کہاں ہیں مصلحت پسند ؟
مرزا انور بیگ میرا روڈ۔ تھانہ
بابری مسجد کے تنازعہ کے دوران جو کچھ ملک میں ہوا اور اس سیاسی کھیل کو جس چالاکی کے ساتھ بھاجپا نے اپنے حق میں استعمال کر لیا اس کا اندازہ تو کانگریس کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا۔ حالانکہ اس پورے کھیل کی شروعات کانگریس کے زمانے میں ہوئی۔ ابتدا میں کانگریس کی خاموش حمایت حاصل رہی جب مسجد میں مورتی رکھی گئی۔ اس کے بعد مسجد میں تالا بھی خاموش حمایت سے لگا دیا گیا۔ اس سے زیادہ فائدہ حاصل نہ ہوتا دیکھ کر اس وقت کے کانگریسی وزیراعظم راجیو گاندھی نے مسجد کا تالا کھلوا کر رام مندر کا سنگِ بنیاد (شیلا نیاس) کروا کر کروڑوں ہندو ووٹروں کو خوش کرنے کی کوشش کی جو شاہ بانو کیس کی وجہ سے ناراض ہو گئے تھے۔
یہی وہ موڑ تھا جس کو سنگھ نے پوری طرح بھانپ لیا اور ایل کے ایڈوانی کے ذریعے نفرت کے ماحول کو تیار کرنے کے لئے رام جی کی رتھ یاترا نکالنے کا پروگرام گجرات کے سومناتھ مندر سے اجودھیا تک کا ترتیب دیا۔ سنگھ سمجھ چکا تھا کہ جب تک ووٹوں کو پوری طرح یک طرفہ نہیں کیا جاۓ گا اس وقت تک مکمل اقتدار حاصل نہیں ہو سکتا۔ لہذا وہ نفرتی رام جی کی رتھ یاترا جہاں جہاں سے گزری اپنے پیچھے خوں ریز فساد پھیلاتی چلی گئی۔ اس تاریخ کو بیان کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہمارے وہ نوجوان جو بعد میں پیدا ہوئے انہیں اس تعلق سے کچھ آگاہی حاصل ہو جائے۔
اس رتھ یاترا کو بہار میں لالو پرساد یادو نے روک لیا اور ایل کے ایڈوانی کو گرفتار کر لیا۔ بعد کے حالات اس طرح رہے کہ راجیو گاندھی کو ایل ٹی ٹی ای نے جنوبی ہند میں بم سے قتل کر دیا اور پھر عام انتخابات میں کانگریس پوری اکثریت سے کامیاب ہو گئی اور پی وی نرسمہا راؤ کو وزیر اعظم کی کرسی عطا کر دی گئی جو ظاہر میں سیکولر کانگریسی اور باطن میں سنگھی تھے۔ انہی کے دورِ اقتدار میں 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کو شہید کر دیا گیا۔
اس تنازعے میں بہت سی انسانی جانوں کا نقصان ہوا اور لوگوں کی املاک تباہ ہوئیں۔ اس میں مسلمانوں کی بڑی تعداد کے علاوہ ہندوؤں کی جانیں بھی گئیں۔ کئی ماہ تک بھیانک فسادات ہوتے رہے۔ دوسری طرف سپریم کورٹ میں بابری مسجد رام جنم بھومی ملکیت کا مقدمہ چلتا رہا جو اٹھائیس سال بعد نا انصافی پر اختتام پذیر ہوا۔
اس پورے تنازعے کے دوران مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ ڈٹا رہا اور یہ کہتا رہا کہ سپریم کورٹ جو فیصلہ کرے گا اسے بسر و چشم قبول کریں گے۔ اس کے علاوہ ایک طبقہ وہ بھی تھا جو مصلحت سے کام لینا چاہتا تھا۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ اس خون خرابے کو روکنے کے لئے بابری مسجد کو ہندوؤں کے حوالے کر دینا چاہیے اور ان سے یہ وعدہ لے لینا چاہیے کہ وہ باقی مساجد سے اپنے دعوے سے دست بردار ہو جائیں۔ مثلاً بنارس کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی عید گاہ جس پر کرشن چندر کی جنم بھومی ہونے کا دعویٰ ہے۔ اسی وقت اہل بصیرت کہہ رہے تھے کہ کیا ضمانت ہے کہ وہ بابری مسجد لینے کے بعد اور باقی کی ضمانت دینے کے بعد اپنی باتوں سے مکر نہیں جائیں گے ؟
آج وہ باتیں پوری طرح سچ ثابت ہو رہی ہیں۔ بابری مسجد کا ہندوؤں کو سپریم کورٹ کے ذریعے سونپا جانا جس فیصلہ میں یہ درج ہے کہ اس کے بعد کسی دوسری عبادت گاہ جو آزادی سے پہلے جس کی جو حیثیت تھی اس کو اسی حیثیت پر برقرار رکھا جائے گا اس کے باوجود آج پھر سے متھرا میں کرشن بھومی کا معاملہ اٹھایا جا رہا ہے۔ جو لوگ سپریم کورٹ کو منہ چڑھانے کے علاوہ اور کیا ہے وہ بھلا اس مصلحت پسندی کے تحت کہ بابری مسجد دے دینے کے بعد کیا اپنی زبان پر قائم رہتے ؟ ہمیں عزیمت کا ثبوت دینے کی ضرورت ہے نہ کہ غیر ضروری مصلحت پسندی یا بزدلی دکھانے کی۔