ جذبہ خیرسگالی اور انسانیت کو فروغ دیں گے، تاکہ کوئی بھی ہندوستانی خود کو تنہا اور بے یار و مددگا محسوس نہ کرے۔

لیکن افسوس! ہمارا یہ ملک اس ڈگر اور خطوط پر قائم و برقرار نہ رہ سکا یا یوں کہئے کہ آزادی کے بعد کچھ ایسے اسباب و عوامل در آئے کہ نفرت کے پجاری اور ہندو مسلم تفریق کے مجرموں نے دونوں فریقین کے مابین نفرت کی آگ کوایسا بھڑکایا کہ ملک کی یہ "دو برادریاں نفرت کی اس آگ میں گھر گئیں۔دوسری جانب عالمی سطح پر عالم اسلام کی طاقت کمزور کرنے افغانستان، عراق اور شام کو تاراج کیا گیا، مصر اور لیبیا کو مکمل کنٹرول میں لیا گیا، سعودیہ، امارات، کویت، لبنان اور بحرین پر اپنے پنجے گاڑ دیے گئے کہ وہ اپنی سانس آپ نہ لے سکیں، یمن کو فرقہ وارانہ آگ میں جھونک کر کمر توڑ دی گئی، تونس، مراکش اور شمالی افریقہ کے ممالک تو ماضی کے ملبے سے باہر ہی نہ آسکے، پاکستان داخلی سیاسی رسہ کشی سے سر نہ اٹھا سکا اور غلامی کے ڈالر کے تلے دبتا چلا گیا، ملیشیا اور انڈونیشیا جیسے ملک اپنی معاش سے آگے بڑھ کر عالمی سیاست میں عسکری نہ ہی سیاسی کوئی اثر رکھنے کے قابل ہو سکے۔

آج کل دی کشمیر فائلس نامی فلم موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ اس فلم میں ایسا کیا ہے جس نے اس پر تنازعہ کھڑا کر رکھا ہے۔ یہ فلم جنوری 1990 کے اس واقعہ پر مبنی ہے جب وادی کشمیر میں عسکریت پسندی کی ابتدا ہوئی تھی اور اس دوران سینکڑوں کی تعداد میں کشمیر کے ہندو پنڈتوں (واضح رہے کہ کشمیر میں مسلم پنڈت بھی ہوتے ہیں) کو وادی چھوڑنا پڑا تھا۔ اس وقت بی جے پی کی حمایت یافتہ وشوناتھ پرتاپ سنگھ کی حکومت مرکز (دہلی) میں بر سر اقتدار تھی اور بی جے پی کے سینئر لیڈر جگموہن جموں و کشمیر کے گورنر کے عہدے پر فائز تھے۔

ناقدین نے فلم کے کئی پہلو پر سوالات اٹھائے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ فلم میں صرف ایک رخ کو یعنی پنڈتوں پر مظالم کو ہی دکھایا گیا ہے لیکن دوسرے فریق پر ہوئے ظلم کو نہ صرف نظر انداز کیا گیا ہے بلکہ انہیں صرف ولن کے طور پر ہی پیش کیا گیا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ جب متعدد متاثرین اس فلم میں پیش کئے گئے مناظر کو حقائق کے برخلاف قرار دے چکے ہیں تو پھر اس فلم کو کیوں دکھایا جا رہا ہے۔سماجی ماہرین کو اس فلم میں رومن پولانسکی کی دی پیانسٹ فلم کی جھلک دکھائی دے رہی ہیں جسمیں دوسری جنگ عظیم کے دوران یہودیوں پر ہوئے مظالم کی روداد ہے۔ کچھ تجزیہ نگاروں کوفرانسیسی فلم لا ہین یعنی نفرت کے اس ڈائیلاگ کی یاد آگئی ہے جسمیں کہا گیا ہے کہ "نفرت سے نفرت ہی پیدا ہوتی ہے۔ ماہرین سماجیات کو "ٹیرینٹینو اور گیسپر نوئے فلموں کی بھی یاد آرہی ہے جس میں ظلم و بربریت کو حقیقی رنگ دینے کے لئے انتہائی جذباتی مناظربیباکی کے ساتھ استعمال کئے گئے تھے۔

سماجی ماہرین کو تشویش ہے کہ ایک ہی رخ پر بنائی گئی فلم "دی کشمیر فائلس کہیں پرانے زخموں کو پھر تازہ نہ کردے اور ملک میں ایک مخصوص طبقے کی نسل کشی کے غلط پروپگندے کی صرف ایک چنگاری کہیں شعلے میں نہ تبدیل ہو جائے۔اس فلم سے آنے والے وقتوں میں ہندو مسلم کھائی مزید گہری ہوجائے گی۔کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ کشمیر فائلس آر ایس ایس کے ایجنڈے کی تکمیل کا اہم ستون ہے۔آج سارا میڈیا دن رات کشمیر فائلس پر ہی پروگرام کر رہا ہے۔مطلب وہ اپنے ٹارگٹ کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔کشمیر فائلس سے آر ایس ایس کا پلان بالکل کامیاب ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ بی جے پی کی اسپانسرڈ فلم ہے۔ جسکا مقصد ملک گیر سطح پر اکثریتی طبقے میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کو بھڑکائے رکھنا ہے۔ جس سے کہ بی جے پی لوگوں کی توجہ معاشی بدحالی، بے تحاشہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری جیسے بنیادی مسائل سے ہٹا سکے اور اسکا ووٹ بینک نہ صرف مستحکم رہے بلکہ اس میں اضافہ بھی ہوتا رہے۔

