ممبئی: یومِ انسانی حقوق کی مناسبت سے MPJ اور سد بھاوٴنا منچ کی جانب سے پریس کانفرنس کا انعقاد
ممبئی: 10/دسمبر (پی آر) 10/دسمبر کو عالمی یوم حقوق انسانی کے طور پر منایا جاتا ہے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں جس قدر انسانی حقوق پر گفتگو ہورہی ہے اسی تناسب یا اس سے زیادہ اس کی پامالی کی شکایتیں عام ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حقوق انسانی کی بدترین پامالیوں کے اسباب کا پتہ لگا کر اس کا حل پیش کرنے کے ساتھ ہی انسانوں کے حقوق کی حفاظت کیلئے عملی صورت گری کی جائے۔ جماعت اسلامی ہند اور اس کی تمام ذیلی تنظیمیں مستقل مزاجی سے اور ہمیشہ ہی سے انسانی حقوق کیلئے جدوجہد کرنے والوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی رہی ہے۔
موومنٹ فار پیس اینڈ جسٹس اور سدبھاوٴنامنچ کی جانب سے آج کی پریس کانفرنس کا مقصد بھارت میں انسانی حقوق کا جدید دور کے اعتبار سے جائزہ لینا ہے۔ اس بات کا خصوصی احتساب لینا کہ ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کیے بغیر سول سوسائٹی کا قیام عمل میں نہیں لایا جا سکتا۔ تاہم بدقسمتی سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی آج کل ہماری زندگی کا حصہ بن چکی ہے۔ موب لنچنگ، تعصب، مذہبی مقامات پر حملے اور ہر جگہ فرقہ وارانہ منافرت پھیلانا بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی چند مثالیں ہیں۔ موومنٹ فار پیس اینڈ جسٹس اور سدبھاونامنچ کی جانب سے اس پریس کانفرنس کا انعقاد ملک کی صورتحال کا جائزہ لینے اور انسانی حقوق کے دن کے موقع پر اس کے تحفظ کے لیے تدارکاتی اقدامات تجویز کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔
یشودھا ساروے (جرنلسٹ و سماجی کارکن) حق اور ادھیکار کے تمام ہی مدوں کو لے کر آواز اٹھانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔تمام لوگوں کو صاف پانی ملے، اُنہیں غذائیت کی پوری سہولیات کی فراہمی ہونی اشد ضرورت ہے۔ مولانا الیاس فلاحی (معاون امیرِ حلقہ جماعت اسلامی ہند مہاراشٹر) نے کہا کہ خوشی کی بات ہے کہ بھارت نے حقوق انسانی کے تحت آواز اٹھانے اور اس کی نگہبانی کی بھی کوشش کی ہے۔ آج حقوق انسانی بری طریقے سے پامال ہو رہے ہیں اور اس کی آواز محض کتاب تک محدود ہو چکی ہے۔ اپنی گفتگو میں کسانوں پر ہوا ظلم، لکھمم پور کے واقعات کا احاطہ کیا۔ ملک میں نفرت کا ماحول اور لینچنگ جیسے معاملات معمول بن چکے ہیں۔ دراصل آج کا 10 دسمبر کا دن اس بات کا احتساب کرنا ہے کہ ہم انسانی حقوق کی بقا کو بغیر مذہب و ملت کی تفریق کیے اپنی کوششوں میں تن من دھن کی بازی لگائیں۔
رمیش کدم (صدر، موومنٹ فار پیس اینڈ جسٹس) آج کا دن محض سوال اٹھانے کا نہیں بلکہ اُس کے لیے حل اور تدارک پیش کرنے کا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام ہی گروہ اور سماج ایک ہوکر دشمن کا مقابلہ کرسکیں۔قوم یا مذہب کا حصہ بننے سے نکل کر ایک انسان بننے کی طرف پہل ہونا انتہائی اہم موضوع ہے۔
ڈاکٹر سلیم خان (سیاسی تجزیہ نگار) نے بہن سدھا بھردواج کا تذکرہ کرتے ہوئے اُن کا جیل سے چھوٹنے پر خوشی کا اظہار کیا۔ جنہوں نے آدی واسیوں کے لیے چھتیس گڑھ میں حقوق انسانی کے لئے اپنی زندگی کا حصّہ واقف کردیا۔ دوسری خبر شرجیل امام کو دوسری ضمانت ملنے کے متعلق خوشی کا اظہار کیا۔ جو شخص سماج کی خدمت کے لیے قربانیاں دے رہا ہے۔ اُنہیں جیل کی سلاخوں میں ڈالا جاتا ہے اور جو دیش کو لوٹنے کے درپے ہیں اُن کی عزت افزائی کی جاتی ہے اور مختلف ایوارڈز سے نوازا جاتا ہے۔ اپنی گفتگو میں اُنہوں نے بڑے پیمانے پر UAPA قانون لگایا جانا، اعلیٰ ذمّے دران کی جانب سے بے تکے اور بیوقوفانہ بیانات کا احاطہ کیا۔
حسن کمال (سینئر جرنلسٹ و تجزیہ نگار) نے کہا کہ آج تک کبھی بھی کسی سیاسی پارٹی کا انسانی حقوق کا تحفظ موضوع رہا ہے نہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ جو انسانی حقوق کے متعلق آواز اٹھاتا ہے اُن کے خلاف الگ الگ چارجز بھی لگا دیے جاتے ہیں۔ راشٹروادی کے آج کے دور کے اعتبار سے معنی کو پیش کیا کہ آج راشٹروادی کسی قوم یا ملک کی محبّت نہیں بلکہ دوسرے ممالک يا اقوام سے نفرت کے جذبات کے ذریعے پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ اب ہم نے ملک کے آئین کو پڑھنا اور سمجھنا شروع کردیا ہے۔
وشواس اُٹگی (ماہرِ اقتصادیات و بینکر) نے کہا کہ قانون تو بنتے ہیں لیکن جب اُن پر عمل آوری نہیں ہوتی تب ہی حقوق کے عدم تحفظ اور خلاف ورزی کی بات سامنے آتی ہے۔ عام عوام سے ٹیکس اور دیگر رقمیں لے کر ملک کو بیچنے والوں تک پہنچانے کی عام پہل جاری ہے اور یہ سب سے بڑا انسانی حقوق کے تحفظ کے تحت خطرہ ہے۔ یہ ضرورت ہے کہ ہم سب مل کر انسانی حقوق کے تحفّظ کے لئے اپنا قیمتی رول ادا کریں۔ پریس کانفرنس میں مزید کئی دانشور حضرات نے بھی شرکت کی۔ عبد الحسیب بھاٹیکر، سرفراز آرزو، ہمایوں ںشیخ، اشرف خان وغیرہ بھی شریک رہے۔ شاکر شیخ (صدر سد بھاونا منچ ممبئی) نے پریس کانفرنس میں نظامت کے فرائض انجام دیے۔