آواز: عوام سےایڈیٹر کے نام

نوجوان: بے راہ روی کا شکار، والدین اوراساتذہ کی توجہ درکار

محمد عبداللہ مدثر آزاد، بیدر

اصلاحی مقاصد پر قائم کی جانے والی تنظیمیں یا تو اپنے مقاصد پر قائم نہیں یا پھر تنظیمیں ہی ناقابل رہ گئی ہیں۔ چہ جائیکہ سرپرست کے پاس اپنی تربیت کے لیے وقت ہو۔ ہر جگہ مہنگائی، رشوت، جہیز اور جھوٹی شان نے ضرورت سے زیادہ کمانے پر مجبور کردیا ہے۔ سب سے پہلے انسان کو یاد دلانا ہوگا کہ یہ دنیا فانی ہے۔ دنیا میں اُتنا ہی کمائیں جتنی ضرورت ہو۔

ہم نے کئی ایسے اساتذہ کو دیکھا ہے جو وظیفہ ہونے تک بھی تنخواہوں پر زمین نہ خرید سکے اور کرایہ کے مکان پر خوشحال زندگی گزار دی۔ اور آج اُن کا نام بڑے احترام کے ساتھ دہرایا جاتا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تمام اساتذہ صاحب مکان نہیں ہوسکتے۔ اقساط کی اسکیموں نے بے شک آسانی فراہم کی ہے مگر چادر سے پاؤں نکالنے کا خواب علمِ حق کی طلب سے دُور کیے جارہا ہے۔

حرص الدنیا عذاب الموت۔موت کے بعد اولاد عذاب سے نجات کا ذریعہ بننے کے بجائے عذاب کا باعث بنتے جارہے ہیں۔ سرپرستوں نے اطمینان کرلیا کہ بڑی فیس والے بڑے اسکولوں کو تہذیب سکھانے کی ذمہ داری سونپی ہے۔ غور کریں۔ اکثر مافیا گروہ کے مجرمین جو زمینوں کے قبضہ جات، اکاؤنٹ ہیکرس، غنڈہ گردی میں ملوث نوجوان بڑے اسکولوں سے بھی فارغین ہیں۔

ادب اور تہذیب کی ذمہ داری اسکولوں کو موٹی رقم ادا کرنے سے مکمل نہیں ہوجاتی۔ اس کے لیے ضروری ہیکہ والدین/سرپرستین اولاد کی تربیت کے لیے خود کو بھی کم از کم ہفتہ میں ایک گھنٹہ اپنی تربیت کے لیے دیں۔ جدید ٹکنالوجی کے چلتے اس طرح کی تربیتیں الحمدللہ آن لائن بھی بڑی آسانی سے فراہم ہیں۔ اساتذہ اس جانب غور کریں اور والدین کی کونسلنگ کے لیے ہر ہفتہ میٹنگ کا اہتمام کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!