مسلم نسل کشی کا مطالبہ کرنے والے ہندوتوا لیڈروں کوفوری گرفتار کیا جائے: الیاس محمد تمبے
نئی دہلی: 25/دسمبر (پی آر) سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (SDPI) کے قومی جنرل سکریٹری الیاس محمد تمبے نے اپنے جاری کردہ اخباری بیان میں ہریدوار میں دھرم سنسد اوردوسرے دن دہلی میں ہندو یوا واہنی کے اجتماع میں انتہائی دائیں بازو کے ہندوتوا عناصر کی طر ف سے مسلمانوں کی نسل کشی کی دھمکی کی سخت مذمت کی اور مذہب کے نام نفرت پھیلانے والوں کے خلاف گرفتاری اور قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ ہندوستان کوئی مذہبی ریاست نہیں ہے۔ ہندوستانی آبادی بے شمار متنوع مذہبی، ثقافتی اور سماجی فرقوں پر مشتمل ہے۔
ہندوتوا فاشسٹوں کے ملک کے مختلف حصوں میں فرقہ وارانہ تشدد اور فسادات کے ذریعے سماجی ہم آہنگی کو درہم برہم کرنے کی مسلسل کوششوں کے باوجود ملک میں یہ لوگ 2014تک نسبتا ہم آہنگ سماجی ماحول میں رہ رہے تھے۔ یقینا، ملک میں بہت سے فرقہ وارانہ فسادات شروع کئے گئے تھے اور انتہائی دائیں بازو کے ہندوتوا عسکریت پسندوں نے لاتعداد مسلمانوں کو قتل کرکے ا ن کی املاک کو تباہ کیا تھا، لیکن وہ اتنے دلیر نہیں تھے کہ بہت کم واقعات کو چھوڑ کر علی اعلان نسل کشی یا فسادات کا مطالبہ کریں۔
ملک میں سیکولر جمہوری سیاسی جماعتیں اگرچہ پوری طرح کامیاب نہیں ہوئیں لیکن فسادات پر قابو پانے اور مجرموں کو ایک حد تک سزا دینے میں کامیاب ہوئیں۔ لیکن آر ایس ایس کے پشت پناہی سے2014میں مرکزمیں این ڈی اے کے اقتدار میں آنے کے بعد ملک میں فرقہ وارانہ توازن اور ہم آہنگی مکمل طور پر بگڑ گیا ہے۔ آر ایس ایس کی حکومت نے تمام نام نہاد دائیں بازو کے ہندتوا عسکریت پسندوں کو مرکزاور ریاستوں میں جہاں وہ اقتدار میں ہیں سڑکوں پر کھلا چھوڑ دیا ہے۔ کوئی بھی زعفرانی پوش غندہ بغیر پوچھ تاچھ کے کسی بھی ظلم میں ملوث ہوسکتا ہے۔ اگر یہ مسلمانوں یا دلتوں کے خلاف ہے اور رام کے نام پر ہے۔
سنگھی حکومتوں نے ملک میں امن کو یقینی بنانے یا امن وامان برقرار رکھنے کی زحمت نہیں کی ہے۔ ملک میں مسلمانوں کی نسل کشی کا علی ااعلان تقاریر موجودہ حکومت کی طرف سے ان میں پیدا کئے گئے اعتماد کا نتیجہ ہے۔ انہیں یقین ہے کہ انہیں قانونی کارروائی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، چاہے وہ اپنی دھمکیوں کو عملی جامہ پہنچائیں۔ ملک میں نفرت پھیلانے والوں کی طرف سے جان بوجھ کر پھیلایا جانے والا فرقہ وارانہ منافرت اپنی حدیں پار کر چکا ہے۔ بی جے پی لیڈر اشونی اپادھیائے نے جس تقریب میں شرکت کی وہ گواہی دیتا ہے کہ یہ ایک ایسی تقریب تھی جس کا اہتمام حکام کی اجازت اور جانکاری سے کیا گیا تھا۔
اتراکھنڈ سے تعلق رکھنے والی دائیں بازو کی تنظیم ہندو رکشا سینا کے صدر سوامی پربودھانند گری کا یہ بیان کہ “ہر ہندو کو ہتھیا ر اٹھا نا ہوگا اور ہمیں یہ صفائی مہم چلانی ہوگی “، یہ ایک ایسا بیان ہے جو غیر قانونی، آئین مخالف اورایک مجرمانہ مقدمے درج کرنے کیلئے کافی ہے۔ لیکن حکومت تشدد کے اس کال پر آنکھیں بند کی ہوئی ہے۔ اسی طرح دہلی میں عسکریت پسند ہندوتوا گروپ یوا واہنی کے ایک اور اجتماع میں یوگی آدتنہ ناتھ کے چیلے دائیں بازو کے فسادی سریس چوہانکے نے ہندوستان کو ایک “ہندو راشٹر بنانے کیلئے، لڑو، مرو اور مارو”کی کال دی تھی۔ اجتماع نے اس کال کو عملی جامہ پہنانے کا حلف بھی لیا ہے۔
یہ دونوں فرقہ وارانہ زہریلے اجتماعات، شرکاء کے بیانات اور حلف دائیں بازو کے ہندوتواعسکریت پسندوں کی طرف سے ملک کی ہم آہنگی والی سماجی ساخت کو بگاڑنے اور اسے نقصان پہنچانے اور نسلی تطہیر کو انجام دینے کے ان کے منصونے کا واضح اشار ہ ہے۔ لوگوں کا ہندوتوا حکومتوں سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ ہندوتوا عسکریت پسندوں کی طرف سے اس قسم کی فرقہ وارانہ پولرائزیشن کی کوششوں کو ختم کرنے کا واحد حل مضبوط عوامی مزاحمت ہے۔ ان نسل پرسوں کو لگام لگائے جانے سے ہی امن اور ہم آہنگی غالب رہے گی۔
ایس ڈی پی آئی قومی جنرل سکریٹری الیاس محمد تمبے نے ملک کے جمہوری، سیکولر لوگوں پر زور دیا ہے کہ وہ عوامی مزاحمت کے ذریعے ان عسکریت پسندوں کو شکست دیکر ملک کو بچانے کیلئے ہاتھ بٹائیں۔