میڈیا چاہے وہ سوشل میڈیا ہو، پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا،جب میڈیا فرقہ واریت کا مریض ہوجائے تب یہ بے حدخطرناک ہوجاتا ہے۔سب مانتے ہیں میڈیا بڑا طاقتور ہوتا ہے لمحوں میں غلط کو صحیح اورظالم کو مظلوم بنا دیتا ہے۔جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے دیکھنے میں آرہا ہے کہ ملک کا میڈیا مکمل زعفرانی رنگ و سوچ میں ڈھل کر چاپلوسی اور خوشامد کے ذریعہ ہر موقع پر اپنی وفاداری اور غلامی کا ثبوت پیش کر رہا ہے اور خاص طبقہ کے افراد اور حکمراں جماعت کی خوشنودی حاصل کرنے میں اپنی تمام تر ذمہ داریوں کو پس پشت اور پریس کونسل آف انڈیا کے متعین کردہ رولس اور حد بندیوں کی خلاف ورزی کرنے اور اظہار رائے کی آزادی کے نام پر صحافت کے اصول و ضوابط کو بُری طرح سے مجروح کر رہا ہے، ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر مسلسل ایک خاص طبقہ کے افراد کو نشانہ بنانے، اس کے متعلقہ اداروں، جماعتوں کو ہرمسئلہ کا مجرم قرار دینے کی ناپاک و مذموم کوششیں کر رہاہے، کبھی مدارس و مساجد کے انتظامات کو نشانہ بنا کر، کبھی اذان و نماز کی ادائیگی پر اور کبھی حجاب و نقاب کی پابندی کرنے والی ماؤں بہنوں کونشانہ بنا کر، انہیں احساس کمتری میں مبتلا کرنے کی کوشش کررہا ہے، اور صرف اس بات کی تشہیر کررہا ہیکہ مسلمان اس ملک کے تئیں وفادار نہیں ہے یہی سب کچھ اس دوغلے میڈیا کا پسندیدہ مشغلہ بن کر رہ گیا تھا۔

اس کے علاوہ زرخرید میڈیا کا ایک محبوب کام یہ ہو گیا ہیکہ اس ملک کے عوام کو برابر ہندو مسلم کی تقسیم کرتا رہے تاکہ برسوں سے قائم یہاں کی قومی یکجہتی کو ختم کرکے آپسی اتحاد و اتفاق اور باہمی رواداری کا جنازہ نکال دے اور ملک کو "ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے اس کی دیرینہ خواہش پوری ہو جائے،چاہے اس کے لئے ملک کو خوشحالی و ترقی سے محروم ہی کیوں نہ کرناپڑے۔

ہر حادثہ کے ہوتے ہی بنا تحقیق اور بنا کسی جانچ پڑتال کے یہ میڈیا لمحہ بھر کی تاخیر کئے بغیر پوری دنیا کو اس بات کا پیغام دیتے ہیں کہ اسلام اور مسلمان اس کے ذمہ دار ہیں، اور یہ سب منظم سازش اور طے شدہ منصوبہ کے تحت ہوتا ہے اس طرح سے عالمی سطح پر اسلام اور مسلمانوں کی شبیہہ کو مسخ کرنے میں یہ گودی میڈیا اپنا ناپاک کردار ادا کرنے میں شب و روز مصروف ہے۔ہمیشہ معمولی سطح کی باتوں اور چھوٹے درجے پر رونما ہونے والے واقعات کو لیکر ملک کا بکاؤ میڈیا من مانے طور پر بے تکی خبروں کی ترسیل اور نمک مرچ لگی باتوں کو عوام کے تک پہنچاتا ہے، جس کی بدولت ملک کو دن بدن نفرت کی بھٹی میں جھونکنے اور یہاں کے بھولے بھالے عوام کی سادگی اور سنجیدگی کا ناجائز فائدہ اٹھا کر اس زعفرانی میڈیا نے وہ کھیل کھیلا جہاں سے واپسی ہوتی مشکل نظر آ رہی ہے۔

آخر وہ کونسی طاقتیں اور سازشی دماغ اور فرقہ پرست طاقتیں ہیں جو ہندو مسلم تفریق کو ہوا دے کر ملک کو ایک اور تقسیم کی ڈھکیلنے کی سازشیں کر رہے ہیں، اس کا منفی پہلو جان بوجھ کر یکسر نظر انداز کیا جارہا ہے، ایک تو یہ کہ عالمی سطح پر ہندوستان کی شناخت مجروح ہورہی ہے اور دوسری یہ کہ ترقی و خوشحالی کے میدان میں ہندوستان تیزی سے بڑھ رہا تھا اب وہ اس دوڑ میں پیچھے ہوتا جارہا ہے، اب وقت آگیا ہیکہ بلا لحاظ مذہب و ملت عوام کو نفرت اور فرقہ پرستی کی آگ پھیلانے والوں کو سبق سکھانا ہوگا اور ان فرقہ پرست طاقتوں کو شکست دینا ہوگاورنہ اکیسویں صدی میں ہندوستان کو ترقی یافتہ ملک بنانے کی جدوجہد خواب بن کر رہ جائے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!