اسٹیٹ بینک آ ف انڈیا (SBI) اڈانی کیپٹل پارٹنرشپ تباہ کن ہے: SDPI
نئی دہلی: 20/جنوری (پی آر) سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (SDPI) کے قومی صدر ایم کے فیضی نے کسانوں کو قرض حاصل کرنے میں مدد کرنے کی آڑ میں اسٹیٹ بینک آف انڈیا (SBI)۔ اڈانی کیپٹل کی شراکت داری کا سخت نوٹس لیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ یہ شراکت داری پبلک بینکنگ سیکٹر اور کسانوں کیلئے انتہائی تباہ کن ہے، اس لیے اس معاہدے کو ترک کردینا چاہئے۔
ایس ڈی پی آئی نے شروع سے ہی کارپوریٹ صنعتی میگنٹ کو بینکنگ سیکٹر میں داخل ہونے کی اجازت دینے کے فیصلے پر اعتراض کیا ہے۔ ملک دیکھ رہا ہے کہ سنگھ پریوار کی حکومت نے جب سے مرکز میں اقتدار سنبھالا ہے عوامی املاک کو کارپوریٹ کمپنیوں کو فروخت کررہی ہے۔ مرکزی حکومت کھبی بھی ملک یا عوام کی فلاح و بہبود کی پابند نہیں رہی، وہ اپنے کارپوریٹس دوستوں کی خدمت کررہی ہے۔2014 سے عوام کے نمائندے نہیں بلکہ یہ کارپوریٹس ہیں جو ملک پر حکومت کررہے ہیں۔ اقتصادی ماہرین کا کہناہے کہ یہ معاہدہ بینکنگ سیکٹر کیلئے سنگین نتائج کا حامل ہے۔ پہلے سے دستخط شدہ شراکت داری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ” یہ کاشتکاروں کو ٹریکٹر اور زرعی آلات کی خریداری کیلئے شریک قرض دینے کیلئے ہے”۔
ایس بی آئی کے چیئرمین کے مطابق، “یہ شراکت داری ایس بی آئی کو کسٹمر بیس کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ ملک کے پسماندہ زرعی شعبے جڑنے میں مدد دیگی اور ہندوستان کی زرعی معیشت کی ترقی میں مزید تعاون کرے گی۔ ہم دور دراز علاقوں میں زیادہ سے زیادہ صارفین تک پہنچنے اور بینکنگ خدمات فراہم کرنے کیلئے مزید غیر بینکاری مالیاتی کمپنیاں (NBFCs) کے ساتھ کام جاری رکھیں گے۔ ایس بی آئی کا ملک بھر میں 22,219شاخیں 2,45,652 ملازمین اور 71,968کاروباری نمائندوں کا ایک وسیع نیٹ ورک ہے۔ اور اس طرح چیئرمین کا یہ بیان کہ معاہدے سے کسٹمر بیس کو بڑھانے میں مدد ملے گی، بے بنیاد ہے اور عام آدمی مخالف معاہدے کو جواز فراہم کرنے کی صرف ایک فضول کوشش ہے۔
اسٹیٹ بینک آف انڈیا سمیت پبلک سیکٹر کے بینک عام لوگوں کیلئے سماجی طور پر پر عزم خدمات کیلئے معروف ہیں۔ جبکہ نجی شعبے کی نان بینکنگ صنعتی فرموں کی ایسی کوئی سماجی وابستگی نہیں ہے۔ ان کا واحد ہدف منافع خوری ہے۔ زیادہ تر غیر بینکاری مالیاتی کمپنیاں (NBFCs) کارپوریٹ ادارے ہیں جو پبلک سیکٹر کے بینکوں سے بڑی رقم ادھار لینے کے بعد خراب قرض کیلئے بدنام ہیں۔ اڈانی گروپ ایک مضبوط کارپوریٹ ہے جو زرعی شعبے میں مداخلت کرتاہے، لہذا، یہ ظاہر ہے کہ موجودہ معاہدہ اڈانی گروپ کے فائدے اور کسانوں کے نقصان کیلئے ہے۔
یہی معاملہ زرعی قوانین میں ترمیم کا بھی تھا جسے تقریبا ایک سال تک سڑکوں پر کسانوں کی مسلسل جدوجہد کے بعد حکومت واپس لینے پر مجبور ہوئی تھی۔ ایس بی آئی اور اڈانی کیپٹل کا یہ معاہدہ کسانوں سے مشاورت کیے بغیر کیا گیا ہے، جن پر یہ معاہدہ سب سے زیادہ منفی اثر ڈالے گا۔
ایس ڈی پی آئی قومی صدر ایم کے فیضی نے زور دیا ہے کہ آر بی آئی کو غیر بینکاری مالیاتی کمپنیاں (NBFCs) کو مالیاتی کمپنیاں شروع کرنے کی اجازت دینا ختم کردینا چاہئے اور کسانوں کے فائدے کیلئے اڈانی کیپٹل کے ساتھ موجودہ معاہدے کومنسوخ کرنا چاہئے۔